قطب اللہ: چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار

معصوم مرادآبادی
لکھنؤ کی صحافتی کہکشاں کا ایک اورستارہ غروب ہوگیا۔ ’قومی آواز‘ کے سابق صحافی قطب اللہ نے بھی آنکھیں موند لیں۔ ابھی عالم نقوی کی جدائی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے کہ ایک اورکاری زخم لگا۔ ہفتہ بھر کی مختصر علالت کے بعدقطب اللہ نے آج صبح(2 دسمبر 2024) لکھنؤ کے ایرامیڈیکل کالج میں آخری سانس لی۔ یوں تو بیماریوں سے ان کاپرانا رشتہ تھا اور وہ بائی پاس سرجری جیسے مشکل مرحلہ سے بھی گزرچکے تھے،برین ہیمریج کا بھی دوسرا حملہ تھا،لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی عجلت میں ہیں۔ قطب اللہ نے پوری زندگی اردو صحافت کے بال و پر سنوارنے میں صرف کی اور وہ آخری وقت تک پوری تندہی کے ساتھ لکھتے رہے۔
رواں سال کے فروری ماہ میں جب میری کتاب ’بالمشافہ‘ کے اجراء کی تقریب اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں بردارم اویس سنبھلی اور عمیرمنظر کے اصرار پر عمل میں آئی تو اس میں لکھنؤ کی بیشتر سرکردہ علمی اور ادبی شخصیات شریک ہوئیں۔یہیں قطب اللہ سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے اس محفل میں ’بالمشافہ‘ پر کوئی آدھا گھنٹے نہایت کارآمد گفتگو کی اور پوری کتاب پڑھ کر اس پر اپنے قیمتی ریمارکس دئیے تھے۔ عام طورپر اجراء کی محفلوں میں مقررین کتاب کا سرسری مطالعہ کرکے تقریر کرتے ہیں، لیکن قطب اللہ نے کتاب پڑھ کر تبصرے کا حق اداکیا تھا، جو ان کی صحافتی اورعلمی دیانت داری کا ثبوت تھا۔ قطب اللہ ایک سچے، ایماندار، راست باز اور کھرے انسان تھے۔ ان کی شخصیت اودھی تہذیب اورشرافت میں ڈھلی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ اب لکھنؤ میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وہ اکثر اپنے کاندھے پر ایک بیگ ٹانگے رہتے تھے اور اسی میں لکھنے پڑھنے کا سامان بھی رکھتے تھے۔ میں جب بھی لکھنؤ جاتا تو قطب اللہ سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہوجاتی تھی۔ وہ بڑی محبت سے پیش آتے اور گھر چلنے پر اصرارکرتے تھے۔ ان کی رہائش نئے لکھنؤ کے’پترکارپورم‘میں ضرور تھی، لیکن ان کا دل پرانے لکھنؤ ہی میں لگتا تھا، جہاں انھوں نے طویل عرصے تک اردو ادب اور صحافت کی بے لوث خدمت کی۔پرانے لکھنؤ کے قیصر باغ علاقہ میں ہی روزنامہ ”قومی آواز‘کا دفتر واقع تھا، جو کسی زمانے میں لکھنؤ کے تمام بڑے صحافیوں کی پناہ گاہ تھا۔وہ ان صحافیوں میں بہت نمایاں تھے جنھوں نے ’قومی آواز‘ کے مدیران حیات اللہ انصاری، عشرت علی صدیقی اور عثمان غنی جیسے جیدصحافیوں کی صحبت اٹھائی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اب قطب اللہ کی صف کے لوگوں میں احمدابراہیم علوی، عبیداللہ ناصراور سہیل وحید ہی باقی ہیں، جنھیں دیکھ کر ’قومی آواز‘ اور اس کی اجلی صحافت کا دور یاد آتا ہے۔خدا انھیں تادیر سلامت رکھے۔ ’قومی آواز‘ سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کو قطب اللہ نے ایک تفصیلی مضمون میں قلم بند کیا ہے، جو ’نیادور‘ کے ’اردوصحافت نمبر‘ میں شائع ہوا تھا۔ قطب اللہ نے پوری زندگی عملی صحافت میں گزاری، لیکن اسے کبھی غیرضروری تام جھام اکٹھا کرنے کا وسیلہ نہیں بنایا۔ وہ اردو کے ایک مخلص اور محنت کش صحافی تھے اور صحافت کی اعلیٰ قدروں کے پاسدار بھی تھے۔ انھوں نے صحافتی تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا۔ انھوں نے آزادی کے بعد کی اردو صحافت پر بڑی عرق ریزی کے ساتھ پی ایچ ڈی کی تھیسس مکمل کی تھی مگر وہ بوجہ منظور نہ ہوسکی۔
1988میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے موقع پر کئی کتابیں شائع ہوئیں لیکن ان میں قطب اللہ کی کتاب "مولانا آزاد کا نظریہ صحافت ” اس اعتبار سے منفرد تھی کہ یہ مولانا آزاد کی صحافتی خدمات کے حوالے سے اکلوتی کتاب تھی۔ اس کتاب کو اترپردیش اردواکادمی نے شائع کیا تھا ۔ کتاب کی ضخامت تو زیادہ نہیں ہے، لیکن اس کا مواد بہت قیمتی ہے اور مولانا آزاد کے صحافتی ورثے پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
قطب اللہ ان صحافیوں میں سے نہیں تھے جو حادثاتی طورپر اردو صحافت سے وابستہ ہوتے ہیں اور صحافت ہی کو ایک حادثے میں بدل دیتے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد عقیدہ صنفی کے ساتھ اردو صحافت میں داخل ہوئے تھے اور تمام عمراس عقیدے کی پیروی کی۔’مولانا آزاد کے نظریہ صحافت‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے خود اپنا صحافتی نظریہ بھی واضح کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا:”میں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ’اردو صحافت1947کے بعد‘کے عنوان سے بحیثیت ریسرچ اسکالر رجسٹریشن کرایا تھا۔ اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں، میں نے ملک کی مشہور لائبریروں سے استفادہ کیا۔ گزشتہ گیارہ برسوں سے روزنامہ ’قومی آواز‘ میں بحیثیت ایک صحافی کام کررہا ہوں، نیز کارکن صحافیوں کی تحریک سے بھی وابستہ ہوں اور صحافیوں کے مسائل سے متعلق جدوجہد میں میری حیثیت ایک سرگرم خادم کی ہے۔“(’مولانا آزاد کا نظریہ صحافت‘ ص24اشاعت1988)
قطب اللہ کی پہلی کتاب ان کے افسانوں پر مشتمل تھی،جو ’ویزا‘ کے عنوان سے1984میں شائع ہوئی تھی۔یہ ان کے تیرہ افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ اس افسانوی مجموعہ کا دیباچہ ممتاز افسانہ نگار اور صحافی عابد سہیل نے لکھا تھا اور ان کے مستقبل کے بہترین افسانہ نگار بننے کی پیشین گوئی بھی کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وہ صحافت کے پیشے میں افسانہ طرازی سے دور ہوکر حقیقت کی دنیا میں کھوگئے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی نے لکھا تھا۔قطب اللہ کی صحافتی تحریروں کا محور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی تھا۔ انھوں نے ان موضوعات پر نہایت مدلل اور معلوماتی مضامین لکھے۔ انھوں
نے فلسطینی کہانیوں کااردو ترجمہ بھی کیا تھا جو باقاعدہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ قطب اللہ نے پوری عمر اردو صحافت اورصحافیوں کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔ انھوں نے ہمیشہ قلم وقرطاس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا اور ساتھ ہی کارکن صحافیوں کے حقوق کی جنگ بھی لڑتے رہے۔ انھوں نے آخری وقت تک قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان کا آخری مضمون گز شتہ ہفتہ ’انقلاب‘ میں شائع ہوا تھا۔ قطب اللہ کی پیدائش23/مارچ 1951 کو ضلع بستی کے قصبہ بڑھنی میں ہوئی تھی۔ان کی ابتدائی تعلیم جامعہ سلفیہ جھنڈا نگر میں ہوئی اور فراغت ندوۃ العلماء لکھنؤ سے1970میں ہوئی۔1974 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور1976میں ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے1978 میں ایل ایل بی کیا۔1980میں عربی میں ایم اے کرنے کے بعد وہ روزنامہ ’قومی آواز‘ سے وابستہ ہوگئے اور1997میں اس کے بند ہونے تک وابستہ رہے۔1998 میں انھوں نے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے وابستگی اختیار کی اوراس کے گورکھپور، پٹنہ اور کلکتہ ایڈیشن کے انچارج رہے۔ 2012 میں راشٹریہ سہارا سے سبکدوش ہونے کے بعد ’عوامی سالار‘، ’اخبارمشرق،’سالار‘ بنگلور اور روزنامہ ’انقلاب‘ سے بطورکالم نگار وابستہ رہے۔1995میں انھیں جدہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’اردو نیوز‘کا یوپی اور بہار کا نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ گزشتہ13/برس سے وہ ندوہ میں صحافت کا درس دے رہے تھے۔ ان کی زندگی اور صحافتی سرگرمیوں پر حکیم وسیم احمداعظمی نے اپنی حالیہ کتاب ’حفیظ نعمانی اوران کا عہد‘ میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔2/دسمبر 2024 کو لکھنؤ کے ایرامیڈیکل کالج میں وفات پائی اور اسی روز اپنے وطن میں مدفون ہوئے۔ان کے انتقال پر جمال احسانی کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
Comments are closed.