Baseerat Online News Portal

کیا اسرائیل کے مظالم کچھ کم تھے …

ودود ساجد

اہل فلسطین کے خلاف کیا اسرائیل کی فورسز کچھ کم قتل و غارت گری کر رہی تھیں جو اب یہی کام مغربی کنارہ میں خود فلسطینی اتھارٹی نے بھی شروع کردیا ہے۔ گوکہ اس کا دعوی ہے کہ اس نے مغربی کنارہ میں آباد ایک بڑے کیمپ ’جنین‘ میں حماس کے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے تاہم فلسطینی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ محمود عباس کی سربراہی والی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل‘ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کیلئے نہتے نوجوانوں پر ظلم ڈھارہی ہے۔

اس ضمن میں گزشتہ 30 دسمبر 2024 کو آنے والی تفصیلات اور ظالمانہ کارروائیوں کی تصاویر دل دہلانے والی ہیں۔ ان تصویروں اور ویڈیوز کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ پولیس فلسطین اتھارٹی کی ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ تو ظالم اسرائیلی ہی ہیں۔ کیونکہ وہ بالکل اسی طرز پر کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو کالر سے پکڑ کر اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر لے جاتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں جس طرز پر اسرائیلی فوج انہیں نشانہ بناتی ہے۔۔۔

اس ضمن میں مجھے قطری چینل الجزیرہ اور اسرائیل کے اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے علاوہ متعدد چینلوں اور ویب سائٹس پر جو مواد ملا اسے دیکھ کر میں نے اس موضوع پر آنے والی مزید خبروں اور مضامین کا مطالعہ کیا۔ الجزیرہ چینل کی عربی نشریات میں گزشتہ 30 دسمبر 2024 کو دن بھر ایک ویڈیو چلتی رہی۔ اس میں فلسطینی اتھارٹی کی خصوصی سیکیورٹی فورس‘ جو اپنے حلیہ اور اپنے ایکشن سے اسرائیلی فوج ہی معلوم ہوتی ہے‘ متعدد فلسطینی نوجوانوں‘ یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو کالر سے پکڑ کر مارتے ہوئے لے جاتی ہے‘ کئی نوجوانوں کے ہاتھ باندھ کر ان کا منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑا کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کو ایک ٹانگ اوپر اٹھاکر محض ایک ٹانگ پر کھڑا کیا جاتا ہے۔

الجزیرہ کی تفتیشی ایجنسی ’سند‘ نے مذکورہ ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق کی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ ان فلسطینی نوجوانوں اور کم عمر بچوں کو اسی حالت میں گھنٹوں کھڑا رکھا گیا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی گئی۔ کسی کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر باندھے گئے۔ لیکن اس سب سے زیادہ تکلیف دہ منظر وہ تھا جب ایک نوجوان کو راستہ میں رکھے ہوئے کچرے کے ایک بڑے ڈرم کے اندر سرکے بل بالجبر ڈال دیا گیا۔ بعد میں یہ ڈرم بھی گر گیا۔ عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے الجزیرہ کے رپورٹر نے بتایا ہے کہ یہ فلسطینی نوجوان دیر تک اسی حالت میں کچرے کے اس ڈرم میں پھنسا پڑا رہا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینی پولیس اس نوجوان کو اس حالت میں کہ اس کا سر ڈرم کے اندر تھا اور اس کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں‘ بری طرح اس کی ٹانگوں پر مار رہی ہے۔

یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر محمود عباس کی سربراہی والی فلسطینی اتھارٹی کو اپنے ہی لوگوں پر اس طرح کا ظلم کرکے کیا ملے گا؟ اس کا جواب فلسطین کے قضیہ پر نظر رکھنے والے متعدد ماہرین نے یہ دیا ہے کہ محمود عباس امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں اپنی افادیت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تاکہ جب بھی جنگ تھمے اور فلسطین کے اس علاقہ پر حکمرانی کا سوال آئے جس پر اس وقت حماس کا تصرف ہے تو امریکہ اور اسرائیل محمود عباس کی سربراہی والی اتھارٹی کو ہی اس علاقہ کی حکمرانی کیلئے موزوں سمجھ کر اس کی حمایت کریں۔ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عرب ملکوں میں کون کون سے ممالک اندر خانے چاہتے ہیں کہ جنگ تھمنے کے بعد غزہ سمیت باقی تمام حصوں پر محمود عباس کی اتھارٹی ہی حکومت کرے اور حماس کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔

اس وقت موٹے طور پر فلسطین میں تین قسم کے علاقے پائے جاتے ہیں۔ ایک علاقہ پوری طرح اسرائیل کے زیر انتظام ہے جس میں مسجد اقصی کا کمپائونڈ بھی شامل ہے‘ دوسرا علاقہ پوری طرح محمود عباس کی سربراہی والی فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے اور تیسرے علاقہ پر حماس کے سیاسی ونگ کی حکمرانی ہے۔۔۔

معلوم ہوا ہے کہ چین نے سعودی عرب کی کوششوں سے فلسطین کے تمام مختلف گروہوں کو یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ پچھلے دنوں چین میں ان تمام گروہوں کی میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ ایک سینئر فلسطینی تجزیہ نگارمصطفی برغوثی نے بھی بتایا تھا کہ تمام گروہ باہم متحد ہو رہے ہیں۔ عام طور پر فلسطین میں موجود تمام مسلح گروپ ایک دوسرے کا ساتھ بھی دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں صرف محمود عباس کی سربراہی والی فلسطینی اتھارٹی کو ہی خصوصی نمائندگی کا حق دیا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فلسطینی سفارت خانے اسی کے تحت کام کر رہے ہیں۔

فلسطینی پولیس اور حماس کے مسلح گروہوں کے درمیان ہلکی پھلکی چشمک کی خبریں آتی رہی ہیں۔ تاہم جس طرح کا پرتشدد ماحول اس وقت قائم ہوا ہے وہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسے میں جب اسرائیل کے ظلم و زیادتی کے خلاف تمام گروہوں کو متحد ہونا چاہئے تھا‘ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس بھی وہی کردار ادا کر رہی ہے جو اسرائیل کی فوج کر رہی ہے۔ جولائی 2022 میں الجزیرہ کی صحافیہ ’زینا التہان‘ نے اطلاع دی تھی کہ محض دو مہینے میں فلسطینی اتھارٹی نے 100 سے زیادہ سیاسی گرفتاریاں کی ہیں۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کا دعوی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے زیادہ تر حماس اور اسلامی جہاد کے لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ تازہ معاملہ میں ابھی تک درست اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں تاہم رضاکاروں کا خیال ہے کہ 2024 کے اواخر اور 2025 کے اوائل میں سینکڑوں عام فلسطینیوں کو فلسطینی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے چند ماہ بعد ہی اسرائیل نے تل ابیب سے الجزیرہ چینل کی تمام نشریات کو بند کردیا تھا اور اس کے نامہ نگاروں کو ملک بدر کردیا تھا۔ پچھلے دنوں فلسطین کے بھی بعض علاقوں سے الجزیرہ کی نشریات کو اسرائیل نے بند کرا دیا اور اس کے دفاتر کو سیل کرکے اس کے تمام قیمتی آلات کو ضبط کرلیا۔ یہ خبر کیا کچھ کم تھی کہ 31 دسمبر 2024 کو خود فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے رام اللہ میں قائم الجزیرہ کے دفتر کو بھی بند کرنے کا حکم دیدیا۔

لبنان کی راجدھانی بیروت سے صحافی ایم نشید نے لکھا کہ فلسطینی اتھارٹی اس وقت فلسطین کے علاقہ ’جنین‘ میں حماس کے خلاف زبردست ’کریک ڈائون‘ چلا رہی ہے۔ اس نے مزید لکھا کہ یہ تمام کوششیں امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں اچھا بن کر دکھانے کی ہیں۔ گوکہ اس صورتحال کے خلاف فلسطین میں بڑے پیمانے پر بے چینی پھیل گئی ہے اور محمود عباس پر لوگ لعنت بھیج رہے ہیں تاہم فلسطینی پولیس اپنے مظالم سے باز نہیں آرہی ہے۔ گزشتہ 4 جنوری کو عینی شاہدین کے مطابق فلسطینی پولیس نے جنین کی 21 سالہ مشہور خاتون صحافی شذی صباغ کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ شذی صباغ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعہ فلسطین میں جاری اسرائیل کی بربریت کی داستانیں دنیا تک پہنچا رہی تھی۔ صباغ کے اہل خانہ نے بھی الزام عاید کیا ہے کہ اس کی موت پی ایل او یعنی فتح لبریشن آرگنائزیشن کی گولی سے ہوئی ہے۔ پی ایل او کی سربراہی یاسر عرفات کے بعد محمود عباس ہی کر رہے ہیں۔

9 جنوری کا واقعہ بھی کچھ کم ہیبت ناک نہیں ہے۔ جنین کیمپ کے درجنوں مکینوں کو فلسطینی پولیس نے اپنے مکانات کو خالی کرنے کی ہدایت دی‘ جیسے ہی لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر باہر آئے پولیس نے ان کے مکانات کو آگ لگادی۔ الجزیرہ نے اس کی ویڈیوز بھی دکھائی ہیں اور متاثرین کے بیانات بھی سنوائے ہیں۔ ان جلے ہوئے مکانات کے ملبہ سے متاثرین نے مختلف جلی ہوئی کتابیں بھی دکھائیں۔ ایک نوجوان نے ادہم شرقاوی کی تصنیف ’رسائل من القرآن‘ کے جلے ہوئے اوراق بھی دکھائے۔ ایک اور بچے نے ہاتھوں میں قرآنی نسخوں کے جلے ہوئے اوراق دکھائے۔ ایک جلے ہوئے ورق پر سورہ مطففین کی آیت ’یشہدہ المقربون‘ صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ یہ سب 9 جنوری کے واقعات ہیں۔

10 جنوری کو جنین کیمپ پر اسرائیلیوں نے دھاوا بولا اور مکانوں کو آگ لگاکر مکینوں پر ظلم و تشدد کیا۔ یعنی جو کام ایک دن پہلے فلسطینی پولیس نے کیا اگلے روز وہی کام اسرائیلی فوج نے کیا۔ اب اندازہ ہو رہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جو ہسپتالوں پر تباہی مچائی ہے اس میں فلسطین پولیس نے ہی کردار ادا کیا ہوگا۔ اسی نے اسرائیلی فوج کو جھوٹی یا سچی اطلاع دی ہوگی کہ حماس کے مسلح گروہ یہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلےغزہ میں کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر کو اسرائیلی فوج پکڑ کرلے گئی تھی۔ ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ ہسپتال کے ڈائریکٹر کو رہا کردے۔

دوحہ (قطر) میں مقیم فلسطینی امور کے ماہر عمر رحمان کہتے ہیں کہ کئی برس سے مغربی کنارہ پر محمود عباس کا کوئی خاص کنٹرول نہیں ہے اسی لئے وہ اس طرح کے اقدامات کرکے اپنے آقا اسرائیل اور امریکہ کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی حماس کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ صرف حماس ہی ہے جس سے اسرائیل خوف زدہ ہے۔ اگر اس کا وجود ختم ہوگیا تو اسرائیل کو آگے بڑھنے سے روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔ ایک افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ مغربی کنارہ میں جہاں اسرائیل بھی تین چار برس سے فلسطینیوں کے خلاف پر تشدد مہم چلا رہا ہے وہیں یہودی آبادکار بھی عام فلسطینیوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ اس مہم کے دوران سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے حقوق انسانی نے رپورٹ دی ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک مغربی کنارہ میں متشدد قسم کے نوآباد کار یہودیوں نے 729 فلسطینیوں کو قتل کردیا ہے۔ ان میں سے 63 لوگ جنین کیمپ علاقہ کے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پچھلے دسمبر سے فلسطینی اتھارٹی نے بھی مسلح جد و جہد کو کچلنے کا وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو فی الواقع اسرائیل کا طریقہ ہے۔ ایم نشید‘ زینا التہان اور دوسرے کئی صحافیوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فلسطینی پولیس نے کئی مرتبہ جنین کے علاقہ کو بھاری اسلحہ بردار گاڑیوں سے گھیر کر بلا امتیاز اور اندھا دھند فائرنگ کی‘ جس کے نتیجہ میں درجنوں شہری شہید ہوگئے‘ سینکڑوں کو گرفتار کیا اور اس علاقہ کی بجلی اور پانی کی سپلائی کاٹ دی۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کیلئے اسرائیل – فلسطین کے ماہر کے طور پر کام کرنے والے تہانی مصطفی نے ایک رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ مسلح گروپوں سے نپٹنے کیلئے فلسطین اتھارٹی کی خصوصی سیکیورٹی فورس کو امریکی ماہرین ٹریننگ دے رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

Comments are closed.