سرزمین میوات پر ایک یادگار اور تاریخ ساز امارت شرعیہ کانفرنس

محمد یوسف میواتی قاسمی
جامعہ معدن العلوم جھمراوٹ میوات
جمعیۃ علمائے ہند کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۸۶ میں امارت شرعیہ ہند کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد جب صوبائی محاکم شرعیہ کے قیام کے لیے محنت شروع ہوئی تو اس کے محض دو سال بعد ۱۹۸۸ء میں ہریانہ، پنجاب، ہماچل، چنڈی گڑھ میں امارت شرعیہ کی بنیاد پڑی ۔ ان صوبوں کے لیے پہلا امیر شریعت حضرت مولانا نیاز محمد میواتی کو بنایا گیا جو دار العلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے اجل تلامذہ و خلفاء میں سے تھے ۔ فقہ و فتاویٰ میں ان کا مقام بہت بلند تھا ، جب تک آپ حیات رہے اہل میوات پیش آمدہ مسائل میں آپ ہی سے رجوع کرتے تھے ، آپ کے قلم گوہر بار سے نکلی ہوئی کتابیں سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ امیر شریعت تھے اور اس وقت یہ آپ ہی کا حق تھا ۔ آپ نے امارت شرعیہ کے ابتدائی مراحل میں اسے پروان چڑھانے کے لیے بڑی قربانیاں دیں اور میدان عمل میں متحرک رہے یہاں تک کہ ۱۹۹۳ء میں آپ وصال فرما گیے۔ آپ کے بعد دوسرے امیر شریعت کے طور پر حضرت مولانا محمد صدیق میواتی کا نام طے کیا گیا ۔ مولانا محمد صدیق میواتی بھی علم و فضل ، اخلاص و للہیت ، تقوی و طہارت ، تواضع و سادگی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ایک طویل زمانہ آپ منصب شیخ الحدیث پر فائز رہے اور طالبان علوم نبویہ کو فیض یاب کرتے رہے ۔ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے آپ کے خدمات بھی تاریخ کا اہم حصہ ہیں ۔ جب ۲۰۰۸ء میں آپ بھی اس جہان فانی سے پردہ فرما گیے تو حضرت مولانا محمد اسحاق میواتی امیر شریعت بنائے گیے۔ مولانا محمد اسحاق میواتی گہرے علم کے مالک، صاحب اثر و رسوخ اور بلند مقام عالم دین تھے ۔ آپ کو امیر شریعت اور آپ حضرت مولانا محمد سعید امینی نائب امیر شریعت بنایا گیا۔ دونوں حضرات نے مل کر کام میں تیزی لانے اور اسے منظم طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے صلاحیت مند و قابل علماء و مفتیان کرام کی ایک کمیٹی تشکیل دی جو پندرہ افراد پر مشتمل تھی اور یہ طے کیا کہ ہر ماہ کی آخری جمعرات کو ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھا جائے اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے چنانچہ جب اس ترتیب سے کام شروع ہوا تو اس شعبے کی افادیت و اہمیت سے لوگ پہلے کے بالمقابل زیادہ واقف اور اپنے مسائل کے لیے محکمہ شرعیہ سے رجوع کرنے لگے۔ مزید تعارف و بیداری پیدا کرنے کے لیے کئی اہم مقامات پر امارت شرعیہ کے اجلاس و اجتماعات کیے گیے جن سے بہت نفع ہوا۔ تیسرے امیر شریعت حضرت مولانا محمد اسحاق میواتی کی وفات کے بعد گزشتہ سال یکم ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حضرت مولانا محمد الیاس (مہتمم مدرسہ معدن العلوم جھمراوٹ میوات) کو امیر شریعت طے کیا گیا ۔ مولانا محمد الیاس کے امیر شریعت بننے کے بعد سے ہی اراکینِ امارت شرعیہ ہریانہ، پنجاب، ہماچل، چنڈی گڑھ کی تمنا تھی کہ اگر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور نائب امیر الہند حضرت مولانا محمد سلمان منصورپوری کی طرف سے اجازت مل جائے تو سرزمین میوات پر ایک عظیم کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ چنانچہ کوشش بار آور ہوئی اور ۵/ جمادی الاولی ۱۴۴۶ھ مطابق ۸/نومبر ۲۰۲۴ بروز جمعہ اس کانفرنس کا ہونا طے پایا ۔ اس کے بعد جگہ کا انتخاب کیا گیا تو باہمی مشاورت سے حضرت امیر شریعت ہی کی قائم کردہ دینی تعلیم گاہ جامعہ معدن العلوم جھمراوٹ میوات کو اس کے لیے موزوں قرار دیا گیا۔ کانفرنس میں مہمانان خصوصی کے طور پر عالم اسلام کی عظیم رہنما شخصیت جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی امیر الہند و صدر جمعیۃ علمائے ہند، قائد ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علمائے ہند، فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نائب امیر الہند و استاذ دار العلوم دیوبند ، جگر گوشۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسجد مدنی نائب صدر جمعیۃ علمائے ہند کی آمد متوقع ہوئی ۔
چنانچہ کانفرنس کی تیاریاں شروع کردی گئیں، چاروں صوبوں کے امارت شرعیہ کے کارکنان کی مشاورت سے نظام کانفرنس ترتیب دیا گیا ، بعد نمازِ جمعہ تا عشاء وقت رکھا گیا ، کانفرنس کو بامعنی بنانے کے لیے خطباء اور ان کے عناوین طے کردئیے گیے، دعوت ناموں کے ذریعہ خصوصی اور اشتہارات کے ذریعہ عمومی دعوت دینے کا اہتمام کیا گیا۔ مدرسہ معدن العلوم کے اساتذہ کا ایک چار نفری وفد نے پورے دودن کا طویل سفر طے کر کے سنگرور پنجاب، مالیر کوٹلہ پنجاب ، لدھیانہ پنجاب، ہماچل، چنڈی گڑھ ، یمناگر ہریانہ اور پانی پت ہریانہ وغیرہ مقامات پر بالمشافہہ دعوت نامے پہنچانے کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد میوات کی سطح پر کام کرنے والے دینی ، سماجی اور سیاسی طبقات تک بالالتزام دستی دعوت نامے پہنچائے گیے ۔ کانفرنس کی تشہیر میں علمائے میوات اور دونوں جمعیتوں کے کارکنان نے خوب حصہ لیا ۔ مدرسہ کے اساتذہ نے اس عظیم کانفرنس کے نظم و نسق اور کارہائے متعلقہ کو انجام دینے میں جس جانفشانی کا ثبوت دیا اور جن اعلیٰ درجے کی صلاحیتوں کا استعمال کیا وہ مستقل عنوان بناکر لکھے جانے کے قابل ہے۔ نیند ، آرام ، بھوک ، پیاس کو نظر انداز کر کے یوں مصروف ہوئے لگا کہ فرشتوں کی جماعت زمین پر اتر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مدرسہ کے ابنائے قدیم کو کہ انہوں نے خوب ہاتھ بٹایا ۔ دعوت و تبلیغ کے ساتھیوں نے کانفرنس والے دن مشکل امور انجام دیے جب کہ مدرسہ کا پورا عملہ اس آخری دن میں تھکن سے دوچار بے شمار کاموں کا بار شانوں اور ذہنوں پر لیے دنیا و مافیہا سے بے خبر یہاں سے وہاں ، وہاں سے یہاں دوڑا پھر رہا تھا ۔ ابنائے قدیم و اطراف کی بستیوں نے جو مالی تعاون پیش کیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ سبھی معاونین کو بہترین صلہ مرحمت فرمائے آمین۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ گھڑی آن پہنچی جس کے لیے محنتیں ہورہی تھیں ۔ جمعہ کا مبارک دن تھا ، بعد نمازِ جمعہ کانفرنس شروع ہونے والی تھی مگر کیا دیکھتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے ہی جوق در جوق لوگ آنے شروع ہوگیے ، ابھی جمعہ کی پہلی اذان شروع ہوئی تھی کہ مدرسہ کی مسجد کا اندرونی حصہ کھچا کھچ بھر گیا، مفتی سلیم احمد قاسمی (ساکرس) کا بیان شروع ہوا۔ مسجد کا بالائی حصہ بھرنے کے بعد صحن مسجد اپنی کشادگی کے باوجود تنگ نظر آیا ، اس کے بعد مسجد کے دائیں بائیں بنے محافظ نما قطار در قطار کمرے اور ان کے برآمدے پُر ہوگیے ، جمعہ کی نماز کے بعد ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بڑے اجلاس کے اختتام کا منظر ہو حالانکہ ابھی تو کانفرنس شروع بھی نہیں ہوئی تھی ۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
نماز جمعہ کے بعد کانفرنس کا آغاز ہوا۔ کانفرنس تین نشستوں پر مشتمل تھی ، تینوں نشستوں کی صدارت امیر شریعت حضرت مولانا محمد الیاس صاحب مہتمم جامعہ معدن العلوم جھمراوٹ میوات کے نام تھی۔ چنانچہ آپ کی صدارت و امارت میں نشست اول شروع کردی گئی اور کانفرنس کے منتظم و کنوینر حضرت مولانا محمد حسن قاسمی نے سامعین کو متوجہ و مجتمع کرنے کے لیے افتتاحی و تمہیدی کلمات کہے جس سے منتشر مجمع جلسہ گاہ کی طرف لپکا چلا آیا ، مولانا نے تطویل لاطائل سے بچتے ہوئے اپنی بات کو مختصر کیا اور نہایت چابک دستی سے راقم کا نام پکارتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب تشریف لائیں اور نظامت کی فرائض انجام دیں ۔ راقم نے ہانپتے کانپتے مائک سنبھالا اور مختصراً کانفرنس کے مقصد پر روشنی ڈالنے کے بعد باضابطہ تلاوتِ قرآن کریم سے پہلی نشست کا آغاز کرنے کے لیے قاری محمد رضوان ( ساکن امام نگر، سابق متعلم جامعہ معدن العلوم جھمراوٹ) کو دعوت دی ، نعت پاک پڑھنے کی سعادت محمد زاہد (ساکن ترواڑہ، متعلم جامعہ ہذا ) کے حصے میں آئی۔ یہ پہلی نشست تھی جس میں عصر تک مقامی علماء و خطباء کی دس دس منٹ بات کرنا طے ہوا تھا ، چنانچہ طے شدہ نظام کے مطابق سب سے پہلے حضرت میاں جی محمد رمضان خاں (خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی و مہتمم مدرسہ فیض العلوم مالب) کو دعوت اسٹیج دی گئی ۔ آپ نے سامعین سے سادہ انداز میں نہایت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں جس سے مجمع پُرسکون اور فضا ہم خیال ہوگئی۔ جس طرح سامعین پنڈال کی طرف تیزی کے ساتھ قدم بڑھا رہے تھے اسی طرح وقت اپنی عادت کے مطابق گزرا چلا جارہا تھا اس لیے یہ سلسلہ فوراً آگے بڑھایا گیا اور “امارت شرعیہ کی اہمیت و افادیت„ پر بیان کرنے کے لیے مولانا مفتی احمد حسین قاسمی (ساکن اندھولہ ، استاذ دارالعلوم مہتابیہ نگینہ میوات) کا نام مائک سے پکاردیا گیا ۔ آپ نے اپنے طویل موضوع کو بہت مختصر وقت میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ۔ راقم نے مفتی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فصل بالاجنبی کا ارتکاب نہ کرتے ہوئے دعوت اسٹیج دی مولانا مفتی محمد اعظم قاسمی ( استاذ جامعہ معدن العلوم جھمراوٹ میوات) کے لیے ۔ مفتی صاحب تشریف لائے اور “تحفظ عقائد اہل سنت والجماعت„ کے عنوان پر شاندار گفتگو کی ۔ بعدہ "طلاق کے نقصانات اور اس کا شرعی طریقہ” کے تعلق سے حضرت مولانا حکیم الدین اشرف اٹاوڑی (صدر جمعیۃ علمائے ہریانہ ، پنجاب ، ہماچل ، چنڈی گڑھ و مہتمم مدرسہ اشاعت العلوم کھرکھڑی) نے تفصیلی خطاب فرمایا اور انداز ایسا لطیف اختیار کیا جس سے عام آدمی بھی بآسانی بات سمجھ سکے۔
نماز عصر کے بعد دوسری نشست کا آغاز ہوا، وقت کی قلت ابھی بھی دامن گیر رہی اس لیے تلاوت کلام پاک اور نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گریز کرتے ہوئے پانی پت سے تشریف لائے ہوئے سابق صدر جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل ، چنڈی گڑھ حضرت مولانا محمد ہارون قاسمی سنولی کو سامعین سے روبرو کرادیا۔ انہوں نے اہل میوات اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کثیر تعداد کی آمد پر مبارکباد پیش کی۔ ان کے بعد حضرت مولانا مفتی رفیق سعید قاسمی (جالیکی، استاد مدرسہ حسین بخش دہلی) نے بات کی ۔ اسی دوران حضرت مولانا سید ازہر مدنی فرزند حضرت مولانا سید ارشد مدنی اسٹیج پر تشریف لے آئے ، اس لیے بلا کسی تمہید کے حضرت مولانا کو دعوت دی گئی۔ حضرت مولانا نے اصلاح معاشرہ پر شاندار خطاب فرمایا ۔ ابھی حضرت مولانا سید ازہر مدنی خطاب فرما ہی رہے تھے کہ ان کے چچا جان حضرت مولانا سید اسجد مدنی کی تشریف آوری ہوگئی، چنانچہ چچا جان کے آنے کے بعد باادب بھتیجے نے اپنا خطاب بند کیا اور مسند خطاب کو حضرت مولانا سید اسجد مدنی کے لیے پیش کردیا ، سبھی کو بہت اچھا لگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بڑوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ حضرت مولانا سید اسجد مدنی کا خطاب مغرب تک رہا اور بہت خوب رہا ۔
مغرب کے بعد تیسری نشست کا آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن کریم جامعہ معدن العلوم کے ہونہار استاد، تجوید و قرات کے رمز آشنا قاری محمد صادق (ساکن اونمرہ) نے کی جبکہ نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قاری محمد اسلم بڈیڈوی (صدر جمعیۃ علماء میوات) نے بہت ہی شاندار انداز میں پڑھ کر سنائی، محفل پر سناٹا چھا گیا۔ نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امارت شرعیہ ہند کے تحت چلنے والے صوبائی محکمۂ شرعیہ جس کا دفتر شہر نوح میں واقع دار العلوم میوات ہے۔ اس کی کار گزاری پیش کرنے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد ابراہیم قاسمی کو دعوت دی گئی، مفتی صاحب نے بہت متاثر کر دینے والی کارگزاری پیش فرمائی۔ جس کو علمائے اسٹیج اور سامعین مجمع نے بہت دھیان سے سنا اور دادو تحسین پیش کی۔ اس کے بعد میوات کی قابل فخر عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا محمد راشد قاسمی (شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا ) کو دعوت دی گئی، آپ نے اپنے مخصوص انداز میں صرف پانچ منٹ کے اندر مجمع کو ایسی بیداری عطا کی جس سے کانفرنس آخر وقت تک زندہ اور بیدار رہی ۔ حضرت نے ایک واقعہ سنا کر تمام سامعین سے ہاتھ اٹھوائے کہ ہمارے بڑے جو فرمائیں گے اس پر عمل کرنا ہے ۔ اب کانفرنس کے مہمان ذی وقار حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری مسند خطاب پر جلوہ افروز ہوچکے تھے اس لیے مہمانوں کے استقبال اور شکریہ کے طور پر خطبہ استقبالیہ پیش کرنے کے لیے حضرت مولانا شیر محمد امینی (مہتمم مدرسہ ابی بن کعب گھاسیڑہ) کو دعوت دی گئی انھوں نے بلیغ تعبیرات و بلند خیالات پر مشتمل خطبہ استقبالیہ پیش فرمایا۔ اگرچہ کانفرنس آخری مرحلہ میں پہنچ رہی تھی مگر ابھی بہت کچھ سنناباقی تھا اس لیے تاخیر کیے بغیر دعوت خطاب دی گئی نائب امیر الہند حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ دارالعلوم دیوبند کے لیے ۔ حضرت نے اپنے کلیدی خطاب میں مسلم معاشرہ اور مسلمانوں کے گھریلو رہن سہن پر پرتاثیر علمی گفتگو فرمائی ۔ آخری خطاب سے قبل حضرت مولانا مفتی ذکاوت حسین قاسمی (شیخ الحدیث مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ دہلی) نے ہریانہ، پنجاب، ہماچل، چنڈی گڑھ کے ان ۱۱/ مقامات( لدھیانہ پنجاب ، مالیر کوٹلہ پنجاب، چنڈی گڑھ ، یمناگر ہریانہ ، پانی پت ہریانہ ، پلول میوات ہریانہ ، پونہانہ میوات ہریانہ ، جھمراوٹ میوات ہریانہ ، فیروزپور جھرکہ میوات ہریانہ ، تاؤڑو میوات ہریانہ ، دھوج میوات ہریانہ) کا اعلان کیا جہاں محاکم شرعیہ کو منظوری دی گئی تھی۔
چونکہ اس عظیم کانفرنس کی صدارت امیر شریعت حضرت مولانا محمد الیاس صاحب فرما رہے تھے اس لیے حضرت کو خطبہ صدارت پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا، حضرت مولانا نے وقت کی رعایت کرتے ہوئے محض سب کا شکریہ ادا کیا اور امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند سے عرض کیا کہ حضرت آپ اپنا خطاب شروع فرمادیں میرا تو یہی خطبہ صدارت ہے ۔ اس بات سے حضرت امیر الہند بہت خوش ہوئے اور اپنا خطاب شروع فرمادیا ۔ حضرت امیر الہند نے سامنے بیٹھے جم غفیر کو دیکھ کر فرمایا “کمزوری اور بیماری کی وجہ سے میرا آنے کا ارادہ نہیں تھا مگر آپ حضرات کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھ کر دل خوش ہوگیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء سے جڑے ہوئے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں„۔ حضرت کا خطاب بہت تفصیلی ہوا ، آپ نے خطاب میں کارکنان امارت شرعیہ کے لیے رہنما خطوط بیان فرمائے، اللہ تعالٰی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
یہ کانفرنس سرزمین میوات پر تاریخی اور یادگار کانفرنس منعقد ہوئی ہے ، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا سب کو حیرت میں ڈال دینے والی بات ہے ۔ یہ سب محض فضل الٰہی سے ہوا، اسی ذات وحدہ لاشریک لہ نے میوات اور اطراف میوات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایک چھوٹی سی جگہ میں لا جمع کیا ۔ اللہم لک الحمد و لک الشکر ۔
دیوبند ، دہلی ، آگرہ ، ہریانہ میوات ، راجستھان میوات ، پنجاب، ہماچل، چندی گڑھ اور دیگر مقامات سے علماء و ائمہ بھاری تعداد میں شریک ہوئے جن میں قابل ذکر نام یہ ہیں : امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند ، نائب امیر الہند حضرت مفتی محمد سلمان منصور پوری،مولانا محمد الیاس صاحب امیر شریعت ہریانہ، پنجاب، ہماچل ،چنڈی گڑھ ،مولانا سید اسجد مدنی نائب صدر جمعیۃ ہند، مولانا سید ازہر مدنی، مفتی محمد زاہد حسین قاسمی، مولانا محمد راشد قاسمی میل کھیڑلا ،مولانا حکیم الدین اشرف اٹاؤڑی ،الحاج میانجی محمد رمضان خان مالب، مولانا علاء الدین جیمت، مولانا شیر محمد امینی ، مولانا محمد ہارون قاسمی پانی پت ، قاری محمد الیاس پاونٹی ، مولانا محمد مسلم مسجد فتح پوری دہلی ، مفتی ذکاوت حسین قاسمی دہلی، مفتی احمد حسین قاسمی، مولانا محمد انوار مالپوری، مفتی محمد ابراہیم قاسمی ،مولانا خالد اسحاق اٹاوڑی، قاری محمد اسلم بڈیڈوی، مولانا زاہد امینی گھاسیڑہ ، مولانا محمد ارشد قاسمی میل کھیڑلا، مفتی سلیم احمد قاسمی ساکرس ، قاری محمد نعیم مالب ، مولانا لقمان قاسمی ، مولانا مبارک قاسمی، ، مولانا محمد الیاس فیروزپور جھرکہ ، مولانا فجر الدین گنگوانی ، مفتی رفیق سعید قاسمی جالیکی ، مفتی وسیم قاسمی ، مولانا محمد توفیق ثابت قاسمی پھوسیتہ، مولانا محمد ہارون قاسمی خانپوری میل کھیڑلا، مولانا ظفر الدین قاسمی میل کھیڑلا ، مفتی عبد الوحید میل کھیڑلا ، مولانا محمد اسجد ربانی قاسمی المیواتی ، مفتی تعریف سلیم ندوی ، مولانا محمد صابر قاسمی، چودھری آفتاب احمد ممبر اسمبلی، مامن خان ممبر اسمبلی، جاوید ایڈوکیٹ کاٹپوری سمیت ہزاروں علمائے و معززین موجود رہے
Comments are closed.