غزہ میں ٹرمپ کی پہلی شکست …

 

ودود ساجد

 

(روز نامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

 

تباہ شدہ غزہ میں دنیا کے سب سے طاقتور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی شکست ہوگئی ہے۔ حماس کے عسکری ونگ ’کتائب القسام‘ اور دوسرے عسکری گروپ ’سرایا القدس‘ نے اسرائیلی یرغمالوں کی مزید رہائی کو موخر کرنے کی دھمکی دینے کے پانچ دن بعد گزشتہ روز اسرائیل کے تین یرغمالوں کو رہا کر دیا۔۔۔

 

11 فروری کو امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر 15 فروری کو دن کے 12 بجے تک حماس نے بقیہ تمام یرغمالوں کو ایک ساتھ رہا نہ کیا تو میں ان پر جہنم کے دروازے کھول دوں گا۔ ٹرمپ نے اسرائیل سے بھی کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کردے اور حملے شروع کردے۔ لیکن حماس نے کہہ دیا کہ ہمارے نزدیک اس دھمکی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔

 

حماس نے رہائی کو موخر کرنے کی اپنی دھمکی بھی تبھی واپس لی جب نتن یاہو نے امدادی ٹرکوں کے قافلوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیدی۔ حماس نے یہی کہہ کر مزید رہائی کو موخر کر دیا تھا کہ اسرائیل رہائی کے معاہدہ اور جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے۔ آخر کار 13 فروری کو نہ صرف امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے شروع ہوگئے بلکہ ملبہ کو صاف کرنے کیلئے بھاری مشینوں اور تعمیراتی سامان لانے والے ٹرکوں کو بھی آنے کی اجازت دیدی گئی۔

 

اسرائیل پر شرائط کی خلاف ورزی کا الزام محض حماس نے ہی نہیں لگایا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے اسرائیل اور ثالث ملکوں کے حوالہ سے لکھا کہ حماس کا یہ الزام درست ہے کہ اسرائیل معاہدہ کی پابندی نہیں کر رہا ہے اور معاہدہ میں کئے گئے وعدوں کو توڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل پر زور دیا کہ وہ معاہدہ کی تمام شقوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرے اور مستقل جنگ بندی کی طرف بڑھے۔ نتن یاہو امریکہ کے دورے پر پہنچے اور اس دوران جنگ بندی کے دوسرے مرحلہ کیلئے مذاکرات کا عمل بھی روک دیا۔

 

اسرائیل کے اندر عوام میں بھی بے چینی پھیلی اور انہوں نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ معاہدہ پر نہ صرف عمل کرے بلکہ مستقل جنگ بندی پر بھی فوراً آمادگی کرے۔ اسرائیلی چینل 13 کے مطابق ایک یرغمال کی ماں نے کہا کہ رہائی میں تاخیر کا سبب حماس نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کا رویہ ہے۔ یرغمالوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہزاروں اسرائیلیوں نے ایک سے زائد بار نتن یاہو کے گھر اور دفتر کے باہر مظاہرے کئے۔ آخر کارنتن یاہو کو جھکنا پڑا اور امدادی ٹرکوں کے قافلوں کو آنے کی اجازت دیدی۔۔

 

گزشتہ روز (15فروری کو) تین اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کرنے کے بعد حماس نے واضح کر دیا ہے کہ اب باقی یرغمالوں کو اسی وقت رہا کیا جائے گا جب اسرائیل جنگ بندی کے تمام نکات پرعمل آوری کو یقینی بنادے گا۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ حماس کو ’ٹرمپ کی جہنم‘ سے بھی کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔

 

تین اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کا منظر بھی پچھلے تمام پانچ مرحلوں سے مختلف اور انوکھا تھا۔ ایک بڑا اسٹیج لگایا گیا تھا۔ اس پر پیچھے کی طرف ایک بڑی اسکرین لگائی گئی تھی جس پرایسے ’ویژول‘ چل رہے تھے جن میں مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد جانبازوں کو دکھایا گیا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مختلف لباس اور یونیفارم والے جانباز بھی تھے۔ ان سب کے پاس نئی قسم کے ہتھیار بھی تھے۔

 

الجزیرہ نے حماس کے حوالہ سے بتایا کہ اکثر ہتھیار وہ تھے جو سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیلی فورسز سے چھینے تھے۔ ایک کلیدی بینر پر عربی میں یہ نعرہ لکھا تھا: نحن الجنود یا قدس فاشہدی۔۔۔ یعنی اے یروشلم تو گواہ رہنا ہم تیرے فوجی ہیں۔ رہائی یحی سنوار کے مکان کے قریب خان یونس میں عمل میں آئی۔ ایک اور بینر پر یہ نعرہ لکھا تھا: لا ہجرۃ الا للقد س ۔۔۔ یعنی سوائے یروشلم کے کوئی اور نقل مکانی نہیں ہوگی۔ رہا ہونے والوں میں ایک اسرائیلی یرغمال ایسا بھی تھا جس کے پکڑے جانے کے چار ماہ بعد اس کی بیوی کے یہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی تھی۔ لہذا حماس نے اس کی بیٹی کیلئے سونے کا ایک ٹکڑا بھی تحفہ میں دیا۔۔۔

 

خان یونس کے اس تباہ شدہ علاقہ میں درجنوں کیمرے نصب تھے۔ بڑے بڑے لائوڈ اسپیکرس پر عربی نغمے چل رہے تھے۔ ایک نغمہ اس طرح کا بھی تھا: صہیونیو! مرتے دم تک تمہارے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے۔ کیمرہ بردار ڈرون بھی چکر لگا رہا تھا۔ اسٹیج کی میز پر سامنے کی طرف ایک چھوٹا بینر لٹکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا: وقت نکلا جارہا ہے۔

 

جن تین یرغمالوں کو کل رہا کیا گیا ان سب نے مائک پر اپنے ردعمل کا بھی اظہار کیا۔ ان میں سے ایک نے اپنی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’باقی یرغمالوں کی رہائی کا بھی جلد انتظام کرنا ہوگا ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا‘۔ تینوں صحت مند اور خوش خرم تھے اور انہوں نے اپنے ’اغواکاروں‘ اور محافظوں کی ستائش بھی کی اور کہا کہ جب چاروں طرف بمباری ہورہی تھی تو انہوں نے نہ صرف ہماری حفاظت کی بلکہ ہمارے کھانے پینے‘ کپڑوں اور دوا کا بھی انتظام کیا۔ جبکہ اسرائیل سے رہا ہونے والے فلسطینیوں نے شکایت کی کہ آخر وقت تک ان پر ظلم و جبر کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر کو داخل ہسپتال کرایا گیا ہے۔

 

تین یرغمالوں کی رہائی کے منظر کو دیکھنے کیلئے ہزاروں اسرائیلی شہری تل ابیب کے وسط میں جمع ہوئے تھے۔ نتن یاہو کے سخت ردعمل اور دھمکی کے باوجود حماس نے یرغمالوں کو اسٹیج پر نمایاں طور پر کھڑا کیا اور ان سے مائک پر ان کا ردعمل بھی لیا۔ یہ تینوں بظاہر صحت مند اور خوش وخرم تھے۔ رہائی سے قبل ایک ویڈیو بھی افشا کی گئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ حماس کا ایک بندوق بردار عربی میں ٹائپ شدہ ایک رقعہ پڑھ کر ایک یرغمالی کو خوش خبری سنارہا ہے کہ آج تمہیں رہا کردیا جائے گا۔

 

سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرکے اسے جو جانی و عسکری نقصان پہنچایا تھا اس کے نتیجہ میں خود اہل غزہ کا اب تک سینکڑوں گنا جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اس نقصان کے باوجود حماس نے اسرائیل سے جو کرا لیا ہے عام حالات میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف محاذوں‘ بشمول سفارتی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ اقتصادی اور عالمی محاذ پر اسرائیل کو جو سبکی اور ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی’ قیمت‘ کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔

 

یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ 19 جنوری 2025 کو جنگ بندی کے نفاذ کی ابتدا کے وقت حماس کے قبضہ میں100 سے زائد اسرائیلی یرغمال تھے جن میں سے گزشتہ پانچ مرحلوں میں اب تک 21 کو رہا کیا جاچکا ہے۔ ان کے عوض ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو بھی اسرائیل کی جیلوں سے رہا کیا گیا ہے۔ کل کے رہا شدگان کو ملاکر کل 24 اسرائیلی رہا ہوگئے ہیں۔ اس مرحلہ میں صرف 33 اسرائیلی یرغمالوں کو ہی رہا کیا جائے گا جن کے عوض کل دوہزار فلسطینی رہا ہوجائیں گے۔ گزشتہ روز رہا شدہ تین اسرائیلیوں کے عوض 369 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے اور وہ بھی ہیں جنہیں اسرائیل نے سات اکتوبر کے حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا تھا۔

 

ادھر 11 فروری کو امریکہ کے وہائٹ ہائوس میں ٹرمپ اور نتن یاہو کی ملاقات ہوئی اور اس میں ٹرمپ نے پھر وہی راگ الاپا کہ غزہ کو خالی کراکر اسے’ ڈویلپ کریں گے‘ اور اجڑے ہوئے فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں بسائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اردن اور مصر کے سربراہوں سے بات کرلی ہے۔ نتن یاہو کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ٹرمپ کوئی ایسا منصوبہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔ لہذا اسی سے حوصلہ پاکر نتن یاہو نے فلسطین کے اس ’مغربی کنارہ‘ میں بھی جارحانہ شرپسندی شروع کردی جس پر خود اسرائیل کا تصرف ہے۔ 19 جنوری سے اب تک اسرائیل نے مغربی کنارہ میں سو سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور دوسو سے زائد کو گرفتار کرلیا ہے۔

 

ٹرمپ کے احمقانہ منصوبہ کو فلسطین کے تمام گروہوں نے بیک آواز مسترد کردیا ہے۔ 12 فروری کو اردن کے شاہ عبداللہ ثانی وہائٹ ہائوس پہنچے اور کہا کہ وہ غزہ کے ان دو ہزار بیمار بچوں کا علاج کرائیں گے جنہیں سخت قسم کی موذی بیماریاں لاحق ہوگئی ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ بار بار وہی کہتے رہے کہ اردن اور مصر اہل غزہ کو اپنے یہاں بسائیں گے لیکن شاہ عبداللہ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا بلکہ یہی کہتے رہے کہ ہم تمام عرب ممالک آپس میں گفتگو کرکے صدر ٹرمپ کے ساتھ بات کریں گے۔

 

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے خلاف توقع اعلان کر دیا کہ اگر ایجنڈہ پر غزہ کو اجاڑنے کا منصوبہ ہوگا تو وہ وہائٹ ہائوس کا دورہ ہی نہیں کریں گے۔ ان کا یہ موقف اوراس کا برملا اعلان اس لئے حیرت انگیز ہے کہ امریکہ نے دنیا بھر کی مدد کرنے والی اسکیم کو ختم کرتے وقت صرف دو ملکوں اسرائیل اور مصر کی مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ سمجھا جارہا تھا کہ یہ دراصل مصر کو ٹرمپ کے موقف کی تائید کرنے کیلئے دیا گیا لالچ ہے۔ حالانکہ مختلف مصبرین کہہ رہے ہیں کہ اردن کے شاہ عبداللہ اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کے باوجود یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ اردن اور مصر میں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی پناہ لئے ہوئے ہیں اور اب ان کے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

امریکہ نے سعودی عرب کا نام لے کر بھی کہا ہے کہ وہ غزہ سے اجڑے ہوئے فلسطینیوں کو اپنے یہاں بسالے گا لیکن سعودی حکام نے بھی اس کی سختی سے مذمت کی ہے اور خود ٹرمپ سے ہی مطالبہ کردیا ہے کہ اہل غزہ کو وہی امریکہ کے الاسکا میں آباد کر دے۔ امریکہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر اور سعودی عرب کے با اثر تجزیہ نگار ترکی الفیصل نے بھی ٹرمپ کے منصوبہ کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔

 

بہرحال حماس کتنی ہی کمزور ہو اس نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ سرزمین فلسطین پر طاقت کے بل پر کوئی بھی قابض ہوجائے لیکن اہل فلسطین کسی بھی طاقت کے سامنے جھکیں گے نہیں۔ آخر طاقتور ظالم سے کمزور مظلوم تو جنگیں اسی طرح لڑتے ہیں۔ ان کے پاس ایمان و یقین ہی سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے اور اس وقت روئے زمین پر اہل فلسطین سے زیادہ مضبوط ایمان ویقین کس کے پاس ہوگا؟

Comments are closed.