کتاب "اجماع امت”تعارف ،حیثیت اور اہمیت

 

 

 

تبصرہ

امجدصدیقی

معہدالرشاد کولکاتا

9661941384

 

 

مفتی شکیل منصورالقاسمی صاحب کی شخصیت وعلمی استعداد اب اہل علم وفن کےدرمیان محتاج تعارف نہیں رہی ۔

مفتی صاحب سے میرے علمی مراسم تقریباً دس سالوں پرمحیط ہیں،انہیں ، ان کی شخصیت ، اوران کی علمی طبیعت وتحقیقی مزاج کو بالکل قریب سے دیکھا اور پڑھا ہے،ان کی لسانی نفاست،قلمی سلاست اورتدریسی مہارت کا میں بلا واسطہ مشاہد ہوں، بلا شبہ وہ میدان قرطاس وقلم اور تحقیق وتدقیق کے عظیم شہسوار اور ممتاز انشاء پردازہیں ، مفتی صاحب کاعربی قلم سحبانی لباس میں قرآنی علوم کاسر چشمہ اور اردو قلم جدید طرز و لہجے میں فقہی باریکیوں کا محور ومرکز ہے۔

مفتی صاحب جس علم وتحقیق کی وادیوں کے تازہ دم شہسوار ہیں وہاں تعب وتھکن کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے، لکھتے ہیں اور ہر موضوع پہ ڈوب کے خوب سے خوب تر لکھتے ہیں۔ ان کی تحریرات و فتاویٰ مختلف موضوعات پر گہرے علم، فقہی مہارت، اور عصرِ حاضر کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے آتی ہیں۔ ان کے فتاویٰ میں قرآن و سنت، فقہ، اور اجماعِ امت کا بھرپور حوالہ دیا جاتا ہے۔ کوئی بات بلا حوالہ نہیں کہی جاتی ، ان کے جوابات دلیل پر مبنی اور مضبوط علمی بنیادوں کے حامل ہوتے ہیں۔

عصرِ حاضر میں پیدا ہونے والے جدید مسائل کے حوالے سے، ان کے فتاویٰ نہایت جامع ، محَقَق ، مدلل ، تشفی بخش اور رہنمائی فراہم کرنے والے ہوتے ہیں۔ایک موضوع کے منتشر مواد کو بڑی مہارت کے ساتھ وہ یکجا کردینے کا ہنر جانتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے فتاویٰ میں اعتدال کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ وہ شدت و “افراطِ بے جا “ سے دور رہ کر شریعت کے اصول کو نرمی اور حکمت کے ساتھ بیان کرنے کے قائل ہیں اور پابند عمل بھی۔

ان کے فتاویٰ کی زبان شُستہ ، رواں ، سہل وآسان اور علمیت وادبیت کی شاہکار ہوتی ہے۔ وہ ہر مسئلے پر فن کی دست یاب بنیادی مصادر ومراجع سے پہلے گہری تحقیق کرتے ہیں اور پھر عرق ونچوڑ کے بطور حسب ضرورت مختصر ومفصل جواب فراہم کرتے ہیں۔ وہ مختلف فقہی مکاتبِ فکر کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے دلائل پیش کرتے ہیں۔

ان کے فتاویٰ میں پہلے کتاب وسنت سے ، پھر اجتہاد اور قیاس کی روشنی میں جدید مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے، جو کہ ان کی فقہی بصیرت اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔

بایں ہمہ ان کے مضامین ومقالات وفتاویٰ کو علمی وفقہی حلقوں میں احترام وقدر اور بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کی تحقیق کو مستند مانا جاتا ہے۔ان کی تحریرات وتحقیقات کو ملک کی اکابر علمی شخصیات کا اعتماد واعتبار حاصل ہے ۔

ان کے فتاویٰ علم، تحقیق، اور حکمت کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی یہ خصوصیات انہیں امت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ اور معتبر نام بناتی ہیں۔ مفتی صاحب کی قلمی جولانیاں ملکی اور عالمی سیاست کے پیچ وخم پربھی اثرانداز ہوئی ہیں،قوانین اسلام کی امتیازی خصوصیات،فقہی درجات اور روزمرہ پیش آمدہ جدید مسائل پرمفتی صاحب ہردن لکھتے ہیں۔ام المؤمنین "حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا کم سنی میں نکاح”پرمفتی صاحب کا علمی،تحقیقی اورجامع مقالہ اس موضوع کے سارے اردو مضامین پر فائق ہے۔اس کے علاوہ مفتی صاحب کے مختلف علوم وفنون کی متعدد عربی،اردو تصنیفات ورسائل شائع ہوکر مقبول خاص وعام ہوئی ہیں!

اس وقت مفتی شکیل منصورالقاسمی صاحب کی نئی کتاب بنام "اجماع امت،حقیقت ،حیثیت، فلسفہ،مراتب وتطبیقات” کامسودہ میرے مطالعے کے میز پر رکھا ہوا ہے،از اول تا آخر بالاستیعاب مطالعہ کیا تومحسوس ہو اکہ اس بارمفتی شکیل منصورالقاسمی صاحب نے”اپنے کمال علم،تحقیقی وتخلیقی ذہانت،لسانی سلیقہ مندی سے ایک خشک وپیچیدہ موضوع کوسہل کرنے کی اچھوتی ، منفرد وکامیاب کوشش کی ہے!

"اجماع امت ” فقہ اسلامی کے چار بنیادی ذرائع میں سے تیسرا ذریعہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد صحابہ سے لے کر ،تابعین وائمہ مجتہدین تک ہرزمانے میں "اجماع امت سے مسائل شرعیہ اخذ کئے گئے ہیں ۔”اجماع امت "پراردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے اورجوکچھ لکھا گیا وہ شرح وبسط کے ساتھ نہیں ہے، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نےاس طرف توجہ بھی دلائی تھی کہ "اجماع امت "پر اردو میں تفصیلی موادکی سخت ضرورت ہے۔ مفتی شکیل منصورالقاسمی حفظہ اللہ تعالی کی زیرنظرکتاب میں”اجماع "کے وہ تمام اہم مباحث شامل ہیں جو عام طورپہ تلاش بسیار کے بعد بھی دستیاب نہیں ہو پاتے، اجماع در اصل اجتماعی اجتہاد ہی کی منظم شکل ہے ؛ اس لئے مصنف نے سب سے قبل اجتہادکی شرعی حیثیت،عہد رسالت وعہد صحابہ کرام میں اس کے ثبوت ووجود ، اس کی اجتماعی وانفرادی شکلوں، اجتہاد کی شرائط ، مجتہد کی اہلیت ، اس کے دائرہ کار اور حدود جیسے عناوین پر انتہائی فاضلانہ اور چشم کشا بحث کی ہے ۔پھر اجماع کی لغوی وشرعی حقیقت وحیثیت ، اس کی ضرورت ، اہمیت ، حکمت ، فوائد ، اقسام ، مراتب ، ناقلین اجماع کے مناہج وطرق کار ، نقل اجماع کے لئے مستعمل تعبیرات واصطلاحات ،اجماع شرعی واجتماعی اجتہاد میں فرق ، فقہی مذاہب کی کتابوں میں منقول اجماع کی مراد ، اجماع واتفاق میں ترادف وتباین ، اجتماعی غور وخوض کے ادوار ومراحل ، معاصر اداروں اور فقہ اکیڈمیوں کی حیثیت ، ان کی پاس کردہ تجاویز کی شرعی حیثیت وغیرہ پر انتہائی بصیرت افروز و نفیس گفتگو کی گئی ہے ۔

صاحب کتاب نے خصوصیت کے ساتھ عرب وعجم میں موجود فقہ اکیڈمیوں اور اجتماعی غور وخوض کے معروف ایک درجن کے قریب اداروں کی حیثیت،ضرورت اور خدمات پرفاضلانہ ومحققانہ بحث کی ہے۔ مثلاً فقہ اکیڈمیوں کی پاس کردہ تجاویز کی حیثیت بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ :

“فقہ اکیڈمیوں کے اجلاس کو اجماع شرعی کہنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اجماع کے لئے امت محمدیہﷺ کے تمام مجتہدین کا اتفاق ضروری ہے جو ان اکیڈمیوں میں عملی طور پر ممکن نہیں ہے”۔

یہ کتاب عرب وعجم کی مشہور فقہ اکیڈمیوں کے نام اورخدمات کا مختصر؛ مگرجامع ترین تعارف نامہ بھی ہے، جن میں مجلس تحقیقات شرعیہ ندوة العلماء لکھنؤ،ادارہ مباحث فقہیہ جمعیت علماء ہند، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ،اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان سمیت عرب وعجم کے دیگر مستند اورمعتبر فقہی اداروں کےقیام ومقاصد اورخدمات کا مختصر ذکر کو بھی شامل ہے !

یہ خصوصیت بھی اس کتاب کو حاصل ہے کہ جن باوقار اورعظیم علمی شخصیات کا کتاب میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے ذکر ہوا ہے ان کامختصر سوانح خاکہ اور علمی کارنامے بھی کتاب کےآخری صفحات پہ شامل کئے گئے ہیں ۔مثلاً مصنف آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےذکر خیرمیں لکھتے ہیں کہ : سیدالاولین،والآخرین ،سببِ تخلیقِ کائنات،انسانیت کےمحسنِ اعظم ابوالقاسم محمدبن عبداللہ بن عبد المطلب مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اوراللہ رب العزت کی خصوصی تربیت میں نشو ونما ہوئی،طفولیت ہو کہ شباب ،حیاتِ مستعارکا ہرگوشہ تقدس وپاکیزی سے عبارت ہے ، کہیں سے ذرہ برابربھی انگشت نمائی کی کوئی گنجائش نہیں”۔

اسی طرح مصنف نے تذکرہ صحابہ ومحدثین وفقہاء میں اپنے ادبی اسلوب،طرزنگارش اورقلمی سحر کاری میں قاری کوباندھے رکھنے کی خوب کوششیں کی ہیں ۔

تذکرۂِ شخصیات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمرفاروقؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود، امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف ،امام شافعی ، امام محمد ، امام احمدبن حنبل ، علامہ آمدی، ابن تیمیہ ، علامہ عینی،قاضی عیاض ، امام غزالی علامہ ابن حاجب، امام ابن حبان ، ابن رجب حنبلی،علامہ ابن سبکی،ابن عابدین شامی ، مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب قاسمی ، مولانا سید اسعد مدنی ، مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی، مولانا عبد الماجد دریابادی، ابو المآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی، مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، ‎مولانا سید فخر الدین مراد آبادی، مولانا ‎ سید منت اللہ رحمانی، مولانا عبد الصمد رحمانی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی،مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی، مولانا محمد سفیان قاسمی ،مفتی احمد دیولوی، مولانا بدرالحسن قاسمی، مولانا محمد اویس نگرامی ندوی سمیت تقریباً سواسو علماء وفقہاء کی سوانحی عمری وعلمی آثار کا مختصر مگر جامع تذکرہ نے کتاب کو علمی اثاثہ اور مسافران علم وتحقیق کے لئے سرمۂ بصیرت بنا دیا ہے ۔

مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے والدین اور بڑے بھائی حافظ محمد شمشیر عالم،اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبنداورتمام اساتذہ کرام بالخصوص جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی رحمہ اللہ کی طرف کیا ہے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ ملک کے تینوں بڑے اداروں ( دیوبند ، سہارنپور ، ندوہ) کی عبقری شخصیات اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے امین عام کے گراں قدر تاثرات ، تقریظات وتائیدات نے کتاب کی اہمیت وافادیت میں چار چاند لگادی ہیں ۔

کتاب اس وقت طباعتی مراحل میں ہے ، بہت جلد منظر عام پر آیا چاہتی ہے ۔صفحات کی تعداد تین سو سے متجاوز ہے ، قیمت بھی تخمیناً تعداد صفحات کے مساوی ہی ہوگی ، طباعت کے بعد ملنے کے پتے کی نشاندہی کردی جائے گی ، ویسے مسودے پہ تین عدد پتے درج بھی ہیں ، کلکتہ کے شائقین عاجز سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں ، نسخے محدود ہیں جبکہ شائقین لامحدود ! پہلے بُک کرانے والے احباب کو خصوصی رعایت مل سکتی ہے ۔

امید ہے کہ یہ کتاب اصول فقہ کی تفہیم وتدریس اور علم فقہ کے طلباء واساتذہ کے لئے نہ صرف معاون ثابت ہوگی بلکہ اس فن میں دستاویزی حیثیت کی حامل ہوگی ان شاء اللہ !

اللہ تعالی مفتی شکیل منصورالقاسمی کوپوری امت مسلمہ بالخصوص علماء وطلبہ کی جانب سے اجرجزیل سے نوازے، اس کتاب کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے اوراپنے بندوں میں مفیدبنائے آمین ثم آمین۔

Comments are closed.