عہدجاوداں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت کو زندہ جاوید کرنے والی ایک وقیع کتاب

 

از : رضوان احمد قاسمی
سابق استاذ دارالعلوم وقف دیوبند
سکریٹری مدرسہ اصلاح المسلمین بینی پٹی مدھوبنی بہار

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ہندوستان ہی نہیں بلکہ برصغیر میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور امتیازی شان رکھنے والا دینی وملی ادارہ ہے، اس ادارہ نے اپنے قیام سے اب تک بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے، امارت شرعیہ کے دستوری ڈھانچے میں امیر شریعت کو سب سے عظیم مقام حاصل ہے، امیر شریعت امارت کا سربراہ اعلی ہوتا ہے اور بقیہ تمام افراد ان کے تابع ہوتے ہیں، دستوری طور پر امیر شریعت کو ہی تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ اپنی اعلی قابلیتوں، تخلیقی صلاحیتوں اور بیدار مغزی اور بلند ہمتی سے امارت شرعیہ کی تعمیر و ترقی کے اہم اور دور رس فیصلے لیتا ہے اور امیرشریعت کی ہی فکروں پر پورے امارت شرعیہ کی تعمیر و ترقی منحصر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو امیرشریعت جس قدر بیدار مغز، متحرک اور فعال ہوتا ہے امارت بھی اسی طرح ترقی کرتا ہے، امارت شرعیہ کے قیام کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران تقریباً سات امرائے شریعت اپنی ذمہ داریاں نبھاکر اللہ کے حضور جاچکے ہیں، اس وقت آٹھویں امیر امارت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے امارت کو اپنے پیش رو امراء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور انشاء اللہ تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
انہی امرائے شریعت میں بحیثیت امیرشریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ گذرے ہیں، حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت ملک میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، وہ ایک زبردست عالم دین، بہترین مدبر و منتظم، دینی و عصری تعلیم پر یکساں عبور، عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالی دماغ سیاستدان بھی تھے، وہ کم وبیش 20 سالوں سے زائد بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے، ڈپٹی اسپیکر رہے، سیاست میں انہیں یدطولی حاصل تھا، موجودہ دور کے بڑے بڑے سیاستدان ان کے مشورے کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے، مسلمانوں کے مسائل کے تعلق سے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بیباکی سے بات کرنے کا خوب ہنر جانتے تھے، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دوٹوک بات کرتے تھے، ان کے یہاں مصلحت کے نام پر منافقت کا کوئی گذر نہیں تھا، جو بولنا ہے بروقت اور دوٹوک بولنا ہے، کسی کی ناراضگی کا کوئی خوف نہیں کرتے تھے، اور یہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی بڑی خوبی تھی جس سے حکومت وقت بھی ڈرتی تھی، زیر نظر کتاب عہدجاوداں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی امارت شرعیہ میں بحیثیت امیرشریعت کارناموں اور جدوجہد کی داستان ہے جسے ان کے بہت ہی معتمد، تربیت یافتہ، دست گرفتہ اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے والے ایک رفیق کار امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب مدظلہ العالی نے بڑی محنت اور جانفشانی سے لکھی ہے، یہ کتاب دراصل حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی امارت شرعیہ میں بحیثیت امیرشریعت کئے گئے کاموں کی تفصیلی رپورٹ کارڈ ہے جس کے ذریعے امارت شرعیہ کے ایک عہد کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی پڑتی ہے، یہ کتاب کیا ہے، گویا مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی زندہ جاوید کارناموں کی چلتی پھرتی عکس بندی ہے، یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب مدظلہ العالی کہ انہوں نے مذکورہ کتاب عہد جاوداں تحریر کرکے جہاں ایک طرف حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ سے اپنی عقیدت و محبت کا حق ادا کرتے ہوئے ان کی خدمات کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے وہیں دوسری جانب امارت شرعیہ کے ایک عہد کی مکمل اور مفصل تاریخ بیان کردی ہے، اس سلسلے میں امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے بجاطور پر کتاب پر اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ مولانا شبلی قاسمی صاحب کو چاہیے کہ وہ ہر امیرشریعت پر اسی طرح ایک کتاب لکھ دیں تاکہ آٹھ امیر شریعت کے حالات آٹھ جلدوں میں آجائیں گے اس طرح امارت شرعیہ کی تاریخ امیرشریعت کے کارناموں کے حساب سے 8 جلدوں میں تیار ہوجائے گی. واقعی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا یہ مشورہ بہت ہی عمدہ ہے، مولانا شبلی قاسمی صاحب کو اس مشورہ پر غور کرنا چاہیے، اس طرح بڑا کام ہوجائے گا انشاءاللہ.
صاحب کتاب مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب کتاب کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
زیر نظر کتاب میں ان کی خدمات اور امارت شرعیہ کو اس کے مقام پر لانے کی جدوجہد کی معمولی عکاسی کی گئی ہے، جس میں فکر سجاد اور نظریہ آزاد کی آمیزش، سوز و ساز، بصیرت، افکار، منصوبے، عزائم کی تابانی اور ولولے ہی ولولے نظر آتے ہیں، وہ تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے، ان کی زندگی کا ہرپہلو انسانیت کے لیے نصیحت، درس اور راہ عمل تھا، ان کا ہر قدم لوگوں میں امید اور ان کے جسم خاکی میں قوت پیدا کرنے والا تھا، وہ عزم و استقامت کے پیکر تھے اور اسی کی تبلیغ کرتے تھے، وہ مخلص مذہبی قائد ہونے کے ساتھ منجھے ہوئے تجربہ کار اور اعلی درجہ کے سیاسی رہنما بھی تھے، قدرت نے ان میں کوٹ کوٹ کر سیاسی شعور و آگہی رکھی تھی، ملک کے بڑے بڑے سیاسی لیڈران ان کے سامنے اپنا قد چھوٹا محسوس کرتے تھے.
کتاب محض ایک کتاب نہیں بلکہ امارت شرعیہ کی ایک تاریخی دستاویز ہے، ہر وہ شخص جو امارت شرعیہ سے محبت رکھتا ہے اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ سے عقیدت رکھتا ہے اس کے لیے یہ کتاب سرمہ حیات ثابت ہوگی، کتاب کی تصنیف پر حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب مدظلہ العالی کو اور کتاب کی نشرواشاعت کے لیے برادر عزیز قاری محمد اسجد زبیر مہتمم جامعہ عربیہ شمس العلوم شاہدرہ دہلی کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہر دو شخص کی جدوجہد کو شرف قبولیت بخشے اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین..

Comments are closed.