تعارف : استحسان ۔ حقیقت اور تطبیقات

 

نام کتاب : استحسان ۔ حقیقت اور تطبیقات

 

ضخامت : 345 صفحات

 

مرتب : محمد حسن ریاض ندوی

 

خادم تدریس جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا

 

یہ کتاب دراصل ہندوستان کے مقبول و عہد ساز تخصصاتی ادارہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں تخصص فی الفقہ کے سال دوم کے دوران ، فقہ و فتاوی کے شناور عالم اسلام کی عظیم شخصیت فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زیر سرپرستی اس حقیر کا تحریر کردہ ایک تحقیقی و فقہی مقالہ تھا ، جسے حضرت فقیہ العصر کی عنایت و منظوری اور نظرثانی کے بعد ادارہ المعہد کی جانب سے طبع کیا گیا ہے ،المعہد میں رہتے ہوئے ایک اچھا تجربہ رہا، وہاں تحقیق و تمحیص ، اور راہ اعتدال کا ذوق ملا ، فکر و نظر کی وسعتیں حاصل ہوئیں ، اُس میدانِ فقہ کے شہ سوار کی بزم میں شرکت ہوئی جو مشکل و پیچیدہ فقہی ابحاث کو بہت ہی سلیس و واضح انداز میں حل فرماتے ، اس فقیہ الأدباء کی صحبت میسر آئی کہ جو دقیق و خشک فقہی تحقیقات کو ایسے بلیغ وادبی طرز میں پیش فرما تے کہ قاری و سامع دلچسپی کے ساتھ محبت و وارفتگی میں پڑھتے وسنتے ہوئے نہ تھکے ، معہد جانے سے پہلے ان کو پڑھا تھا ، لیکن وہاں جا کر ان سے پڑھا ، نزدیک سے دیکھا ، محسوس کیا کہ انداز کتابت سے کہیں زیادہ نرالہ انداز خطابت ہے ، وہ بیک وقت مفسر بھی ہیں ، اور محدث بھی ، صاحب طرز ادیب بھی اور بالغ نظر فقیہ بھی ، محقق و مفکر بھی ، مصلح و مربی بھی ان کی ذات خود ایک بحث کا طویل موضوع ہے ، الغرض وہ ایک مجمع العلوم و الکمالات و مرکز المکارم والمحاسن ہیں ، وہاں کے اساتذہ بھی بڑی خوبیوں کے مالک تھے ، خوش مزاج و بڑے مشفق و مہربان تھے ، اساتذہ وطلبہ کے درمیان رسمی تکلفات سے ہٹ کر باہم مانوسیت و دوستانہ روابط و مراسم تھے ، جو کہ ایک طالب علم کے لیے حوصلہ افزائی و میدان علم میں آگے بڑھنے کا باعث ہوتا ہے ۔

اس حقیر کی خوش بختی ہے کہ اس کتاب کی رسم اجراء المعہد کے سالانہ عظیم الشان بائیسویں اجلاسِ تقسیم اسناد مؤرخہ 25/ جنوری 2025 ء میں حضرت فقیہ العصر ودیگر اکابرین ملت کے مبارک ہاتھوں انجام پائی ہے ۔

 

 

بوقت رسمِ اجراء حضرت فقیہ العصر کے تعارفی کلمات :

 

اسلام کے اصول قانون میں ایک اہم اصطلاح استحسان ہے ، جس کے ذریعہ شرعی احکام کو زمانہ کی ضرورتوں اور تعامل سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ، اس موضوع پر معہد کے فاضل مولوی محمد حسن ریاض میواتی ندوی نے شاید اردو زبان میں پہلی بار ایک مفصل مقالہ مرتب کیا ہے ، جو تقریبا ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے ۔

 

( اس کتاب کے بارے میں )

 

میرے عظیم استاذ ،أدیب الفقہاء و فقیہ الأدباء، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

"عزیز مکرم مولوی محمد حسن سلمہ اللہ تعالی کو فقہ سال دوم میں استحسان کا موضوع دیا گیا ، ان کی تعلیم ” جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا ” میں ہوئی ، انہوں نے تخصص فی الفقہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں سنہ 2015 ء – 2016 ء میں کیا ، نیز مزید علمی ترقی کے لیے اپنے مخلص اساتذہ کے مشورے سے دارالعلوم ندوۃ العلماء گئے ، اور وہاں سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی ، ان کو اس حقیر نے کہا تھا کہ وہ اپنے موضوع پر اس طرح لکھیں کہ اصول بھی واضح ہو جائیں اور اصول پر مسائل کی تطبیق بھی ہو ، ماشاءاللہ انہوں نے محنت سے اس کام کو انجام دیا ہے ، اللہ تعالی نے ان کو اسم بامسمی بنایا ہے اور صلاحیت و صالحیت دونوں سے نوازا ہے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کاوش کو نافع بنائے اور مستقبل میں بھی عزیزی سلمہ کو علم دین اور دین کی خدمت کی زیادہ سے زیادہ توفیق میسر ائے ”

 

میرے مخدوم و محسن استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد راشد قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الحدیث و مہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کیھڑلا

و صدر جمیعت علماء راجستھان

ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

” زیر نظر مسودہ اسی استحسان کی ضرورت و افادیت پر مشتمل ہے جس کو جواں عزم اور صالح فکر کے حامل نوجوان عالم دین عزیزم قاضی مفتی حسن صاحب،استاذ و قاضی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا نے بڑی محنت اور یکسوئی کے ساتھ لکھا ہے۔

موصوف نے از اول تا دورہ حدیث شریف مکمل درس نظامی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا سے، تخصص فی الفقہ، المعہد العالی الاسلامی حیدرباد سے اور عربی ادب کی تعلیم،دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ یوپی سے حاصل کی، عزیزم زمانہ طالب علمی سے یکسو اور اپنے کام کے تئیں فکرمند ہیں، سال نہائی میں حدیث کی اہمیت و وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے بڑی عظمت کے ساتھ،دروس حدیث کی پابندی کی اور حتی المقدور اسباق کی غیر حاضری اور ان کے تئیں تغافل سے پرہیز رہا۔ اُسی دھن اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آج بھی اپنے مادر علمی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا سے وابستہ ہوکر ، مدرسی اور قضاء کے جملہ مفوضہ امور کو، ہمہ تن مصروف رہ کر، بڑی شفافیت اور یکسوئی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔

زیر نظر مسودہ دوران تدریب و زمانہ تخصص فی الفقہ میں لکھا گیا ایک علمی مقالہ ہے،فقہ و فتاویٰ کے شناور اور عالم اسلام کی عظیم ہستی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ، کی زیر نگرانی، عزیزم مفتی صاحب نے یہ مقالہ ترتیب دیا ہے، جو استحسان کے عنوان پر مشتمل ایک قیمتی اور گرانقدر علمی سرمایہ ہے "۔

 

میرے مشفق و مربی حضرت الأستاذ مولانا محمد ادریس صاحب دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا

 

” اللہ رب العالمین اجر جزیل عطا فرمائے مولانا قاضی محمد حسن ریاض ندوی میواتی کو جنہوں نے ہندوستان کی عظیم شخصیت فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیر سرپرستی اصل رابع کی ایک شق” استحسان” پر قلم اٹھایا ، اور بہت سلیس اور واضح انداز میں استحسان کی تعریف و توضیح ،اس کی حجیت واہمیت اور افادیت کو مبرہن و منقح کرکے ایک خوبصورت گلدستہ کی شکل میں اہل علم حضرات کی خدمت میں پیش کیا ہے ، جس کو اب حضرت فقیہ العصر کی نگرانی میں شائع کیا جا رہا رہا ہے ، اللہ تعالی اس تصنیفی عمل کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور مزید علمی ابحاث کو منصۂ شہود پر لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ”

 

رب کریم کا شکر گزار ہوں جس کے فضل سے اس کام کے تمام مراحل مکمل ہو سکے ، اور دعا گو ہوں کہ زیادہ سے زیادہ دین و علم دین کی خدمت کی توفیق میسر آئے ، ان مشفق اساتذہ و اکابرین ملت اور اساطین علم و فن کی اسی طرح سرپرستی حاصل رہے ۔ آمین

 

یہ ابتدا ہے ابھی باب اختتام کہاں

Comments are closed.