غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات

 

قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

دارالقضاء ناگپاڑہ، ممبئی۔۸

8080697348

غیر مسلم کی عزت وآبروکی حفاظت کرنا ضروری ہے:

سماجی زندگی کوپرامن بنانے اورفتنوں سےمحفوظ رکھنےکے لئے سب سے زیادہ اہمیت کاحامل عزت وآبروکےتحفظ کو یقینی بناناہے،کیوں کہ ہر انسان کواپنی عزت پیاری ہوتی ہے، جب کہ ذلت نہایت ہی کرب وبے چینی اورذہنی کوفت میں مبتلا کرتی ہے،دوسروں کی برائیوں کی ٹوہ میں پڑنا،برائیوں کوپھیلانا،انھیں بدنام کرنا، ان کامذاق اڑانا،ان کی غیبت کرنا،الزام وبہتان لگاناوغیرہ کبیرہ گناہ ہیں،ان سے بہت سارے فتنے جنم لیتے ہیں،جھگڑا،لڑائی،اورقتل وغارت گری کاسبب بنتے ہیں۔اس میں مسلم غیرمسلم سب برابرہیں۔کسی کی بھی عزت کی نیلامی کرناجائز نہیں۔ گویاکہ جس طرح ایک مسلمان کی عزت وآبروکی حفاظت کرناضروری ہے اسی طرح ایک غیرمسلم کی بھی عزت وآبروکی حفاظت ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کارشادہے: ترجمہ: اے ایمان والو! نہ توکوئی قوم دوسرے قوم کامذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ جن کامذاق اڑارہے ہیں خود ان سے بہتر ہوںاورنہ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں،ہوسکتاہے کہ وہ جن کامذاق اڑارہی ہیں، خود ان سے بہترہوںاورتم ایک دوسرے کوطعنہ نہ دیاکرواورنہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے پکارو،ایمان لانے کے بعد گناہ کانام لگنابہت بری بات ہے،اورجولوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں، اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچوبعض گمان گناہ ہوتے ہیں،اورکسی کی ٹوہ میں نہ لگو،اورایک دوسرے کی غیبت نہ کرو،کیاتم میں کوئی پسندکرے گاکہ وہ اپنے مردار بھائی کاگوشت کھائے؟اس سے توخود تم نفرت کرتے ہو،اوراللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑاتوبہ قبول کرنے والااوربہت مہربان ہے۔ اے لوگو!حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا ہے،اورتمہیں مختلف قوموں اورخاندانوں میں اس لیے تقسیم کیاہےتاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کےنزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ متقی ہو، یقین رکھوکہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبرہے۔(سورہ حجرات:۱۱۔۱۳)۔فقہ کی کتابوں میں لکھاہے کہ جس طرح مسلمانوں کی غیبت کرناجائز نہیں،اسی طرح غیرمسلموں کی بھی غیبت کرناجائز نہیں۔ (درمختارمع ردالمحتار:۴/۱۷۱)

غیرمسلم والدین کے ساتھ صلہ رحمی اوران کی مالی ضرورت پوری کرنا:

سماجی تعلقات میں سب سے زیادہ جن لوگوں سے واسطہ پڑتاہےوہ انسان کے والدین ہیں،اوریہی انسان کے سب سے زیادہ قریب ہوتےہیں،اللہ کی ذات وصفات اوراس کے ساتھ مخصوص اعمال میں کسی دوسر ےکو شریک ٹھہراناشرک کہلا تا ہے، شرک کرنااسلام میں نہایت ہی ناپسندیدہ اور سخت گناہ ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کاقانون ہے کہ وہ ہر قسم کے گناہ کو معاف کردیں گے، لیکن شرک والے گناہ کو معاف نہیں کریں گےاورمشرک کاٹھکانہ جہنم ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ اس گناہ کو معاف نہیں فرمائیں گے کہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایاجائے،اوراس گناہ کے علاوہ اگر وہ چاہے تو معاف کردے گا، اورجو کوئی شرک کرے گاتو بڑی دور کی گمراہی میں مبتلاہوگا۔ (سورہ نساء:۱۱۶)

مگراس کے باجود اگر کسی مسلمان کے ماں باپ مشرک ہوں تو اسلام نے ان کے ساتھ بھی رواداری اورحسن سلوک نیز ان کی خدمت اوران کےساتھ صلہ رحمی کرنے کاحکم دیاہے۔

اللہ تعالیٰ کادوسری جگہ ارشادہے۔ترجمہ:ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ۔ اس لیے ہم نے وصیت کی کہ تم میرا بھی شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی ۔تم کومیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے ۔ اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے ، جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ مان اور ان کے ساتھ معروف کے مطابق اپنا برتاؤ رکھ۔‘‘ (لقمان:۱۴۔۱۵)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسماءرضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کی ماں جو مشرکہ تھیں ان کی خدمت میں آئیں،تو انھوں نے اپنی ماں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیاکہ کیامیں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ضرورصلہ رحمی کرو، (بخاری، حدیث:۳۱۸۳)

دراصل ہرماں باپ کی قلبی خواہش اوردلی آرزوہوتی ہے کہ ان کی اولاد ان سے ملاقات کرے، خبر خیریت پوچھے،اوراگر وہ محتاج ہیں تو ان کی ضرورت پوری کرے، اس لیے اسلام نے انسان کی اس فطری خواہش کی رعایت کی ہے، اوروالدین خواہ وہ غیرمسلم ہوں ان کی خدمت اوران کےساتھ صلہ رحمی کرنے کو لازم قراردیاہے، ہاں اگر ان سے تعلقات رکھنے میں ایمان خطرے میں پڑجائے تو پھرتعلق رکھنا جائز نہیں ہے۔

فقہ حنفی کی مشہورکتاب ہندیہ جومغل بادشادہ اورنگ زیب عالمگیررحمہ اللہ کی سرپرستی میں ترتیب دی گئی، میں ہےکہ اگرکسی کے والدین کافرہوں تو ان کاخرچہ اداکرنا،ان کے ساتھ بھلائی کرنا، ان کی خدمت کرنااوران کی ملاقات کرنااس مسلمان پرلازم ہوگا۔ (ہندیہ: ۵/۳۴۸)

عام غیرمسلموں کے ساتھ صلہ رحمی:

فقہاء کرام نے اپنی کتابوں میں غیرمسلموں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے ،ان کے ساتھ رہن سہن اختیارکرنے، اور انھیں ہدیہ وتحائف نیز دعوت وغیرہ دینے کے تعلق سے مستقل باب قائم کیاہے۔چنانچہ السیرالکبیرجو فقہ حنفی کی قدیم اورمعتبرترین کتاب ہے، اس کاباب ہے:بَابُ صِلَةِ الْمُشْرِكِ، اس کے بعد مُرِتب نے ابومروان الخزاعی سے نقل کیاہے کہ اس نے حضرت مجاہدؒ جو بڑے تابعی گزرے ہیں سے سوال کیاکہ ایک مشرک کےساتھ میرے تعلقات ہیں،اوراس کے اوپر میراکچھ مال ہے، تو کیامیں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں،اوراپنامال چھوڑدوں؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا: ہاں! اس کےساتھ صلہ رحمی کرو۔

حضرت امام محمد ؒ جو فقہ حنفی کے بڑےامام اورمدون فقہ ہیں،فرماتے ہیں کہ ہمارامسلک یہ ہے کہ مشرک خواہ وہ قریب کارہنےوالاہویا دورکا،اہل حرب سے اس کاتعلق ہویاوہ عہد وپیمان والاہو،اس کے ساتھ صلہ رحمی کی جاسکتی ہے۔(کلھامن شرح السیرالکبیر:۱/۹۶)ہندیہ میں ہے کہ غیرمسلم کے ساتھ صلہ رحمی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہےخواہ وہ کسی بھی طرح کاغیرمسلم ہواورکہیں کابھی رہنے والاہو۔(ہندیہ:۵/۳۴۷)

پڑوسیوں کے حقوق:

سماجی زندگی میں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کاہوناان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور بوقت ضرورت ان سے تعاون لیناناگزیرہے،پڑوسی پڑوسی ہوتاہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کاماننے والاہو، اسلام میں ان کے حقوق بیان کئے گئے اورا ن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے۔قرآن کریم میں ہے:

ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو، اوراس کے ساتھ ذرہ برابر کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ،ماں باپ،رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں،پڑوسیوں، قریب اور دور کے ہمسایوں،پہلوکے ساتھیوں، مسافروں اورجن کےتم مالک ہوان کے ساتھ حسن سلوک کرو،بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے اورشیخی بگھارنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔(سورہ نساء:۳۶)

اس آیت میں جن لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیاگیاہے، اس میں ان کے مذہب وعقائد سے قطع نظر انسانیت کی بناء پرحکم دیاگیاہے، لہذا اگر ماں باپ،پڑوسی،رشتہ داراورمسافرغیرمسلم بھی ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ضروری ہے۔تفسیرقرطبی میں ہے:ترجمہ:یہ وصیت پڑوسیوں کےبارے میں کی گئی ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یانہ ہوں،یہی صحیح رائے ہے۔(تفسیرقرطبی:۵/۱۸۴)

احادیث میں بھی پڑوسیوں کے حقوق بہت تاکیدکے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسیوں کے حقوق اداکرنے کے بارے میں وصیت کرتے رہے،یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگاکہ کہیں پڑوسی کو ترکہ میں وارث نہ بنادیاجائے۔(بخاری، حدیث نمبر:۶۰۱۴ عن عائشہ رضی اللہ عنہا)

حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے تین بارقسم کھاکرفرمایا:خداکی قسم! وہ آدمی مومن نہیں ہوسکتاہے،خداکی قسم وہ آدمی مومن نہیں ہوسکتاہے، خداکی قسم وہ آدمی مومن نہیں ہوسکتاہے،صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ !وہ کون ساآدمی ہے؟آپ نے جواب میں ارشادفرمایا: یعنی وہ آدمی جس کی شرارت سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ ہو۔ (بخاری، حدیث نمبر:۶۰۱۶)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس کی شرارتوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ ہو،وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۴۶ عن ابی ہریرہ ؓ)

پڑوسیوں کے تعلق سے مسلم خواتین کو نصیحت:

مشاہدہ ہے کہ عورتیں اپنی پڑوسی خواتین سےبہت جلد تعلقات قائم کرلیتی ہیں،اس لیے آپ ﷺنے خاص طورپرمسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئےکہا: اے مسلمان عورتو! ہرگزکوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیےمعمولی ہدیہ کو حقیرنہ سمجھے خواہ بکری کے کھُر کاہی کیوں نہ ہو۔یعنی معمولی چیزہی کیوں نہ ہوضرور پڑوسیوں کو دیا کرو۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۶۰۱۷، عن ابی ہریرہؓ)

پڑوسیوں کو تکلیف نہ دی جائے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جو کوئی اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے تو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے،اوراپنے مہمان کااکرام کرے۔ (صحیح بخاری: ۶۰۱۸، عن ابی ہریرۃ)۔فقہ کی مشہورکتاب بدائع الصنائع میں ہے کہ آدمی کودیانۃہر اس کام سے رکناواجب ہے جس سے پڑوسی کوتکلیف اوراذیت پہونچے۔ (بدائع الصنائع:۶/۲۶۴)۔دوسری جگہ ہےکہ آدمی کو اپنی ملکیت میں ہر طرح کاتصرف کرناجائز ہے، لیکن اگر پڑوسی کوتکلیف پہونچے توپھر جائز نہیں۔ (بدائع الصنائع:۷/۲۹)۔چنانچہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کے اکرام میں جتنی روایتیں ہیں وہ مطلق ہیں،اس لیے غیر مسلم پڑوسیوں کو بھی شامل ہیں۔ (تفسیرقرطبی:۵/۱۸۸)۔فقط

Comments are closed.