اولاد کے حقوق اور والدین کی ذمہ داریاں چند گزارشات ۔۔ توجہ طلب : الطاف جمیل ندوی

اسلام ایک متوازن دین مبین ہے جس میں ہر کسی کے حقوق کا بیان ہے یہ نہیں کہ ایک کے حقوق تو ہوں اور دوسرے کے حقوق کا کوئی تصور موجود ہی نہ ہو، پر موجودہ دور کا بدترین المیہ یہ ہے کہ ہم نے دین مبین کی من مانی تاویلات کرکے اس کے مساوی حقوق کے بیان کو بلا دیا، مرد نے اس انداز سے مردانہ حقوق کو بیان کیا بھائی ، شوہر باپ ، کے نام سے کہ خواتین کا دم گھٹنے لگا یہ سوچ کر کہ بہن ، بیوی بیٹی کی حیثیت سے میرے کیا حقوق ہیں، یہ اسلام کے اس مساوی حقوق کے فرمان کے بالکل برعکس ہیں جس کی نظیر بقیہ کسی مذہب میں نہیں ملتی ایسے ہی ہمارے معاشرے میں اولاد کے حقوق کا بھی خوب استحصال ہوتا پے کہ والدین یا تو چودراہٹ کے ساتھ ان کو ضائع کردیتے ہیں یا پھر شفقت میں زیادہ شفیق بن کر اولاد کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے ، مساجد و مدارس میں والدین کے حقوق پر بات ہوتی ہے پر ایسا الا ماشاء اللہ کبھی ہوتا ہے کہ اولاد کے حقوق پر بات ہو ، شہر خاص میں جب ایک بیٹے نے اپنے والدین کی دن دھاڑے مار پیٹ کی تو اس وقت بھی یہی کہا گیا بچہ نالائق ہے کہ والدین کی یوں مار پیٹ کر رہا ہے ، بالکل غلط ہے اور انتہائی بدترین حرکت ہے کہ کوئی جوان بیٹا اپنے والدین پر ہاتھ اٹھائیں، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ہمارے لخت ہائے جگر اپنے والدین سے بدسلوکی پر آمادہ ہوگے ، پرانے لوگ تھے جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں بوسیدہ خیالات کے تھے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے انہوں نے ہمیں کیسے والدین دیے ، وہ والدین جن کی نظر میں وجود آج بھی حیاء و شرافت کا عنصر غالب ہے اور ضد انانیت سے خائف ہی نظر آتے ہیں پھر جب ہماری باری آئی تو اول ہم نے اپنے اسلاف کی مٹی پلید کرنی شروع کی پھر جدیدیت کے سحر میں برباد ہونے کی اور دوڑ میں ہم نے ایسے دوڑ لگائی کہ اپنی نسل کو ہم ضروری ادب سیکھانا بھول ہی گے والدین کا مسئلہ آج صرف یہ نہیں کہ وہ تعلیم کے لئے مستقل مزاجی کے ساتھ اولاد پر نظر نہیں رکھتے بلکہ المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو ایسے ماحول فراہم کر رہے ہیں جس کی ابتداء کی نحوست زدہ اور بے حیاء سماج سے مستعار لی گئی ہے، ہم جدیدیت میں حصہ داری کے لئے اپنی اولاد کے ان حقوق پر شب خون مار رہے ہیں جو اسے اللہ تعالٰی نے دیے تھے اس طریقہ تربیت سے دامن بچا کر جی رہے ہیں جس تربیت کے خدوخال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کئے تھے ، سو نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ والدین بڑھاپے تک پہنچتے ہوئے اس غم میں مبتلاء ہوجاتے ہیں کہ اب کیا کریں کیوں کہ اولاد تو پہلے ہی ان سے نسبت ظاہر کرنے پر اب عار محسوس کر ہی ہوتی ہے سو یوں ہمارا معاشرہ اس ڈگر پر چل پڑا ہے جہاں بڑھاپے کو قید تنہائی یعنی اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہی آسان حل رہ جاتا ہے اور اب تو یہ قید خانے تیار کرائے جارہے ہیں، پہلے یہ بات یاد رکھیں آپ جب اپنی اولاد کی اللہ تعالٰی کی نافرمانی پر دل میں تنگی محسوس نہ کریں جب آپ کی اولاد بلوغت تک بھی اللہ سے تعلق ترک کئے ہو اور آپ کو اس جانب توجہ دینے کی چمداں ضرورت محسوس نہ ہو اسلام سے بیزار ہوتی اولاد کی آپ کو فکر نہ ہو تو، یاد رکھیں یہ اولاد کبھی آپ کو خوشی نہیں دے گی اور نہ ہی آپ کی تابعدار رہے گی بس سیدھی سی بات ہے آپ نے اولاد کو اللہ کا باغی بنایا اللہ آپ کی اولاد سے آپ کی محبت و عقیدت کا قلبی تعلق ختم کرے گا اور آپ کی اولاد بھی بالکل اسی طرح آپ سے منہ موڑ لے گی جس طرح آپ خوش تب ہوئے جب اس نے اللہ تعالٰی کے احکام سے منہ موڑ لیا تھا اور آپ نے اس جانب توجہ نہیں دی تھی ہماری بستی کے ایک صاحب نے ایک پنڈت حکیم سے بچے کی شرارت کی شکایت کی پنڈت حکیم نے پوچھا بچے نے قرآن پڑھا ہے یہ بولا نہیں تو اس پنڈت حکیم نے کہا سنو اسے اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف دو شرارتیں خود ہی ختم ہوجائیں گئیں اولاد اللہ تعالٰی کی عظیم نعمت ہے اس کے حقوق کی اور توجہ دیں اور تربیت کریں پھر امید رکھیں یہ اولاد آپ کے لئے تا زندگی خود کو نچھاور کرتی رہے گی بچپن سے جوانی تک اس کے حقوق کا خیال کریں یہ بڑھاپے میں آپ کا سہارا بنے گئی

تربیت اولاد کے سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں

قرآنی اسباق

حضرت لقمانؑ کے بارے میں قرآن کریم کی ایک سورت کے جس میں ان کا نمایاں کارنامہ یہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت کیسے کی یہی سب چیزیں گر والدین قرآن کریم کی روشنی میں سمجھ جائیں تو بقیہ راستہ آسان ہوجائے گا مطالعہ قرآن کی روشنی میں آپ بھی پڑھیں ،،

حضرت لقمانؑ نے آگے فرمایا، مفہوم: ”اے میرے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تب بھی اسے معمولی نہ سمجھنا کہ وہ عمل) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا پھر زمین کے اندر (زمین کی تہہ میں چُھپا ہوا ہو) ﷲ تبارک و تعالیٰ اسے ظاہر فرمائیں گے، بے شک! ﷲ تعالیٰ بڑا باریک بین و باخبر ہے۔، اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو، اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو، اور بُرے کاموں سے منع کیا کرو، اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو، بے شک! یہ (صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ، اور زمین پر تکبّر سے مت چلو، بے شک! ﷲ تعالیٰ کسی متکبّر کو پسند نہیں فرماتے، اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اپنی آواز کو پست رکھو، بے شک! سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔” (سورۃ لقمان)

وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَٰهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍۢ ۚ كُلُّ ٱمْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌۭ ﴿21﴾

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (سورۃ الطور،آیت 21)

گر آپ صاحب ایمان ہیں تو لازم ہے کہ آپ اولاد کی تربیت بھی انہیں خطوط پر کریں جن کی نشاندہی ایمانی تعلیمات میں کی گی ہے یہ نہیں کہ صالحیت کی معراج پر آپ خود جائیں اور اولاد کو ظلمات کے گرداب میں بے یار و مددگار غار چھوڑ دیں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ سے باز پرس بھی ہوگی اور یہ خسارہ بھی ہوجائے گا آپ کے لئے،،

 

احادیث سے چند اسباق *

 

*پیدائش سے پہلے*

1-نیک اور صالح اولاد کے حصول کی دعا

2-بچے کے لیے نیک و صالح و پاک دامن ماہ کا انتخاب

3-ماں کے پیٹ میں اس کی حفاظت کرنا

4- ماہ کے پیٹ میں اس کو زندہ رکھنا

*پیدائش کے دن*

5-بچے کے کان میں اذان دینا

6-عقیقہ کرنا

7-اچھے نام کا انتخاب کرنا

8-ختنہ کروانا

9- اپنے ماں باپ کے نسب کی طرف انہیں منسوب کرنا

10-ان کے لیے دودھ اور غذا کا بندوبست کرنا

11-ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا

12-ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی کا معاملہ کرنا اولاد کے درمیان عدل و انصاف برتنا

13-دستور کے مطابق ان کے اوپر خرچ کرنا

13-ان کو روزگار کے لائق بنانا

14-ان کی غلطی وہ کوتاہی کی نشاندہی کرنا سرزنش کرنا اور پھر انہیں معاف کر دینا

15-ان کی مناسب جگہ شادی کرنا

16- اولاد کے حق میں دعائے خیر کرنا ہے

ذرا آپ غور کریں ان باتوں پر کیا آپ نے اس جانب کبھی توجہ دی ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا حقوق کی ادائیگی کے لئے کبھی کوئی کوشش کی ہے یا ایسا آپ نے کبھی سوچا ہے ہے گر ہاں تو آپ کو اپنی قسمت پر نازاں ہونا چاہئے آپ صالح والدین ہیں گر نہیں تو سوچیں کیوں ویسے گر والدین اولاد کے حقوق ادا نہ کرسکیں تو وہ انسان بھی تو نہیں ہیں کھانے پینے رہن سہن کا حیوانی طریقہ تو حیوان بھی اپنی اولاد کو سیکھا دیتے ہیں انسان اشرف المخلوقات سے ہے سو اس کی تربیت نمایاں اور اعلی معیار کی ہونی چاہئے چلیں چند احادیث اور بھی عرض ہیں توجہ دیں

 

۱ کلمہ کی تعلیم اور نماز کا حکم کب دیں؟:-

حضرت ابن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

إذا أفصح أولادُكم فعلموهم لا إله إلا اللهُ ثم لا تبالوا متى ماتوا وإذا أثغروا فمروهم بالصلاة

ترجمہ:

جب تمہاری اولاد میں سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے انھیں لا الہ الا اللہ سکھاؤ پھر تم بےپرواہ ہوجاؤ کہ کب بھی وہ مرجائیں(کیونکہ کلمہ انہیں آتا ہے)۔ اور جب تمہاری اولاد کے دانت گرنے لگیں انھیں نماز کا حکم دو۔

 

بچے کو ابتدائی الفاظ جو آپ یاد کرائیں وہ پاکیزہ اور اچھے الفاظ ہوں اور کلمہ طیبہ سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے سو بچے کو ابتداء میں ہی کلمہ کی تعلیم کرائیں کہ وہ خوب یاد کرے اور یہ الفاظ اس کے قلب و دماغ میں رچ بس جائیں ایسا پہلے ہماری وہ مائیں کرتی تھیں کہ بجائے کوئی گیت سنانے کے اللہ اللہ کر کے سلاتیں یقین کریں مجھے میری دادی نے ہی پہلی دعائیں سکھائیں ہیں اور نماز بھی انہوں نے نے سکھائی اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے دوسرا کام اپنے بچوں کو نماز کی ترغیب دیں جب ان کے پہلے دانت گرنے شروع ہوجائیں ایسا ہرگز نہ کریں کہ بچہ بلوغت سے آگے بڑھ چکا ہے اور آپ کو ضد ہے کہ رہنے دیں خود پڑھے گا ابھی تو بچہ ہے

 

۲ حضور ﷺ کا ایک اور ارشاد ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اُسے نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس برس کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اُسے مار کر نماز پڑھا ؤ اور اُسے الگ سلایا کرو۔‘‘(ابو داؤد) اس میں بھی وہی تعبیر ہے جو اس سے پہلے گزر گئی

 

۳۔ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے بنیادی اصول و ضوابط جن پر گر آپ عمل کریں تو یقینا آپ اپنے ذمہ داری کے بوجھ کے ساتھ اللہ تعالٰی کی رضا پائیں گے اور اولاد آپ کے لئے سکون قلب و جان بنی رہے گئی

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

۱۔ بچہ پیدا ہوجائے اس کی تحنیک کریں پھر جب بچہ جب ایک ہفتے کا ہو جائے تو اس کا عقیقہ کریں نام رکھیں اور اسے نہا دھوکر پاک کریں۔

۲۔ چھ سال کا ہو جائے تو اسے آداب کی تعلیم دو۔ ابتدائی تربیت شروع کریں صرف بتائیں ہی نہیں بلکہ اس کے سامنے ایسے رہیں کہ آپ کام کرتے جائیں اور وہ تربیت حاصل کرتا رہے

۳۔ نو سال کا ہو جائے تو اس کا بستر علیحدہ کردو۔ مطلب جوں ہی اس کی سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے اس کا بستر علیحدہ کرین اب تو آجکل کے زمانے میں گر۔نو سال سے پہلے ہی ہوجائے تو بھی بہتر ہے کیونکہ اب تو بچے شروع ہی سے حساس ہوتے جارہے ہیں

 

۴۔ تیرہ سال کا ہو جائے تو نمازنہ پڑھنے پر اسے سزا دو (مارو پیٹو) ۔ اب گر بالغ ہوکر بھی اولاد بے نمازی ہو تو اس سلسلے میں اپنے علماء سے پوچھیں اس کا حکم ایک بات گرہ میں باندھ لیں کہ اللہ تعالٰی کے حکم میں کسی بھی قسم کی کسی سے کوئی رعایت کبھی نہ کریں اللہ خوب نوازے گا

۵۔ سولہ سال کا ہو جائے تو اس کا بیاہ کرو۔(تب اس کا ہاتھ پکڑ کر کہو کہ لو بیٹا میں نے تجھے (پالا پوسا) ادب و تہذیب سے آراستہ کیا ۔جن چیزوں کی تعلیم لازمی تھی وہ تجھے دلوائی اور اب تیرا نکاح بھی کر دیا ۔پس اب میں اس دنیا میں تیرے فتنہ سے اور آخرت میں تیرے عذاب سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں،، ہاں سماجی اور موجودہ فرسودہ معاشرے کی رسوم بد کا بہانہ بنا کر ایسا نہ کریں کہ تیس پینتیس سال تک بنا شادی کے رکھ کر اسے حیاء بتاتے رہیں اور پاکدامنی کا سبق پڑھائیں چند چیزیں فطرت میں ہوتی ہیں جن سے بغاوت انسان سے ممکن ہی نہیں آپ اپنی اولاد کو بظاہر جذبات سے روک سکتے ہیں لیکن اس دوران جو وہ گناہوں میں مبتلاء ہوگا اس کا گناہ آپ کے سر بھی جائے گا سو اس جناب خیال رکھیں ویسے بھی اب معاشرت میں کافی برائیاں پیدا ہورہی ہیں اب زیادہ اہمیت ہے اس کی کہ وقت پر نکاح ہوجائے

 

۰۴ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں بچہ پیدا ہو وہ اسے اچھا نام دے اس کی تربیت کرے جب بالغ ہو جائے اس کی شادی کرے ۔اگر بالغ ہونے پر اس کی شادی نہ کی اور وہ گناہ میں پڑ گیا تو اس گناہ میں اس کا باپ بھی شریک ہو گا۔ اس کی تفصیل گزر گئی ہے

 

۵ تربیت اولاد

حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اکرمو اولادکم واحسنو ادبھم۔ ”اپنی اولاد کی عزت کرواور ان کو بہترین ادب سکھاؤ۔“ جو والدین اپنی اولاد کو ادب سکھائیں اس عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لان یوء دب احدکم ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع۔ تم میں سے کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھا ئے یہ عمل ایک صاع کی مقدار صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

 

۶ حق تعلیم وتربیت

بچے کی پرورش کے ساتھ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرنا بھی والدین پر فرض ہے اور یہ بچے کا بنیادی حق ہے۔ اگر والدین اس میں کوتاہی کریں گے تو اللہ کے سامنے مجرم ٹھہریں گے۔اس میں کوتاہی کرنا قیامت میں اللہ کے سامنے قابل مواخذہ جرم ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ الاحزا ب میں قیامت کے دن کفار کی ندامت اور اپنے بڑوں کو مجرم ٹھہرانے کا منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: وقالوا ربنا انا اطعنا سادتنا وکبراء نا فاضلونا السبیلا۔ ربناآتہم ضعفین من العذاب والعنھم لعنا کبیرا ( سورۃ الاحزاب 67،68)۔”اور(کفار) اس روز کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم (دنیا میں) اپنے معززین اور بڑوں کی اطاعت کرتے رہے انہوں نے ہمیں صحیح راہ سے بھٹکایا۔ اے پروردگار ! آج کے دن انہیں دوگنا عذاب دیجئے اور ان پر ڈھیر ساری لعنت کیجئے

 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت؛ اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘

عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

 

ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبہیقی)

 

تعلیم و تربیت میں والدین کا بہت بڑا کردار ہے گر والدین اس سے غفلت برتیں گئے تو یقین کریں ہم ایک ایسی نسل کو پروان چڑھائیں گئے جو بظاہر تو انسان ہوں گئے پر ان کی حرکات و سکنات وحشیانہ ہوں گئی جو سماج اور معاشرے کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی مصیبت ہوجائیں گے للہ فی اللہ اس جانب خاص توجہ دیں نہیں تو تیار رہیں اس دم گھٹنے والے ماحول کے لئے جو آج کل پروان چڑھ رہا ہے اور جس کے نظارے آج کل دیکھائی دے رہے ہیں سو جو آپ اپنی اولاد کو سکھا رہے ہیں وہ اسی کے عین مطابق بنے گی آپ لوہار بنائیں گئے تو سنار کی توقع نہ کریں کیونکہ

مَثَلُ الَّذِي يَتَعَلَّمُ الْعِلْم فِي صِغَرِه ِکَالنَّقْشِ عَلَی الحَجَر۔

(الجامع الصغیر سیوطی جلد 2-3صفحہ 153)

بچپن کا سکھایا ہواپتھر پر نقش کی طرح ہوجاتا ہے۔ سو دھیان دیں

 

۷ اولاد کی عزت کرو

حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اکرموااولادکم واحسنو ادبھم۔ ”اپنی اولاد کی عزت کرواور ان کو بہترین ادب سکھاؤ۔“ جو والدین اپنی اولاد کو ادب سکھائیں اس عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لان یوء دب احدکم ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع۔ تم میں سے کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھا ئے یہ عمل ایک صاع کی مقدار صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ

اَکْرِمُوْااَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوا اَدَبَھُمْ

اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو

۸ اولاد سے شفقت

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے بڑھ کر بچوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا۔

انصاف کرو

ہمارے والدین یا سرپرستوں میں بدترین برائی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹی عمر کے یا اولاد کی عزت نفس کا خیال نہیں کرتے اور بس خود کو توپ ثابت کرنے کے لئے ہروقت غصہ و غضب ناکی کے زیر اثر رہ کر اکثر اولاد یا بچوں کو ایسی ایسی باتیں سناتے ہیں جن سے ان کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے سو وہ ضدی حاسد بن کر آپ سے اندر ہی اندر نفرت کرنے لگتے ہیں جب ضرورت ہو تو ادب و احترام سے انہیں سکھائیں پیار و محبت سے سمجھائیں وہ آپ کی شفقت و محبت کے طلب گار ہیں انہیں اس حق سے ہرگز محروم نہ کریں انہیں سکھائیں پر ساتھ میں انہیں اپنی محبت و شفقت سے اپنا بنائیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سی غلطی سے وہ آپ سے دور رہیں اور آپ کو قابل نفرت وجود مان کر اپنے لئے کوئی جائے محبت کسی اور طرف تلاش کرنے نکل جائیں اور بربادیوں کے اندھیرے میں گر کر تباہ ہوجائیں

بیٹیاں بھی اولاد ہی ہیں

میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے ۔(حضور اقدس ﷺ نے اپنے دونوں مبارک ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر کے فرمایا ) جس کی دو بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کی کفالت کی ،یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ گئیں ۔قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح یکجا ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم)۔۔۔۔حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔جب کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کے ہاں اﷲ تعالیٰ فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں ۔گھر والو! تم پر سلامتی ہو ۔پھر فرشتے بچی کو اپنے سایہ میں لے لیتے ہیں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں ،یہ کمزور جان ہے ۔جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوتی ہے ۔ جو اس کی پرورش اور تربیت کرے گا۔ ‘‘ روز حشر اﷲ کی مدد اس کے شامل حال ہو گی ۔(طبرانی)

 

حضرت سراقہ بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے ،اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اور افضل نہیں ۔

 

یہ بیٹیاں جو ہیں بس اتنا یاد رکھیں ان سے کائنات کے امام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیار تھا اور انہوں۔ ے بیٹیوں کے حقوق بیان کئے ہیں سو ان بیٹیوں کی پیدائش پر اداس نہ ہوں بلکہ ایسا تصور کریں کہ اب دنیا میں آپ کا خیال رکھنے والی آپ کی لخت جگر آگئی ہے جو آپ کی اداسی و خوشی میں آپ کے ساتھ ہی رہے گی آپ جیسے ہوں گے وہ ویسی ہی رہے گا اسے آپ کی ضروریات آپ سے زیادہ پتہ ہوں گئیں یہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی یہ تو۔ آپ کے لئے قرار جاں بن کر عمر گزار لیں گئیں جو آپ انہیں شفقت سے نوازتے رہو گے

 

انصاف کیا کریں

 

اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم (صحیح بخاری)

"اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کےدرمیان انصاف کرو۔”

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک اولاد سے محبت تو دوسری سے کدورت رکھ کر ہم ایسی وصیتیں کر دیتے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا سو یاد رکھیں بڑھاپے کی ایسی وصیتیں جن میں ایک اولاد کا حق مار کر آپ دوسری اولاد کو نواز رہے ہیں ایسی حرکت کرنا جہنم کا ایندھن بننے کے لئے کافی ہے انصاف کریں ہر اولاد کا حق ادا کریں اور برابر کریں اسی طرح ہم اپنی بیٹیوں کے حقوق پر شب خون مار کر انہیں کہتے ہیں اپنے بھائیوں کے لئے تم اپنے وراثت کے حق سے دستبردار ہوجائیں خدا کا خوف کریں رب العزت کی قسم یہ ناانصافی ہے ان بیٹیوں کو بھی اپنا حق دیا کریں پھر ان کی مرضی ہے وہ کیا کرتی ہیں پھر بھی سوچیں کیا دستبردار صرف بہن ہوسکتی ہے پر کیوں آپ بیٹے سے بھی کبھی کہہ کر دیکھیں کہ بیٹا بہن کے لئے اپنا حصے سے دستبردار ہوجا نہیں ہوگا یہ ذمہ ہم نے صرف بہن بیٹیوں کے لئے مختص رکھا ہے کاش ہم اس خبیث عمل سے اجتناب کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرتے اور اس ناسور کو اپنے سماج سے دور کردیتے شاید ہماری بہن بیٹیاں بھی سکھ کا سانس لے پاتیں

 

اولاد کو بدعا مت دو

 

جابر بن عبد الله رضي الله عنهما مرفوعاً: «لا تدعوا على أنفسكم؛ ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يُسأل فيها عطاءٌ فيستجيب لكم

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ تم اپنے خلاف بد دعا کرو اور نہ ہی اپنے مال و اولاد پر۔ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا ہو اور وہ تمہاری بد دعا قبول کر لے

ہماری مائیں اس کا سخت خیال رکھیں کہ اپنی اولاد سے خفا ہوکر کسی صورت بھی بددعا نہ دیں کوئی ساعت ایسی ہوتی ہے کہ آپ کے منہ سے دعا نکلی نہیں کہ بارگاہ الہی میں قبول ہوگی پھر پچھتاوا ہوتا ہے تمام عمر میرے سامنے ایسا ہوا ہے بچہ اسکول کے لئے نکلا ماں سے کھانے کا ٹپن مانگا ماں نے مشغولیت کے سبب صبر کا کہا بچے نے تنگ کرنا شروع کیا ماں نے کھانا تو دیا ساتھ میں کہا اللہ کرے تو آج ہی مرجھائے اور تیری لاش واپس آئے بچہ باہر آیا تھوڑی دیر سڑک کنارے انتظار کیا گاڑی کے آنے کا کہ اسی دوران ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا صرف چند گھنٹوں میں اس بچے کا جنازہ ماں کے سامنے پہنچ گیا وہ دہائیاں دیتی رہی پر اب تو بہت دیر ہوگی تھی سو آپ ماں ہیں یا باپ ہیں بد دعائیں دینے سے ہر صورت اجتناب کیا کریں شاید کہ ہنستے مسکراتے گھر میں آپ کا چراغ بجھ کر آپ کو پھر تمام عمر کے آنسو دے جائے

چلتے چلتے آپ اپنی اولاد کو اللہ تعالٰی اور رسول ّکائنات کا فرمان بردار بنائیں انہیں صالح مزاج بنائیں ان کی کامیابی کے لئے خوب دعائیں مانگیں اللہ تعالٰی ضرور آپ کو اولاد کی طرف سے سکون دے گا وہ آپ کی خادم بن کر رہے گی ایسا نہ کریں کہ ان کے حقوق ان کی تعلیم و تربیت سے آنکھیں موند کر بڑھاپے میں اپنے حقوق کی دھائی دیں اور سمجھیں کہ معاشرہ خراب ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حصے کا کام۔کریں باقی اللہ سے اچھے کی توقع رکھیں

فی امان اللہ

✍️🏻 الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر

Comments are closed.