ندوہ کا فقہی سیمینار—گلستاں بکنار

ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
فقہ اسلامی محض قوانین کا ایک دفتر نہیں، بلکہ وہ زندہ شعور ہے جو حیات انسانی ک کو مقصدیت، توازن، اور بصیرت عطا کرتا ہے، یہ دین کا قلب ہے، جو قرآن وسنت کی روشنی میں نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی بلکہ پوری انسانی تہذیب کو جلا بخشتا ہے، فقہ اسلامی ہر عہد کے لیے ایک ایسا شفاف آئینہ ہے، جو انسان کو اس کے صحیح مقام ومرتبہ کا شعور دیتا ہے اور زندگی کے پیچیدہ مسائل میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، آج کے تیز رفتار دور میں جہاں مادیت غالب ہے اور اخلاقیات پس منظر میں جا چکی ہیں، فقہ اسلامی ایک نشان راہ ہے، یہ علم ان چیلنجز کا جواب فراہم کرتا ہے جو ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن، اور مالیاتی استحصال کے دور میں درپیش ہیں، ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، اور ماحولیاتی مسائل جیسے موضوعات پر فقہ اسلامی کے اصول غیر معمولی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، فقہ مسائل کا محض سطحی حل پیش نہیں کرتی، بلکہ ان کی جڑوں میں اتر کر انسانی فلاح کے لیے ایسا نظام مہیا کرتی ہے جو عدل، رحم، اور استحکام پر مبنی ہو۔
فقہ اسلامی کی روح اجتہاد میں پوشیدہ ہے، یہ نظام ماضی کی رہنمائی سے حال کے تقاضے پورے کرتا ہے اور مستقبل کی راہیں روشن کرتا ہے، اجتہاد فقہ کو جمود سے نکال کر حرکت وحریت عطا کرتا ہے، اور یہی اس کی اصل قوت ہے، دور حاضر کے علماء اسلام کا ماننا ہے کہ اجتماعی اجتہاد زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے، یہ فقہ اسلامی کی بصیرت کا وہ مظہر ہے، جہاں انفرادی سوچ کے دائرے وسیع ہو کر اجتماعی شعور کا قالب اختیار کرتے ہیں، یہ عمل محض ایک ذہن کی پرواز نہیں، بلکہ کئی دماغوں کی روشنی سے فروزاں ہونے والا چراغ ہے، جو امت کو عصرِ حاضر کے مسائل کی تاریکی میں راستہ دکھاتا ہے، اجتماعی اجتہاد مسائل کی تہوں میں اتر کر، شریعت کے مقاصد اور انسانیت کے تقاضوں کے درمیان ایک پل بناتا ہے، جہاں حکمت، اعتدال، اور وسعتِ نظر کے سنگم پر اجتہاد ایک زندہ روایت بن جاتا ہے، مجلس تحقیقات شرعیہ، ندوۃ العلماء کو اس ملک میں اس جانب پہل کرنے کا شرف حاصل ہے۔
ندوۃ العلماء کی مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیر اہتمام علامہ حیدر حسن خان ٹونکی ہال میں 27-28 جمادی الاولی 1446ھ مطابق 30 نومبر ویکم دسمبر 2024ء کو منعقد ہونے والے فقہی سیمینار میں ایسی بزم سجائی گئی جہاں بہت سے اہم مسائل پر بڑی خوبصورتی اور سلیقہ شعاری سے غور کیا گیا، یہ محفلیں محض خشک علمی مذاکروں تک محدود نہ تھیں، بلکہ ان میں قدیم فقہی اصول اور جدید انسانی تجربات ایک دوسرے کے مقابل آئے، اور ان کی روشنی میں نئے راستے تلاش کئے گئے۔
سیمینار کے مباحث کا دائرہ وسیع تھا، جہاں جانوروں کی مصنوعی افزائش جیسے جدید سائنسی تجربات پر شرعی رہنمائی پیش کی گئی، اس موضوع پر گفتگو نہ صرف علمی گہرائی رکھتی تھی بلکہ اخلاقی بصیرت سے بھی مزین تھی، جس نے یہ واضح کیا کہ شرعی اصول نہ صرف سائنس کے ہم قدم ہیں بلکہ اس کے لیے رہنما بھی ہیں، بیع معدوم جیسے کلاسیکی فقہی مسئلہ کو جدید مالیاتی نظام کے تناظر میں پیش کیا گیا، مقالات نے دلائل کے وہ پہلو اجاگر کیے جو نہ صرف روایتی نظریات کی توضیح کرتے ہیں بلکہ عصر حاضر کی اقتصادی پیچیدگیوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں، اسی طرح یسر وتیسیر کے موضوع نے شریعت کی آسانی اور سہولت کے اس پہلو کو اجاگر کیا جسے عموماً سختی کے پردوں میں چھپا دیا جاتا ہے، اور اول الذکر دونوں موضوعات پر جو سیر حاصل بحث کی گئی ہم اس کو اسی یسر وتیسیر کی علمی تطبیق سمجھتے ہیں، جو ندوۃ العلماء کا خاص امتیاز بھی رہا ہے۔
یہ فقہی سیمینار ندوۃ العلماء کی اس زندہ روایت کا ایک تسلسل تھا، جس میں قدیم وجدید کے درمیان نہ صرف ہم آہنگی پیدا کی گئی بلکہ اس بات کا عملی ثبوت پیش کیا گیا کہ شریعت زمانے کے ہر تغیر کے لیے ایک دائمی رہنمائی فراہم کرتی ہے، اور صرف تغیر ہی وہ شے ہے جسے ثبات ہے۔
مختلف نشستوں میں جو ارباب فضل وکمال شہ نشیں پر جلوہ افروز تھے، ان میں حضرت مولانا فضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء، حضرت مولانا عتیق احمد بستوی سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ، ڈاکٹر اقبال مسعود ندوی (کینیڈا)، مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی ناظر عام ندوۃ العلماء، مولانا عبد العزیز بھٹکلی ندوی نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، مولانا زکریا سنبھلی صاحب عمید کلیۃ الشریعہ واصول الدین، مولانا خالد غازیپوری ندوی عمید کلیۃ الدعوہ والاعلام، مولانا کمال اختر ندوی استاذ تفسیر ومشیر ناظر عام ندوۃ العلماء، مولانا سعید الرحمن فیضی ندوی (کینیڈا)، مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، مولانا رحمت اللہ کشمیری صاحب، قاضی مشتاق صاحب ندوی ( بھوپال) مولانا اختر امام عادل صاحب (بہار) وغیرہ کے نام ذہن میں محفوظ رہے۔
مفتی حبیب اللہ صاحب قاسمی (مہذب پور، اعظم گڑھ)، پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی (شعبۂ اسلامیات، مانو)، مولانا مفتی راشد حسین ندوی مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی، مولانا مفتی ظفر عالم ندوی صاحب استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء، مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی مدیر نقیب پٹنہ، مولانا بدر عالم مجیبی خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، عمر صوبیدار صاحب(کینیڈا)، مولانا رحمت اللہ ندوی، مولانا منور سلطان ندوی، ڈاکٹر مفتی نصر اللہ ندوی، اور
مولانا ولی اللہ ندوی صاحب وغیرہ امریکہ تلخیصات کی پیش کش، نظامت یا تاثرات اور اظہار خیال کے عنوان سے مائک پر تشریف لائے، اور اپنی خدمات انجام دیں۔
مناقشہ میں نمایاں طور پر حصہ لینے والوں میں مفتی نذیر صاحب کشمیری، مفتی جمیل احمد نذیری، مولانا عثمان بستوی، ڈاکٹر مفتی مصطفی عبد القدوس ندوی، ڈاکٹر مفتی محمد شاہجہاں ندوی، مولانا ظہیر اقبال قاسمی، مفتی جنید عالم قاسمی ندوی، ڈاکٹر مولانا محمد علی شفیق، مولانا اصطفاء الحسن کاندھلوی، مولانا مقصود عالم عرفانی، مولانا اقبال قاسمی کانپوری، مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی، اور قاضی عاشق پھلتی ندوی صاحب، وغیرہ کے نام ذہن میں رہ گئے۔
انتظامات میں پیش پیش مولانا رحمت اللہ ندوی، مولانا منور سلطان ندوی، ڈاکٹر مفتی نصر اللہ ندوی، مفتی محمد مسعود حسن حسنی ندوی صاحبان وغیرہ نظر آئے، اور سچ یہ ہے کہ انہیں کی شبانہ روز کی انتھک محنتوں سے فکر ونظر کی یہ سوغات میسر آئی۔
ندوہ آئیے تو یہاں کی میزبانی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، انواع واقسام کے ہمہ رنگ کھانوں سے لکھنوی دسترخوان چنا گیا، لذت کام ودہن کا پورا سامان کیا گیا، اس پر مستزاد ندوۃ العلماء کے ہمارے اساتذہ کی منکسر المزاجی، کھلے دل سے بار بار کھانے کے لیے کہنا اور دیدہ ودل فرش راہ کرنا ایسا امتیاز ہے جو مشکل سے کہیں مل پائے گا، استقبالیہ پر بڑے بڑے اساتذہ "والمقسمت أمرا” کی قسم پر قائم نظر آئے، ہمیں تو بس یہ منظر دیکھ کر "اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة” پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
مادر علمی:
دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نام دل کی دھڑکنوں میں رچا بسا ہوا، اور خیالات کی دنیا میں اجالوں کی صورت زندہ ہے، ندوہ کے ذکر سے دل پر ایک تیر سا چل جاتا ہے:
"ندوہ” کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینہ میں مارا کہ ہاے ہاے
ندوہ کے تذکرہ سے آنکھوں میں نمی اور لبوں پر لرزش سی محسوس ہوتی ہے، اور دل کشاں کشاں اس دیار کے سبزہ زاروں میں اترتا چلا جاتا ہے، اور یہ ذکر جمیل غیر شعوری طور پر ہر اہم موقع پر قلب وزبان کا رفیق سا بن جاتا ہے:
جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل یاد آتا ہے
یہ احساس محض ایک تاریخی ادارہ کا نہیں، بلکہ ایک زندہ خواب کا ہے جس کے نقش دوام آج بھی ذہن ودل پر ثبت ہیں، جب کہیں اس کی تصویر نظر آجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کھوئی ہوئی منزل کی یادوں کے دریچے کھل گئے ہوں، اور جیسے بچھڑ چکا موسمِ بہار دل کے ویرانہ میں چپکے سے اتر آیا ہو، اور یہ گنگنانے پر مجبور کر رہا ہو کہ:
تُو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
میں ایک کھوئی ہوئی موج ہوں تُو ساحل ہے
تیری وفا ہی میری ہر خوشی کا حاصل ہے
ندوہ کا ہر گوشہ علم و عرفان کی خوشبو بکھیرتا ہے، یہاں کے خوشہ چینوں نے دنیا کے طول وعرض کو منور کیا، قدیم ترین علمی ذخائر کی بیاباں نوردی ہو یا جدید افکار کے سنگِ میل، ندوہ نے ہمیشہ عالمِ اسلام کو ایک نیا زاویۂ نگاہ دیا، یہ وہ مقام ہے جہاں خیالات کے جوئے شیر بہتے ہیں، اور خونِ جگر سے تحریر کے پیکر تراشے جاتے ہیں، ندوہ کی محفلوں میں اجزائے پریشاں کو شیرازہ بندی کا سامان ملتا ہے، اور ہمیشہ "رفع نزاع باہمی” کا اصول کار فرما ہوتا ہے، یہاں کی حاضری سے قلب ونظر کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ سنبل وریحان اور لؤلوء ومرجان سے بھی نہیں حاصل ہوتا۔
ہجوم میں اتنے روشن چہرے نظر آئے کہ جیسے:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ
اپنے اساتذہ میں کسی سے معانقہ ہوا، کسی سے مصافحہ، کسی سے سلام کسی سے صرف استلام، ہمارے دور کے کتنے سینیئر یا جونئیر معزز رفقاء ہیں جو اب یہاں استاذ ہیں، جن سے مل کر ڈھیر ساری باتیں کرنے کے خواب سجا کر یہاں آیا تھا، لیکن پے بہ پے نشستیں سانس نہیں لینے دیتی ہیں، اور یہ موقع بہ مشکل میسر آتا ہے، چند لمحوں کے لیے اپنے مشفق ومحسن استاذ جلیل حضرت مولانا نیاز احمد ندوی شیخ الحدیث وصدر مفتی دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ حاضری ہوئی، لیکن بس "كلمح البصر أو هو أقرب”، اس باغ وبہار مجلس سے بھی جلد ہی رخصت لینی پڑی، حضرت مولانا عبد القادر صاحب مظاہری ندوی نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، مولانا نذیر احمد صاحب ندوی اور مولانا خالد گونڈوی ندوی صاحب کے ساتھ چائے نوشی کی سعادت حاصل ہوئی، اور ان کے علمی نکات سے استفادہ کا موقع ملا۔
میرے عزیز ورفیق مفتی اکرام الحق ندوی استاذ فقہ اسلامی المعہد العالی للدراسات العلیا، لکھنؤ اور مفتی محمد یوسف ندوی جامعۃ المومنات کا اصرار تھا کہ میں ان کے یہاں چلوں لیکن اس بار اپنے ہمدم دیرینہ مولانا سرفراز عالم ندوی استاذ معہد الشریعہ سے پہلے ہی بات ہوچکی تھی کہ ان کے گھر جانا ہے، کچھ کھانا پینا ہے، کچھ سننا سنانا ہے، سو اسی وعدہ پر قائم رہے، اور ان کے یہاں جانا ہوا، ان کے احترام ومحبت کی مجھے دل سے قدر آتی ہے، انہوں نے اپنی بہت سی کرم فرمائیوں کے ساتھ یہ کرم بھی کیا کہ میری درخواست پر ڈالی گنج قبرستان بھی لے گئے جہاں ندوہ کے گنج ہائے گراں مایہ اور میرے بہت سے نامور اساتذہ مدفون ہیں، مغرب کے بعد اندھیری رات میں اس شہر خموشاں میں کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ اس جفا کار کو یہ جواب مل رہا ہے کہ:
قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمع تربت کو بجھا دینا
مفتی محمد زید مظاہری ندوی، مولانا محمد وثیق ندوی، مولانا سلمان نسیم ندوی، مولانا فرمان نیپالی ندوی، وغیرہ سے بس سر راہ چلتے چلتے ملاقات ہوگئی، مخدوم گرامی قدر استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الاعظمی ندوی صاحب دامت برکاتہم وعمت فیوضہم اور دیگر اجلہ اساتذۂ ندوہ کے یہاں شرف باریابی سے بھی محروم رہا، ملازمتوں کے تقاضے ہانپتے کانپتے اپنے مقام پہ واپس ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں، ورنہ جی تو چاہتا ہے کبھی یہ بھی گنگنا لیں کہ:
خدا کے واسطے اب کے نکالو مت گلستاں سے
مرا دامن بندھے تو باندھ دو گل کے گریباں سے
اللهم زد هذا البيت علواً وشموخاً ونفعاً للأمة الإسلامية.
Comments are closed.