آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ہم

ڈاکٹر عبد المجید ندوی
سمری ضلع گڈا (جھارکھنڈ)
آزادی کے بعد بھارتی مسلمان گونا گو مسائل سے دو چار ہوتے گئے۔ ایک طرف یہ مسلکی اور تنظیمی تقسیم کے شکار ہوئے تو دوسری طرف حکومت کی بے توجہی اور اس میں خاطر خواہ نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کو بے سہارا محسوس کرنے لگے۔ بیسویں صدی کے وسط تک بھارتی مسلمان مسلکی جھگڑوں میں اس طرح الجھ گئے تھے کہ اپنے نفع و ضرر کے محاسبے کی کبھی ان کو فرصت نہ ملی۔ ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا گیا؛ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ سنی سب اپنی اپنی راگ الاپنے میں لگ گئے اپنے وجود کی بقا اور اپنے تشخص کی حفاظت کی فکر کسی کو نہ رہی۔ ادھر فرقہ پرست تنظیمیں منظم ہو کر مسلمانوں کے خلاف زمین ہموار کرنے میں لگ گئیں۔ جس کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کے سامنے مسائل کے انبار لگ گئے، جن کے حل کے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آنے لگا؛ کیوں کہ مسلمانوں کو اپنے آپسی جھگڑوں سے فرصت نہیں تھی؛ یہاں تک کہ مساجد، مدارس، مکاتب، خانقاہیں اور وقف املاک سبھی زد میں آنے لگے، حتی کہ مسلمانوں کا عائلی نظام پرسنل لا جس کی حفاظت کی ضمانت دستور ہند میں دی گئی تھی اس پر بھی خطرہ منڈلانے لگا۔ ان نازک حالات میں چند غیور علماء کو فکر دامن گیر ہوئی کہ آخر کس طرح اس طوفان بلا خیز کا مقابلہ کیا جائے؟ اور مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو کیسے یکجا کیاجائے؟ اسی فکر نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو وجود بخشا۔
اس عظیم تحریک کا آئیڈیا جن عظیم ہستیوں کے دماغ میں پہلے آیا ان میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، جناب حضرت مولانا منت اللہ رحمانی، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نام نامی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات لکھنؤ میں جمع ہوئے اور مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے غور و خوض کیا اور یہ طے پایا کہ ایک ایسی بین المسالک تنظیم بنائی جائے جس میں تمام مکاتب فکر کی بھرپور نمائندگی ہو؛ تاکہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے متفقہ رائے بنائی جائے اور حکومت وقت تک متحدہ آواز پہنچائی جائے؛ ورنہ ہوتا یہ تھا کہ ہر مسلک والے اپنے انداز میں حکومتِ وقت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے تو دوسرے مسلک والے اس کی مخالفت کردیتے اس طرح حکومت کو پہلو تہی کا موقع مل جاتا۔ انہیں بے ہنگم مسائل سے نمٹنے کے لئے 7 نومبر 1973ء کو بمبئی میں تمام مکاتبِ فکر کے سربراہان کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی؛ جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سربراہان نے شرکت کی؛ مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی (اہل حدیث)، مولانا قلب صادق صاحب (شیعہ)، مولانا مظفر حسین کچھوچھوی (بریلوی) کے علاوہ دیگر بہت سے فعال اور دانشور لوگوں نے میٹنگ میں شرکت کی۔ اسی دن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام ہوا۔
اس کے پہلے صدر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ مہتمم دارالعلوم دیوبند بنائے گئے، اس کے بعد پابندی سے اس کے سالانہ اجلاس ملک کے مختلف شہروں میں ہوتے رہے اور ملی مسائل کے حل کے لیے تمام ممکنہ پہلؤوں پر غور و خوض ہوتا رہا۔ اس کا سب بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں آپسی دوریاں جو بڑھ گئیں تھیں، آہستہ آہستہ اب وہ ختم ہونے لگیں۔ شروع میں لوگوں کو اس فقید المثال تنظیم کی اہمیت معلوم نہیں ہوتی تھی؛ لیکن رفتہ رفتہ اس کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے؛ کیوں کہ ملک گیر پیمانے پر ملی مسائل کو حل کرنے کا ایک مظبوط اور متحدہ پلیٹ فارم تیار ہو چکا تھا- 1985ء میں جب اندور کی شاہ بانو نے طلاق کے بعد بھی اپنے شوہر محمد احمد خاں پر نان نفقہ (Maintenance) حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ بھی سنا دیا تو مسلمانوں کو لگا کہ عدالت عظمی نے شریعت میں کھلی مداخلت کی ہے، جس کا حق آئینِ ہند میں مسلم پرسنل کی حیثیت سے انہیں دیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی، ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف ایسی منظم تحریک چلائی کہ آزادی کے بعد اس سے مؤثر تحریک نظر نہیں آتی۔ اس متحدہ احتجاج کا اثر یہ ہوا کہ فیصلے کو منسوخ کرنے کے لیے حکومت کو مجبور ہونا پڑا۔ راجیو گاندھی حکومت نے(Mslim woman protection of right on divorce act 1986) پاس کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا- اس کے بعد 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کر دی گئی، اس کی وجہ سے پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے، ان باتوں سے مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے ان کو اپنے ہی وطن میں وحشت اور اجنبیت محسوس ہونے لگی، ایسے میں جمعیت علماء ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی؛ دونوں کی شراکت نے اتنے دلائل اور شواہد پیش کر دیے کہ عدالت عظمی بے بس نظر آنے لگی اور ایسا لگا کہ اب بابری مسجد کے حق میں فیصلہ صادر ہوجائےگا، لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ سپریم کورٹ نے تمام شواہد کو بالائے طاق رکھ کر اکثریتی فرقے کی عقیدت (آستھا Aastha)کی بنیاد پر 9 نومبر 2019ء کو ان کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا جو مسلمانوں کے لیے ایک عجوبہ سے کم نہ تھا؛ چوں کہ فرقہ پرست حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت میں تھی؛ اسی لیے وہ جو چاہتی تھی کرا لیتی تھی، اسی سال پارلیمنٹ میں ٹرپل طلاق بل بھی پاس کرالیا، اس کے فورا بعد یو سی سی اور سی اے اے کے لیے کوششیں کرنے لگی جس کی وجہ سے جگہ جگہ احتجاجی دھرنے کیے گئے، تھوڑی دیر کے لیے حکومت خاموش بھی ہوگئی؛ لیکن اپنی مدت کار پوری ہونے سے پہلے ہی دونوں بلوں کو 2024ء میں پاس کردیا اور مسلمان دیکھتے رہ گئے، ان تمام معاملات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کارکردگی بہت اچھی رہی؛ لیکن پارلیمنٹ میں فرقہ پرست اکثریت میں ہونے کی وجہ سے بورڈ کی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا- آج حکومت وقف ترمیمی بل پاس کرانا چاہتی ہے ایسے میں بورڈ ہر ممکن کوشش کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس وقت مودی سرکار دوسروں کی حمایت پر ٹکی ہے اور دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف بھی مظبوط ہے۔ اگر مسئلے کو ہائی لائٹ کیا جائے اور احتجاج اور دھرنے دیے جائیں تو تمام سیکولر پارٹیوں کو اس کے خلاف ووٹ کرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے اور قوی امید ہے کہ ایسا کرنے سے بل کا پاس ہونا ناممکن ہو جائے گا۔ 17 مارچ 2025ء کے جنتر منتر پر دھرنے سے رائے عامہ ہموار کرنے اور حزب اختلاف کے لیڈروں کو اپنی حمایت میں لینے کی بھرپور کوشش ہوئی ہے، بس دعا کریں کہ اللہ تعالی ایسی کوئی صورت نکال دے کہ بل پاس نہ ہو سکے، ورنہ بھارت میں مسلمانوں کا اپنے تشخص کے ساتھ جینا محال ہو جائے گا۔
ان تمام صورت حال میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اہمیت دوگنی بڑھ جاتی ہے، ہمیں بہر صورت اس کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ اور جو بھی حکم صادر کرے بصر و چشم قبول کرنا چاہیے، آج بہت سے لوگ اس کے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں جو اپنے آپ میں خود ایک لمحہِ فکریہ ہے۔ اس سے ہمارے اتحاد میں دراڑ پڑے گا- بورڈ کا طریقہ کار شروع سے جارحیت کے بجائے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کار بند رہا ہے، جو مؤمن کی اصل شان ہے؛ اس لئے تمام بھارتی مسلمانوں سے اپیل ہے کہ بورڈ کی مکمل حمایت کریں، کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں جس سے ہمارا اتحاد ٹوٹ جائے اور ہم ایک دوسرے سے بدظن ہو جائیں۔ یقینا اس سے فرقہ پرستوں کو ہمارے خلاف سازشیں کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔ کچھ لوگ اتنے اتاؤلے ہو جاتے ہیں کہ جیسے ہم کو فورا میدان میں کود جانا چاہیے جو ایک غیر دانش مندانہ سوچ ہے، ہم سب کی دعا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اسی طرح ہر موڑ پر ہماری قیادت کرتا رہے اور مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ بھارت میں جینے کا حق ملتا رہے۔ آمین ثم آمین
Comments are closed.