صحبت کا بھی تو میری جان اثر ہوتا ہے

غزل
نگار فاطمہ انصاری
مسلسل نیا الزام میرے سر ہوتا ہے
عشق میں ہی فقط یہ تحفہ نظر ہوتا ہے
اس کا مسئلہ ہے ہماری عادتیں نہیں ملتی
اسے بتاؤ جدا ارکان میں ہی گھر ہوتا ہے
لڑتا رہا میں ہر سنگ راہ سے مگر
گمراہوں کے ساتھ کب مکمل سفر ہوتا ہے
کیا ہوا ؟ ہو گیا ہوں اگر میں تمہارے جیسا
صحبت کا بھی تو میری جان اثر ہوتا ہے
تجھ سے بچھڑے تب جاکر معلوم ہوا ہے
عشق سے گزرے ،تو ہی بندہ گوہر ہوتا ہے
برسوں کی تھکان کو پل میں جدا کر دے
فقط محبوب کی آواز میں وہ ہنر ہوتا ہے
عمر ایسی ہے کہ ہر بات دل کو لگتی ہے
جو درد اُدھر نہیں ہوتا ، اِدھر ہوتا ہے
Comments are closed.