دارالعلوم ندوۃالعلماء کی سیر ( پہلی قسط )

فتح محمد ندوی کھجناوری

آج چہار رکنی وفد مولانا خالد ندوی کی امارت ۔مولانا محسن ندوی اور مکرم مطلوب ندوی کی مشترکہ نگرانی میں علم و ادب کی سرزمین لکھنؤ میں ہمارا قافلہ قدم رنجہ ہوچکاہے۔سفر کے امیر مولانا خالد ندوی صاحب کی ہدایات پر ہم لوگ سیدھے مفتی سرور فاروقی صاحب مدظلہ العالی کی رہائش فاروقی منزل مکارم نگر پہنچے ۔ مفتی فاروق صاحب کے یہاں ناشتہ کا پروگرام پہلے سے طے تھا .پر تکلف ناشتے کے دورانیہ میں داعی اسلام مولانا مفتی سرور فاروقی صاحب سے مختلف علمی امور پر تبادلہ ہوا خصوصا قرآن کریم کے اردو اور انگریزی تراجم اور تفاسیر پر معلوماتی گفتگو ہوئی۔
مولانا مفتی سرور فاروقی صاحب دارالعلوم ندوۃالعلماء کے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام سے منسلک رہے ہیں۔مفتی صاحب داعیانہ مزاج کے حامل ہیں ۔مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے مشن میں دعوتی لٹریچر کی اشاعت کو اولیت حاصل تھی ۔اس دعوتی مشن کے پیش نظر مفتی صاحب نے دعوتی کاموں کے ساتھ اسلامی لٹریچر کے حوالے سے بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے ۔خصوصا قرآن کریم کی اردو اور ہندی میں تفسیری کام قابل قدر ہے ۔مجموعی طور پر مفتی صاحب کی اصل خدمات کا دائرہ دعوت و تبلیغ کے ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں ہے۔ آپ کی ہندی انگریزی اور اردو میں درجنوں شاہ کار تصنیفات اہل علم و فن کے نزدیک قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

اس سفر کی اصل غرض و غایت استاذ الاساتذہ ڈاکٹر سعید الرحمٰن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃالعلماء کی علمی بارگاہ میں بغرض عیادت حاضری پیش کرکے دعائیں سمیٹنی تھی۔مولانا سعید الرحمٰن اعظمی صاحب مدظلہ العالی مہینوں سے علیل ہونے کے سبب صاحب فراش ہیں ۔مغرب کی نماز ندوۃالعلماء کی مسجد میں ادا کرنے کے بعد ڈاکٹر سعید الرحمٰن اعظمی صاحب کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔مولانا کے داماد اور خادم مولانا عبد اللہ مخدومی حفظہ اللہ تعالٰی ہمیں لیکر حضرت مہتمم صاحب کی بارگاہ میں پہنچے ۔ سلام دعا کے بعد خاموشی کے ساتھ حضرت والا کے سامنے بیٹھ گئے ۔ شیر سویا ہوا بھی ہو تو رعب و دبدبہ پھر بھی باقی رہتا ہے۔حضرت مہتمم صاحب نیم غنودگی کے عالم میں محو استراحت تھے ۔ پھر بھی اس قدر رعب طاری تھا کہ دیر تک کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ حضرت کی بارعب اور وجیہ شخصیت کے سامنے لب کشائی کا یارا کر سکے ۔کچھ دیر نیاز حاصل کرنے کے بعد خوب دعائیں لیکے واپس ہوئے۔
حضرت مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی کی ( 1934) پیدائش اور تربیت جس ماحول اور گھرانے میں ہوئی وہ گھر پوری طرح علم و تقوی کے نور و سرور سے آباد اور شاد تھا۔آپ کے والد محتترم حضرت مولانا محمد ایوب صاحب نوراللہ مرقدہ کو حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ سے شرف تلمذ حاصل ہونے کے ساتھ یہ اعزاز بھی تھا کہ وہ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کی مسند حدیث پر بطور شیخ اکیس سالوں تک جلوہ آراں رہے۔
دارالعلوم دیوبند کی فکری روایتوں کے حامل حضرت مولانا ایوب صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اس وقت جو روڑ میپ تیار کیا تھا وہ ان کی ذہنی وسعت اور مستقبل کی ادا شناسی کا مظہر تھا ۔انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کا انتخاب عالم دین بنانے کے ساتھ فن طب کے لئے کیا۔ ان کا تقرر بحیثیت مدرس طب جامعہ طبیہ دارالعلوم دیوبند میں ہوا ۔آپ کے منجھلے بیٹے مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب اعظمی کو عربی زبان و ادب میں مہارت کے لئے دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ بھیجا۔ چھوٹے بیٹے جناب ڈاکٹر مسیح الرحمن صاحب کو عصری علوم کے لئے چنا ۔ وہ نیشنل شبلی ڈگری کالج اعظم گڑھ کے پروفسیر رہے۔غرض تینوں بیٹے اپنے اپنے حلقوں میں معروف ومشہور بلکہ تینوں کو معاصر عہد میں شان امتیاز حاصل رہا۔
ڈاکٹر سعید الرحمٰن صاحب اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اس ذکر کے ساتھ آپ کی کوہ پیکر شخصیت اور ہمہ گیر خدمات کا مطالعہ مقصود ہے ۔یاد رہے آپ کی علمی اور دینی خدمات کے مختلف عنوان اور جہتیں ہیں۔ انفرادی طور پر ذکر و عبادات صلاح و فلاح۔تقوی و طہارت۔نیکی و نیک نفسی۔جذب و فنائیت ۔ عشق و محبت جیسے پاکیزہ اوصاف کی قوس قزح سے آپ کا باطن روشن ہے۔مزید کثرت تلاوت قرآن کریم اور مسلسل تکبیر اولی کے اہتمام سے وہ مقربان بارگاہ الٰہی میں شامل ہیں۔

آپ کے تمام علمی ۔ تصنیفی درسی ۔صحافتی اور انتظامی مشاغل میں سے کوئی بھی مشغلہ ایسا نہیں جس کو ہم ہلکا سمجھ کر کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت عطاء کرکے اس کے گراف کو کمتر کردیں۔ جب ان کو دارالعلوم ندوۃالعلماء کے مسند اہتمام پر بہ حیثیت منتظم دیکھتے ہیں تو ایسا لگتاہے کہ ان کے پیکر میں انتظامی امور کی تمام خوبیاں اور صفات مشیت کی طرف سے پوری طرح ودیعت کردی گئیں۔
اسی طرح ان کے علمی۔ تصنیفی ۔خصوصا عربی زبان وادب اور عربی صحافت کی گرانقدر خدمات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو سات دہائیوں پر مشتمل آپ کے تمام علمی۔ تصنیفی اور صحافتی ڈکشن کی وسعت اور تنوع پر یہ گمان ہوتاہے کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں بلکہ آپ کے علمی جہاد کی تخلیق میں منظم جماعتوں کا کردار شامل ہے۔
بہ حیثیت مدرس جب ان کا تدریسی انہماک دیکھتے ہیں تو ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہزاروں باکمال شاگرد ان کی گہری علمیت اور عظمت کا پتہ دیتے ہیں ۔ہمارے اپنے خیال کے مطابق اس عہد میں ندوی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی ندوی فاضل یا عالم دو چار کو چھوڑ کر ایسا نہیں ہوگا کہ اس نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مولانا سعید الرحمٰن اعظمی صاحب کے دریائے علم سے سیرابی حاصل نہ کی ہو ۔
اس عہد میں اگر کو ئی مجسم شکل میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے منہج ۔مزاج اور فکر و خیال ۔زبان و بیان ۔ادب و انشاء بلکہ حضرت اقدس مولانا احمد علی مونگیری اورعلامہ شبلی کے باہمی امتزاج کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ ڈاکٹر سعید الرحمٰن صا اعظمی کے پیکر میں ان تمام عناصر کو عملی طور پر دیکھ سکتا ہے ۔جاری
5نومبر 2024 منگل
۔

Comments are closed.