حضرت علامہ قمر الدین گورکھپوری ایک عہد ساز شخصیت کی رحلت: مفتی محمد حسنین قاسمی

مدھوبنی / پریس ریلیز
مؤرخہ 22 دسمبر 2024ء بروز اتوارفجر کے وقت میرے عزیز فرزند محمد امداد اللہ سلمہ جو ان دنوں دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم ہیں انہوں نے بذریعہ فون یہ اطلاع دی کہ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث ثانی حضرت مولانا علامہ قمرالدین گورکھپوری رحمۃ اللہ علیہ طویل علالت کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر جہاں ملت کے مختلف گوشوں میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا گیا وہیں جامعہ عائشہ صدیقہ نورچک میں بھی قرآن خوانی اور اور دعا کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر جامعہ کے بانی و ناظم مفتی محمد حسنین قاسمی نے اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت کی وفات نہ صرف ان کے اہل خانہ اور شاگردوں کے لیے بلکہ پورے علمی اور روحانی حلقے کےلیے ناقابل تلافی نقصان ہے وہ اپنے علم و عمل اور اخلاق کے ذریعے اکابر کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔
ان کی وفات صرف ایک شخصی نقصان نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا ایک عظیم خسارہ ہے۔ ان کی شخصیت علم و عمل، تواضع، اور سادگی کا پیکر تھی۔ طلبہ سے محبت اور دینی علوم کی خدمت ایک مثال تھی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتازمانۂ طالب علمی کا وہ دلکش دور آج بھی یادوں کی لوح پر نقش ہے جب عصر کی نماز کے بعد حضرت علیہ الرحمہ کے ساتھ تفریح کا موقع نصیب ہوتا۔ تووہ تفریح علم و حکمت کے چراغوں سے روشن تھیں اور حضرت کی محبت بھری شفقت دلوں کو موم کر دینے والی مسکراہٹ اور نصیحت آموز باتیں زندگی کی راہیں منور کر دیا کرتی تھیں۔ ہر لمحہ گویا ایک درس تھا، اور ہر نگاہ میں ایک پیام۔
2004 کی وہ مبارک گھڑیاں آج بھی تازہ ہیں جب صوبۂ بہار کے معروف ادارہ مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ کے جلسۂ دستاربندی کے موقع پر حضرت کی تشریف آوری ہوئی۔ ان دنوں میں وہاں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا، اور حضرت کی خدمت کی تمام تر ذمہ داری میرے سپرد کی گئی۔ یہ سعادت میرے لیے ایک غیرمعمولی اعزاز تھی جس نے مجھے ان کے قریب ہونے کا ایک نادر موقع دیا۔ حضرت کے اخلاق عاجزی اور محبت کا وہ منظر آج بھی دل کے آئینے پر روشن ہے۔
حضرت علیہ الرحمہ کی تدریس کا انداز منفرد تھا احقرکو بھی مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں حضرت علیہ الرحمہ سے مسلم شریف، ابو داؤد شریف اور بیضاوی شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہے سبق کے دوران اکابر کے واقعات اور نصیحت آموز باتوں سے وہ دلوں پر گہرا اثر چھوڑ دیتے۔ ان کی زندگی اکابر دیوبند کے طرزِ زندگی کا عملی نمونہ تھی۔
حضرت کا اصلاحی تعلقات محی السنہ حضرت شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ سے تھے اور آپ ان کے خلیفہ مجاز تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے طویل سفر کے دوران اللہ نے انہیں صحیح بخاری شریف پڑھانے جیسے عظیم منصب پر فائز فرمایا جو ان کی علمی صلاحیتوں کا واضح ثبوت ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سے لے کر دورہ حدیث شریف تک دارالعلوم دیوبند میں پڑھایا اور ناظم مجلس تعلیمی اور ناظم دارالاقامہ کے مناصب پر بھی اپنی خدمات پیش کیں۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے 1954ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1957ء میں فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اورحضرت علامہ ابراہیم بلیاوی حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی جیسے بلند پایہ علماء شامل ہیں۔ آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عبدالرب دہلی سے کیا اور بعد میں دارالعلوم دیوبند میں تقریباً 60 سال تک خدمات انجام دیں۔
ان کے جانے سے دلوں پر جو زخم لگا ہے وہ شاید کبھی نہ بھر سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت الاستاذ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے شاگردوں اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے، اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔
اس موقع پر جملہ اساتذہ کرام خاص طور پر مولانا نجیب اللہ قاسمی، مولانا خالد سیف اللہ قاسمی، مولانا ارشاد قاسمی، مولانا عبد العزیز قاسمی، قاری ارشاد عالم وغیرہ شریک رہے۔۔۔۔
Comments are closed.