مولانا جعفر مسعود ندوی کے سانحۂ وفات سے پوری علمی دنیا سوگوارآل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ داران کا اظہار تعزیت

پریس ریلیز

ملک کے مشہور عالم دین، بہترین ادیب اور کہنہ مشق صحافی، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب کا حادثہ ٔوفات علمی ادبی دنیا کا بڑا خسارہ ہے۔ مولانا حسنی عربی زبان و ادب کے ممتاز ادیب اور ندوۃ العلماء سے نکلنے والے پندرہ روزہ عربی جریدہ الرائد کے ایڈیٹر تھے۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف، ارد و عربی دونوں زبانوں کے بے مثال ادیب تھے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے مولانا کی وفات اپنے گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ندوۃ العلماء کے ذمہ داران اور حسنی خانوادہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی اس حادثاتی موت کا دل پر بڑا گہرا اثر ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ندوہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کا تعلق مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے خانوادے سے ہے، آپ 13 ستمبر 1965 کو تکیہ رائے بریلی، اترپردیش میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا علی میاں ندوی کے حقیقی بھانجے اور عربی زبان کے نامور ادیب اور صحافی تھے۔ملی کونسل بہار کے صدر مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی صاحب نے آپ کی وفات پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا اور اس کو علمی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ جبکہ مولانا محمد نافع عارفی جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ استاذ گرامی مولانا جعفر مسعود حسنی نے حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم اپنے وطن رائے بریلی میں حاصل کی اس کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ عربی زبان وادب میں بھی مہارت پیدا کی، ندوہ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی سند حاصل کی اس کے بعد 1986 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں ایم اے کیا بعد ازاں 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ ”جامعۃ الملک سعود” کے زیر اہتمام ٹیچرز ٹریننگ کا کورس مکمل کیا۔

آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس وتدریس سے کیا، آپ نخاس لکھنؤ میں واقع ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔آپ کا اصل موضوع تفسیر وحدیث اور فکر اسلامی ہے، اب تک بے شمار ادبی، فکری وتاریخی مقالات ومضامین لکھ چکے ہیں اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے نکلنے والے پندرہ روزہ عربی جریدہ ” الرائد ” کے 2019 سے مدیر اعلی (رئیس التحریر) ہیں، آپ کو عربی زبان وبیان پر بڑی قدرت حاصل ہے، عربی زبان میں معیاری مضمون نگاری کے ساتھ کئی کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔آپ کی اہم تصنیفات میں ”فی مسیرۃ الحیاۃ (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی خودنوشت ”کاروان زندگی” کا عربی ترجمہ)، ”الشیخ محمد یوسف الکاندہلوی؛ حیاتہ ومنہجہ فی الدعوۃ (محمد الحسنی الندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ)”الامام المحدث محمد زکریا الکاندہلوی ومآثرہ العلمیۃ (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ)”دعوۃ للتأمل والتفکیر (دعوت فکر ونظر)”بصائر (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ) شامل ہیں۔ اتنے بڑے ادیب وعالم کا دنیا کو اچانک چھوڑ دینا یقینا بڑا نقصان ہے، لیکن قضاء و قدر کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہی مومن کی شان ہے۔

مولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل و جنرل سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم مولانا سید بلال حسنی ندوی اور اسرہئ حسنی سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی وفات نہ صرف ندوۃ العلماء کے لیے باعث غم ہے بلکہ پوری علمی دنیا ان کی وفات سے رنجیدہ اور محزون ہے لیکن اس موقع سے ہم بھی وہی کہتے ہیں جس کے کہنے کا ہمیں حکم ہے انا للہ و انا الیہ راجعون!

ملی کونسل کے ریاستی ذمہ داران مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی، جناب نجم الحسن نجمی،مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی، مولانا محمد عادل فریدی،مولانا مفتی جمال الدین قاسمی و دیگر ذمہ داران و کارکنان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے دلی غم و حزن ظاہر کیا۔

Comments are closed.