غیرمسلموں کے حقوق اوران سے تعلقات

محمدفیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت دارالقضاء
آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ، ناگپاڑہ ممبئی۔۸
[email protected]
اسلام میں ان لوگوں کے کچھ حقوق ہیں یانہیں جو مذہبِ اسلام کوسِرے سےمانتے ہی نہیں ؟اس سلسلے میں مناسب ہے کہ پہلے ان لوگوں کاتعارف ہوجائے،پھر ان سے تعلقات اوران کےحقوق پر بحث کی جائے۔
غیرمسلم کی تعریف:
لفظ”غیرمسلم” مسلم کی ضدہے، یعنی جومسلمان نہیں،وہ غیرمسلم ہے؛ لہذااب جانناہے کہ شریعت کی اصطلاح میں مسلم کی تعریف کیاہے؟ مجموعہ قوانین اسلامی شائع کردہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ میں مسلمان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
مسلمان وہ ہےجو اللہ کے وجود، اس کی وحدانیت،اس کی تمام صفات،اس کے نبیوں اوراس کی بھیجی ہوئی سبھی کتابوں پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھے، نیزحضوراقدس جناب محمد رسول ﷺ کے آخری نبی ہونے پر اس کایقین ہو،اس طرح کہ آپ کے بعد کسی قسم کاکوئی نبی نہیں آسکتا، اور ضروریاتِ دین یعنی ان تمام چیزوں پر ایمان لائےجن کاحضورﷺ کے ذریعہ آنابالضرورۃ (بلاشک وشبہ)معلوم ہے،اوران باتوں کازبان سے بھی اقرارکرے۔(مجموعہ قوانین اسلامی، دفعہ نمبر:۱)
اس کاخلاصہ یہ ہے کہ غیرمسلم وہ انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات یااس کےبھیجے ہوئے سبھی پیغمبروں پر ایمان نہ لائے،یاحضرت محمد ﷺ کو آخری پیغمبر نہ مانے،اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں سے کسی ایک کابھی انکارکرے۔یااللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی دوسرے کو کسی بھی درجہ میں شریک ٹھہرائے،تووہ غیرمسلم ہے۔
اس تعریف میں عیسائی، یہودی،ہندو،جین،سکھ،بودھ،قادیانی،بعض شیعہ اورآج کل کے شکیل بن حنیف کو ماننے والے سب ہی شامل ہوجاتے ہیں۔
آج کل کے غیر مسلموں کی تین قسمیں ہیں:
(۱) ایسے غیرمسلم جن کے ساتھ مسلمانوں کاامن وآشتی اوربقاء ِ باہم کامعاہدہ ہواہو، اورہرایک کی جان ومال ایک دوسرے سے محفوظ ہوں۔
(۲) دونوں کے درمیان معاہدہ تو نہ ہواہو، لیکن دونوں کوحکومتی سطح پر امن وامان کا پروانہ ملاہواہو، دونوں کوقانونی طوپریکساں حقوق دئے گئے ہوں، اورقانونی طورپر دونوں کے حقوق ایک دوسرے سےمحفوظ ہوں، ایک دوسرے کی جان ومال سے کھلواڑقانونی طورپر جرم ہو۔
(۳) غیرمسلموں سے معاہدہ نہ ہواہو،اورنہ حکومتی سطح پراورقانونی طور پرایک دوسرے کے مال وجان محفوظ ہوں،اوروہ مسلمانوں سےہمیشہ برسرِ پیکار ہوں۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتےہوں،حتی کہ موقعہ ملے توقتل وغارت گری سے بھی باز نہ آئیں۔
ہندوستان کےہرشہری کوخواہ وہ کسی بھی مذہب کاماننے والاہو،چوں کہ قانونی طورپرجان ومال کاتحفظ حاصل ہے،اورہرشہری نے حکومت سے امن وامان اوربقاء باہم نیز کسی کو جانی ومالی نقصان نہ پہونچانے کاعہد کیاہواہے،اس لیے ہندوستان کےغیرمسلمین دوسری قسم میں داخل ہیں۔
پہلی اوردوسری قسم کے غیرمسلموں کے ساتھ وہ معاملہ اوررویہ اپناناضروری ہے، جو ذمی، معاہد، اورمستامن کے ساتھ اپنایاجاتاہے،تیسری قسم کے غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کامعاملہ نرم نہیں ہوناچاہئے، بلکہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کیاجائے گاجو حربی اوربرسرپیکارغیرمسلم کے ساتھ کیاجاتاہے۔یعنی پہلے ان کو سمجھایاجائے گاکہ ظلم وستم کرنے سے باز آجائیں،نہ مانیں تب بدلہ لیاجائےاورجمہوری ملک میں بدلہ لینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اورعدالت سے انصاف طلب کیاجائے۔(مستفاد:از جواہرالفقہ،جلدپنجم،جدید فقہی مسائل جلد چہارم)
تکثیری معاشرہ میں جہاں ہندومسلم سکھ عیسائی جین ،بودھ وغیرہ سبھی رہتے ہیں رہتے ہوئے ایک دوسرےسے تعلقات قائم کرنااوران کے ربط میں رہناناگزیر ہے، اس تعلق میں جس قدر استواری ہو گی اسی قدر الفت و محبت اور قربت پیدا ہوگی۔ معاشرہ میں امن وامان قائم ہوگا،ہر کوئی سکون و اطمینان کی سانس لے گا،ایک دوسرے کے دکھ، درد اور آسائش وراحت میں باہم شرکت کی وجہ سے معاشرہ امن وسلامتی کا ایک بے نظیر نمونہ ہوگا۔اس لیے دیکھناہے کہ جولوگ مذہب اسلام کونہیں مانتے ہیں ان سے تعلقات قائم کرنے کے بارےمیں شریعت کےکیااحکام ہیں؟
دنیامیں صرف اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جو اس کے نہ ماننے والوں کے لئے بھی اپنے دامن کو کشادہ رکھتاہے، اوراپنی رحمت کی بارش ان پر بھی برسا رہا ہے؛ کیوں نہ ہوجب کہ یہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ مذہب ہے،خود خالقِ کائنات کابھیجاہوا ہے،تو ظاہر ہے اس کی تو مشیت ہوگی کہ اس کا ہر بندہ اس دنیامیں اس کی نعمت پاتارہےاورکائنات سےفائدہ اٹھاتارہے۔ اس لیے اسلام میں ان کے حقوق بھی واضح طورپربیان کئے گئے ہیں،اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنےکی تعلیم دی گئی ہے، جو اللہ کی وحدانیت اوراس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے قائل نہیں ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:(مسلمانو) یقینا تمھارے لیے ان لوگوں کے طرز عمل میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور جو شخص منہ موڑے تو (وہ یاد رکھےکہ)اللہ سب سے بے نیاز ہے، بذات خود قابل تعریف ہے۔عجب نہیں کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمھاری دشمنی ہے،دوستی پیدا کردیں،اور اللہ بڑی قدرت والے ہیں،خوب معاف فرمانے والے اور بڑے مہربان ہیں۔جو لوگ تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کرتے اورنہ انھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالاہے،اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنےسے نہیں روکتاہے۔بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کوپسندکرتاہے۔ (سورہ الممتحنہ:۶۔۸)
حضرت ابن عباس رضی ا للہ عنہ کابیان ہے کہ یہ آیت بنی خزاعہ کے متعلق نازل ہوئی، جنھوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ معاہدہ کرلیاتھا کہ نہ مسلمانوں سے لڑیں گے اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کو مدد دیں گے، اللہ تعالیٰ نے ا س آیت میں ان سے حسن سلوک کرنے کی اجازت دی ہے۔
اس آیت میں ایسے کفار جنھوں نے مسلمانوں سے مقاتلہ نہیں کیا، اور ان کے گھروں سے نکالنے میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا، ان کے ساتھ احسان کے معاملہ اور اچھے سلوک اور عدل وانصاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عدل وانصاف تو ہر کافر کے ساتھ ضروری ہے، جس میں کافرذمی، مصالح کافر، اورکافر حربی ودشمن سب برابرہیں۔(گلدستہ تفاسیر۷/١۶٤-١۶٥)
ان آیات کی تفسیر میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ آیات مسلم-غیر مسلم تعلقات کے بارے میں ایک اہم اصول کو واضح کرتی ہیں،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے اور ان سے دوستی رکھنے کی مطلقا ممانعت ہے،بلکہ یہ ممانعت ان لوگوں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں سے آمادہ جنگ ہیں اور جنھوں نے مسلمانوں کو گھر سے بے گھر کردیا ہے(جیسامکہ کے مشرکین مسلمانوں کو حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا)،ورنہ جن لوگوں کا معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے،ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو نقصان سے بچاتے ہوئے دوستی رکھنی چاہیے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا اس قدر لحاظ فرمایا کہ جب اہل مکہ قحط سے دوچار ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے لئے مدد کے طورپر پانچ سو دینار بھیجے۔(سیر کبیر : ۱؍۹۶)۔مشرکین مکہ کے قائد ابو سفیان کی صاحبزادی حضرت اُمِ حبیبہ سے خود نکاح فرمایا ، فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے اس مغنیہ عورت کی مدد فرمائی،جو مدد کے لئے آپ ﷺ کے پاس آئی تھی ؛ اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ یہی حسن سلوک آئندہ ان کے مسلمانوں سے قریب ہونے اور دوست بن جانے کا ذریعہ ثابت ہو ؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بہت سے اہل مکہ جو اس وقت مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے ، وہ بعد میں اسلام کے جاں نثار سپاہی بن کر کھڑے ہوئے ۔ (آسان تفسیر )
حضرت ابن عباس رضی ا للہ عنہ کابیان ہے کہ یہ آیت بنی خزاعہ کے متعلق نازل ہوئی، جنھوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ معاہدہ کرلیاتھا کہ نہ مسلمانوں سے لڑیں گے اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کو مدد دیں گے، اللہ تعالیٰ نے ا س آیت میں ان سے حسن سلوک کرنے کی اجازت دی ہے۔
اس آیت میں ایسے کفار جنھوں نے مسلمانوں سے مقاتلہ نہیں کیا، اور ان کے گھروں سے نکالنے میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا، ان کے ساتھ احسان کے معاملہ اور اچھے سلوک اور عدل وانصاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عدل وانصاف تو ہر کافر کے ساتھ ضروری ہے، جس میں کافرذمی، مصالح کافر، اورکافر حربی ودشمن سب برابرہیں۔(گلدستہ تفاسیر۷/١۶٤-١۶٥)۔فقط
Comments are closed.