ہوا کے دوش پر (سفرنامے) : ایک تبصرہ

 

 

محمد توصیف قاسمی

 

 

سفرنامے علم وادب کا ایک حسین سنگم رہے ہیں، ان کے مصنفین اور متعلقہ مقامات کے حالات و افکار کا متنوع تجزیہ ہوجاتا ہے، اسی طرح ادب و اسلوب کی عکاسی بھی ہوتی ہے، ان سفرناموں میں ایک عمدہ ترین اضافہ نامور محقق ،با اسلوب صاحب قلم حضرت مولانا مفتی عتیق احمد بستوی صاحب دامت برکاتہم کا سفرنامہ ‘‘ہوا کے دوش پر’’ہے۔

حضرت مفتی صاحب اپنے علمی وتحقیقی مقام کی وجہ سے علمی و قلمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، ملک و بیرون ملک آپ کے دینی و علمی اسفار ہوتے رہتے ہیں، ‘‘ہوا کے دوش پر’’ مفتی صاحب کے بالکل اولین بیرون ملک چار ممالک کے اسفار کی روداد ہے، سب سے پہلا بیرون ملک سفرسعودیہ عربیہ ، اسی سفر میں دبئی، پھر شام اور لندن برطانیہ کا سفرہے۔

سب سے پہلی چیز جو یہ سفرنامے محظوظ کراتے ہیں، وہ ہے ادب و اسلوب ، مفتی عتیق احمد بستوی صاحب کا قلمی ذوق ہمیشہ کی طرح ان سفرناموں میں بھی خوب ظاہر ہوتا ہے، جب کہ آپ کے قلم سے مستقل تصنیفات، تراجم، اور تنقیدات ہمشہ سے ہی ادب و اسلوب کے پہلو سے مقبول و معروف رہی ہیں۔

دوسری اہم چیز جو حضرت مصنف نے پوری دیانتداری سے اس کتاب میں نقل کی ہے وہ متعلقہ مقامات کے علماء و صلحاء ، مفکرین و اہل اصلاح جن سے ملاقاتیں ہوئی ان کے افکار و نظریات کی زبردست ترجمانی ہے۔

اتفاق سے راقم الحروف نے ہی کتاب کو کمپوز بھی کیا ہے، لاک ڈاون کے بعد متصل ہی کمپوز ہوگئی تھی، ا س طرح کتاب کی طباعت سے قبل ہی میں ا سے مکمل پڑھ چکا تھا، اور پوری ایمانداری سے عرض کروں تو بعض مختصر ہی سہی مگر علماء عرب وشام کی فکری و سیاسی بصیرت پڑھ کر راقم کو اپنے اکابر اور ان کے طرز سیاست کی قدر معلوم ہوئی۔

جیسا کہ نظر ہی آرہا ہے کہ نوجوان فضلاء بلکہ ایک حد تک علماء کا وہ بھی طبقہ جو عمرکی چار دہائیاں پار کرچکا ہے، وہ بھی ہندوستانی سیاسی و ملی مسائل کو بھی بڑے جذباتی انداز سے دیکھتے ہیں، اب تک ایسے علماء مل جاتے ہیں جو بصراحت کہتے ہیں کہ بس اب بورڈ اور جمعیت کے اکابر کی جانب سے ‘‘نفیر’’ ہونے ہی والی ہے، پھر یوں سے یوں ہوجائے، کہیں یہ شکایت ہے کہ یہ حضرات قیادت کی گدی کو جیسے ہتھیائے بیٹھے ہیں، اور ان کی دستوری کارروائی کو ان کا نکما پن قرار دیا جاتا ہے،الحمدللہ اس حد تک نہ سہی مگر جوانی کے جذبات سے ہماری فکربھی متاثر رہی، اس کتاب میں عرب و شام کے علماء کے افکار پڑھ کر کم ازکم بندہ کو جمعیت علماء ہند اور مسلم پرسنل لابورڈ اور ان کے اکابر کے متحملانہ فیصلوں کی قدر مزید بڑھ گئی، کہ اگر یہ نہ ہوتے تو شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر علامہ سعید رمضان بوطی نور اللہ مرقدہ نے کہا تھا، جسے دیکھنے کے لئے کتاب کے الفاظ زیادہ موزوں ہوں گے۔

اسی طرح ملت اسلامیہ کی لوٹ مار کے وقت بعض علماءبلکہ بعض لحاظ سے اکابر سمجھے جانے والے حضرات نہ صرف مسلمانوں کی صورتحال سے اغماض کرلیتے ہیں بلکہ اثرو تبدیلی والے طبقےیعنی امراء و حکماءکی منشاء پر جم کر رہ جاتے ہیں،اس کا مشاہدہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نامور عرب محدث سے ملاقات کے وقت ہوتا ہے کہ جب شامی علماء کا ایک اعلیٰ سطحی وفد شیخ ابوغدہؒ کی معیت میں ان عالم کے دروازے پر پہنچا اور حافظ الاسد کے مظالم کا دکھڑا سنایا اور شاہ کے دربار میں اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرنے کی سفارش کی بات کی تو ان باتوں کا ذرا بھی اثر نہ لے کر ان کی زبان پر تکفیرِ اشاعرہ اور ان کے مطابق علامہ زاہد الکوثری کے باطل وگمراہ کن افکار زیادہ اہم موضوع گفتگو تھے۔

اس کے علاوہ عرب و شام اور برطانیہ کے مختلف ارباب علم و فکر سے ملاقاتوں اور ان کے سیاسی و ملی بصائر و افکار کا ایک عمدہ ترین گلدستہ ہے، خصوصا شام کے تاریخی مقامات اور وہاں کے خواص و عوام مسلمانوں کے اخوت ایمانی اور ضیافت کا بڑے جذباتی انداز میں تذکرہ موجود ہے، نیز برطانیہ کے دینی احوال اور وہاں جاری علماء کی سرگرمیوں پر ایک عمدہ نوٹ کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مفتی مرغوب احمد لاجپوری(برطانیہ) دامت برکاتہم کی تقریظات بھی ہیں۔

بہرحال کتاب مجموعی لحاظ سے ایک وقیع ادبی و فکری تحفہ ہے، اور ارباب ذوق کے لئے اس کتاب میں ادب و اسلوب، بصیرت و معلومات سب موجود ہے۔

کتاب ۳۱۲ صفحات پر مشتمل ہے،عمدہ قسم کے کاغذ پر طباعت ہوئی ہے،خریداری کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:9369336624

اس کے علاوہ کتاب کو ندوہ کے قریب مکتبہ ندویہ، مکتبہ احسان اور مکتبہ دارین سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.