ایک نایاب کتاب کی دریافت کہانی تنقیح العبارۃ لتفتیح البکارۃ 

(تنویر الزین لالصاق الکعبین) از میاں شاہد گل کاکاخیل  تحریر: سلیمان کاکاخیل عفا اللہ عنہ

میاں شاہد گل کاکاخیل، اسیر مالٹا مولانا عزیر گل اور محقق العصر مولانا عبدالحق نافع گل (استاد حدیث دارالعلوم دیوبند) کے والد گرامی تھے۔ میاں شاہد گل کی پیدائش زیارت کاکا صاحب نوشہرہ میں ہوئی، نوجوانی میں درگئی ملاکنڈ ہجرت کرکے وہیں رہائش پذیر ہوکر مدفون ہوئے۔ آپ ایک جید عالم، فارسی زبان کے ادیب و شاعر اور مایہ ناز طبیب تھے۔

 

آپ کی اولاد کی علمیت و شہرت و مقبولیت کی وجہ سے آپ کا تعارف بحیثیتِ عالم کہیں سنا اور نہ دیکھا۔ تاہم آپ کی شاعری اور فارسی زبان پر گرفت کا ذکر کبھی کبھی سنا ضرور تھا۔ نیز آپ کی کتب پر آپ کا طبعزاد شعر بھی دیکھا کرتا تھا، وہ شعر یہ ہے:۔

شہید آن شاہد مشہود اللہ

ندارد التجا عن ماسوی اللہ

 

قصہ مختصر یہ کہ چند سال قبل ان کی تصنیف کے متفرق صفحات واٹسیپ کے کسی گروپ میں بھیجے گئے، دیکھ کر خوشی تو جو ہونی تھی ہوئی، یہ میاں شاہد گل ہی کا رسالہ تھا، راقم الحروف کو چونکہ آپ کی کتابت سے شناسائی تھی اس لیے پہچاننے میں دیر نہ ہوئی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ کے متعدد مکاتیب میرے پاس محفوظ تھے۔ تاہم سات آٹھ صفحوں والا مضمون کئی ماہ بعد کہیں گم ہوگیا۔

 

ابھی سال قبل "فہرست کاکاخیل لائبریری” کے نام سے ایک کتاب مل گئی۔ یہ کتاب بزرگوارم میاں طارق شاہ کاکاخیل کے ذاتی لائبریری کے مخطوطات کی فہرست تھی۔ موصوف سے پہلے بھی رابطہ رہا کرتا تھا اور آپ سے استفادہ ہوتا رہتا تھا۔ اس کے بعد اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس فہرست کو بالاستیعاب مطالعہ کرنا شروع کیا تھا کہ ایک کرم فرما نے یہ مژدہ سنایا کہ میاں شاہد گل صاحب کی ایک تصنیف بھی اس میں موجود ہے۔

 

اس فہرست میں ہر صفحہ پر کتاب کا نام، مصنف کا نام، تعداد صفحات، نوعیت و کیفیت کتاب، سن کتابت وغیرہ کا اندراج ہوتا تھا۔ خیال تھا کہ شاید یہ چند صفحات والا سابقہ رسالہ ہوگا۔ لیکن یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ کتاب کی صفحات 220 سے زیادہ ہے۔ فوراً میاں طارق شاہ صاحب سے پہلے "کاکاخیل لائبریری” میں اس کتاب کی موجودگی کی توثیق چاہی اور بعد ازاں ان سے کتاب کی نقل کی گزارش بھی کردی۔ جسے انہوں نے منظور کرلیا۔

 

مخطوط اور علم مخطوط سے واقفیت نہ سہی پر محبت ضرور ہے۔ میاں شاہد گل صاحب کا یہ دوسرا مخطوطہ تھا جس کی بابت علم ہوا۔ اس سے پہلے آپ کی خودنوشت سوانح/سفرنامہ کے بارے میں والد ماجد نے آگاہ کیا تھا۔ انہیں خود اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا بلکہ کسی نے بتایا تھا کہ آپ کے دادا کی فارسی میں ایک کتاب ہے۔ تاہم پہلا مخطوطہ ابھی تک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کریں کہ وہ بھی مل جائے۔

 

چند ہفتے قبل میاں طارق شاہ صاحب سے ایک بار پھر اس بابت گفتگو ہوئی، انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ہمارے لیے آسانی سے مہیا کرنے میں دیر نہیں کی اور یوں ہمیں اپنے اس تراث کا عکس مل گیا جسے ہم کھو کر بھول چکے تھے۔ جزاہ اللہ عنا۔ لیکن زبان "جد” من فارسی و من فارسی نمی دانم۔ ہمیں فارسی سے واجبی سی واقفیت تھی۔ تاہم کتاب پر سرسری نگاہ ڈالنے سے اس کے مندرجات پر اطلاع حاصل ہوئی، جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

 

1325ھ(1907ء) میں اس کی تالیف ہوئی۔ ص:64 تک الصاق الکعبین پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کی شرعی حیثیت، اس کے متعلق متون و عبارات و فتاوی جات نقل کیے گئے ہیں۔ پھر علم مکاشفہ، قضاء و قدر، اشعار صوفیا اور ان کے تراجم ہے، پھر اپنے تعلم علوم دینیہ کا ذکر ہے، اور ساتھ ہی حضرت کاکا صاحب کے شجرہ نسب کا اندراج بھی کیا ہے۔ اس کے بعد رفع السبابۃ فی التشھد فی شرح معانی الآثار کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس کے ضمن میں طبقات المسائل (اصول، نوادر، واقعات) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقلید پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

 

اس مخطوط پر اس کے زمانے کے علماء کرام کے تصدیقات و تقریظات بھی ثبت ہے۔ جن میں مولانا میاں عبد اللہ (ملا میاں)، سید فیروز شاہ (منظوم تقریظ)، مولانا غلام حقانی(لوند خوڑ) مولانا عتیق اللہ (طورو)، مولانا عبداللہ طوروی، مولانا فضل قادر (خفہ ملا) وغیرہ شامل ہیں۔ اس مخطوط کے مطالعہ سے آپ کی ایک اور تصنیف کا بھی علم جس کا نام مصنف نے "ہدیۃ المتعلمین فی تعلیم الصرف والقوانین” بتایا ہے۔

 

آپ کی مخطوطات و تصانیف کس طرح بکھر گئی یہ ایک الگ داستان ہے۔ جو ان کہانیوں سے مماثل ہے جو اکثر اہل علم کے آثار پر آفت بن کر آتی ہے۔

 

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

Comments are closed.