سعودی عرب بے حیائی اور کفر و شرک کی راہ پر گامزن: محمد عباس الازہری

کہاں ہیں وہ اہلِ توحید جو کفر و شرک کے فتوے لگاتے تھے؟ کہاں ہیں وہ منہجِ سلف کے پیروکار جو اصلاح کا دعویٰ کرتے تھے؟ خادم الحرمین الشریفین کی سرپرستی میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر اگر یہ برائیاں عام ہوں تو اسلام کے دشمنوں کو انگلی اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ ایسے میں لازم ہے کہ شؤون الدعوة والإرشاد اپنے دائرہ کار کو حج و عمرہ تک محدود رکھنے کے بجائے حکمرانوں اور صاحبِ اقتدار افراد کو بھی دعوت و نصیحت کرے، تاکہ ان کے دلوں میں تقویٰ اور خوفِ خدا پیدا ہو۔

ریاض کے میلے میں جو کچھ ہو رہا ہے، جیسے فحاشی، عریانی، تفریح کے لیے کعبہ کی شکل کا مجسمہ تیار کرنا، اس کے گرد بے حیاء خواتین کا طواف کرنا، اور وہ تلواریں جو کبھی دین کے دفاع کے لیے بلند کی گئی تھیں، انہیں رقاصاؤں کی کمر پر سجانا، یہ سب شیطانی عمل کی گندگی ہے۔ ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں اس بڑے فساد، وسیع شر، اور سنگین منکر سے۔

اللہ کی قسم! مغربی ممالک میں بھی فحاشی کرنے والے ایسی حرکات کی جرأت نہیں کرتے، جیسی جرأت مکہ و مدینہ، سرزمینِ حرمین شریفین، اور رسالت کے مقدس مرکز میں کی جا رہی ہے۔

یہ میلے کوئی اتفاقیہ سرگرمی نہیں، بلکہ مسلمانوں کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور ان کے اخلاق و کردار کو بگاڑنے کی منظم سازش ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ معیشت کی ترقی اور سیاحت کے فروغ کے لیے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال ہیں۔ کیونکہ اللہ کے فضل کو اس کی نافرمانی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

وہ علماء جو دین کے نام پر فتنے پھیلا رہے ہیں اور حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے حق کو چھپاتے ہیں۔ اللہ ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے۔

جو کوئی اس فساد کو فروغ دینے میں شریک ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دنیا اور آخرت میں اللہ کے دردناک عذاب کا مستحق ہے۔ اے اہلِ بصیرت! عبرت حاصل کرو اور اپنے دلوں کو جھنجھوڑو۔

قال الله تعالى :{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}.

اللہ تعالیٰ کا فرمان:

"بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”

(سورۃ النور: 19)

✍محمد عباس الازہری

Comments are closed.