اتراکھنڈ میں مدرسوں کو بند کرانے کا معاملہ : پورے ملک میں پھیل سکتی ہے یہ آگ

از: آفتاب اظہر صدیقی
کشن گنج، بہار
مختصر الفاظ میں کہا جائے تو اتراکھنڈ میں مدرسوں کو بند کرانا سرکاری تعصب کے سوا کچھ نہیں، تاہم یہ مدرسے کیوں بند کیے جارہے ہیں؟ وہاں کی سرکار کیا چاہتی ہے؟ اور بند کرانے کے کیا اسباب بتائے گئے ہیں؟ ان سوالوں پر ہم یہاں توجہ مبذول کرانا چاہیں گے۔
تحریر میں ان مدرسوں کی تعداد، بند کرانے کی وجوہات، آئین ہند کے تحت اقلیتی حقوق، اور آر ٹی ای ایکٹ کے تناظر میں اس معاملے کی جانچ بھی کی جائے گی۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتراکھنڈ میں اب تک تقریباً 136 مدرسوں کو بند کیا گیا ہے، جو مارچ 2025 کی رپورٹس کے مطابق ہے؛ حالانکہ سب سے پہلے 52 مدرسوں کے بند ہونے کی خبر آئی تھی، پھر 110 کے بارے میں سنا گیا تھا اور اب 136 مدرسوں کے بند ہونے کی خبر ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کارروائی جاری ہے اور تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
تالابندی کی وجوہات:
مدرسوں کو بند کرنے کی بنیادی وجوہات میں ان کا غیر رجسٹرڈ یا غیر قانونی ہونا شامل ہے، جو ریاست کی تعلیمی پالیسیوں کے مطابق نہیں ہیں۔ دیگر وجوہات میں غیر مجاز تعمیرات، سیکیورٹی خدشات، اور ان اداروں کے ممکنہ غلط استعمال کا خطرہ شامل ہے، مثال کے طور پر، کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بند کیے گئے مدرسوں میں سے اکثر کا نقشہ "مسوری-دہرادون ترقیاتی اتھارٹی” سے منظور شدہ نہیں تھا، اور وہ اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں تھے۔ اس کے علاوہ، کچھ ذرائع نے سیکیورٹی خدشات کو بھی اہم وجہ قرار دی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مدرسے غیر رجسٹرڈ طور پر چل رہے تھے، ان کو بند کر دیا گیا ہے۔
آئین ہند اور اقلیتی حقوق
آئین ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتوں کو خواہ مذہب یا زبان کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو اپنے انتخاب اور اختیار کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیا گیا ہے۔ یہ حق اقلیتی کمیونٹیز کی ثقافتی اور تعلیمی خودمختاری کو یقینی بناتا ہے، اور اسے قانونی طور پر مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ حق مطلق نہیں ہے؛ ریاست ان اداروں پر معیاری تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے لیے ریگولیشنز عائد کر سکتی ہے، جیسا کہ سپریم کورٹ نے
"TMA Pai Foundation v. State of Karnataka (2002)”
کیس میں واضح کیا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ جبکہ اقلیتوں کو اپنے ادارے چلانے کا حق ہے، انہیں قانونی اور انتظامی تقاضوں پر عمل کرنا ہوگا۔
آر ٹی ای ایکٹ اور اخلاقی سوالات:
آر ٹی ای ایکٹ (Right to Education Act) 2009 بچوں کو 6 سے 14 سال کی عمر تک مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کا قانون ہے اور یہ تمام تعلیمی اداروں، بشمول نجی اسکولوں، پر نافذ ہے، بشرطیکہ وہ ریاست سے تسلیم شدہ ہوں یا امداد حاصل کریں، تاہم اس ایکٹ میں بھی اقلیتی اداروں کو کچھ شرائط سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سپریم کورٹ نے
"Pramati Education and Cultural Trust v. Union of India (2014)”
میں واضح کیا ہے۔
یہاں پر دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ حکومت غیر رجسٹرڈ مدرسوں کو بند کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر آر ٹی ای ایکٹ کو جواز کے طور پر استعمال کر رہی ہے، خاص طور پر اگر یہ مدرسے معیاری تعلیم کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) نے بھی تجویز دی ہے کہ مدرسہ بورڈز کو بند کیا جائے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مدرسہ بورڈ کی تعلیم آر ٹی ای ایکٹ کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے NCPCR کی اس تجویز پر عمل درآمد روک دیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ موضوع قانونی طور پر متنازعہ بنا ہوا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا "آر ٹی ای” ایکٹ کے تحت مدرسوں کا بند کیا جانا درست ہے؟ خاص طور پر جب یہ مدرسے ہندی، انگریزی جیسے بنیادی عصری مضامین بھی پڑھاتے ہیں۔ تو اس کے دو جواب ہیں؛ پہلا جو ہر مدرسے والوں کو پسند آئے گا کہ آر ٹی ای کا بہانا بناکر مدرسوں کو بند کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ یہ تعصب اور پریشان کرنے والی بات ہے۔ لیکن دوسرا جواب یہ ہے کہ قانونی طور پر اگر مدرسے آر ٹی ای ایکٹ کے معیار پر پورا نہیں اترتے، تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، جیسا کہ ان کا رجسٹرڈ نہ ہونا، کسی بورڈ سے الحاق نہ ہونا، مدرسے میں حفاظتی انتظامات نہ ہونا، ہاسٹل اور درسگاہوں کا غیرمعیاری ہونا یا نصاب کی عدم مطابقت وغیرہ۔
اس پوری تفصیل کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت جن مدرسوں کو بند کر رہی ہے وہ اپنے طور پر بند کرنے کے جواز کی وجوہات بھی بتا رہی ہے اور اگر ان وجوہات پر غور کیا جائے تو اس سے قطع نظر کہ حکومت بہرصورت متعصبانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے کچھ غلطیاں اپنوں کی بھی ہیں، ذاتی اور شخصی اداروں کا کیا حال ہے؟ ان کے مطبخ اور حمام کا ہی اگر جائزہ لے لیا جائے تو انا للہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے، بہت سے لوگ دسیوں سال سے مدارس کھولے ہوئے ہیں؛ لیکن ان کے یہاں نہ تعلیم کا کوئی معیار ہے اور نہ کھانے کا، بہار اور بنگال کے مدرسین کو کم تنخواہوں پر رکھ کر ان ہی کے ذریعے بہار، بنگال کے طلبہ کو بلا لیا جاتا ہے اور پھر ان طلبہ کی صحت و خوراک پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جبکہ اداروں میں ہاسٹل کے لیے باضابطہ قوانین اور سرکاری ہدایات ہیں، لیکن ہمیں ان چیزوں سے کیا سروکار ہے، ہمیں صرف چندہ کرنے والے مدرسین چاہیے اور چندے کے جواز کے لیے باہر کے طلبہ۔
تعلیم کے نام پر دو دو سال تک صرف نورانی قاعدہ ہی پڑھایا جاتا ہے، ہندی، انگلش اور حساب کے لیے بالکل کم تنخواہ پر صرف ایک ماسٹر بحال کیا جاتا ہے، بچوں کو جنرل نالج کے نام پر کچھ نہیں سکھایا جاتا، ملک کیا چیز ہے؟ پردھان منتری کیا ہوتا ہے؟ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کی اصطلاحات سے اور ملک کے بارے میں اہم معلومات سے مشکوٰۃ اور دورے تک کے طلبہ کو محروم رکھا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ اساتذہ کی تنخواہ سے زیادہ نئی تعمیرات پر توجہ دی جاتی ہے اور پھر تعمیرات کے لیے اوتھورائزڈ انجینئر سے نقشہ بنوایا جاتا ہے یا نہیں! اسے تحصیل، ضلع یا نگرپالیکا سے پاس کرایا جاتا ہے یا نہیں! کیا یہ ہماری خامیاں نہیں ہیں؟
میں یہ نہیں کہتا کہ سبھی مدرسے ایسے ہیں؛ لیکن کیا سبھی مدارس اپنی ذمہ داریاں نبھا پارہے ہیں؟
یاد رہے کہ اس سے پہلے آسام میں تمام سرکاری مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا جس کے بعد ان میں خالص مولویوں کی بحالی ختم ہوچکی ہے۔ اب اتراکھنڈ میں سرکاری اور پرائیویٹ سبھی طرح کے اداروں کو بند کیا جارہا ہے اور یہ صرف شروعات ہے۔ اس کے بعد دوسرے صوبوں خاص کر بھاجپا حکومت والے صوبوں میں چل رہے مدارس پر یہی تلوار لٹکنے والی ہے۔
2011 میں "آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ” کی طرف سے ایک کتابچہ شائع ہوا تھا؛ جس کو حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تیار کیا تھا، جس کا عنوان تھا "بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم حاصل کرنے کا حق : قانون اور گائڈلائن” یہ کتاب ہر مدرسے کے ذمہ دار کو پڑھنی چاہیے، اس کے” ابتدائیہ” میں پروفیسر ڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی لکھتے ہیں "RTE کے مکمل نفاذ کے بعد نہ مدارس کو زندہ رکھا جا سکتا ہے اور نہ دستور ہند میں اقلیتوں کو تعلیمی اداروں کے بنانے اور چلانے کے بنیادی حق (دفعہ 29، 30) سے عملاً فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، یہ RTE ایسا قانون ہے جس کے کانٹوں میں الجھ کر ہماری نئی نسل رہ جائے گی اور اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان قانون خوردہ ہوکر کراہتے رہ جائیں گے اور عملاً بنیادی حق کی دفعہ 29 اور 30 بے معنیٰ ہوکر رہ جائے گی۔”
اب دیکھیے کہ ان کے یہ خدشات پیشین گوئی ثابت ہورہے ہیں یا نہیں!
اللہ پاک تمام مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
Comments are closed.