وناش کالے وپرت بدھی

ممتاز میر
پردے کے احکامات غالبا ۵ ھجری کے اواخر یا ۶ھجری کے اوائل میں نازل ہوئے ۔وہ بھی اس وقت جب مسلم خواتین کو پردہ کرانے کے تعلق سے نبیء آخرالزماں ﷺسے حضرت عمر ؓ کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے کچھ خواتین کو جان بوجھ کر چھیڑا بھی تھا۔پردے کے احکامات نازل بلکہ نافذ ہونے کے بعد کا مشہور واقعہ ہے جو پردے کی انتہا بھی بتاتا ہے ۔مردوخواتین کے ایک جگہ جمع ہونے کی نزاکت کی وضاحت کرتا ہے ۔ایک دفعہ ازواج مطہرات کہہ لیں یا ام المومنین کہہ لیںمیں سے حضرت امہ سلمہ ؓ اور حضرت میمونہؓتشریف فرما تھیں۔اسی وقت وہاں نا بینا صحابی حضرت عبداللہ ؓابن ام مکتوم آگئے۔حضور ﷺ نے فورا ہماری دونوں ماؤں کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔حضرت ابن مکتومؓ تھوڑی دیر با ت کرکے وہاں سے چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ وہ تو نا بینا تھے وہ تو ہمیں نہ دیکھ سکتے تھے پھر کیوں آپ نے ہمیں وہاں سے ہٹا دیا۔حضور نے کہا وہ نا دیکھ سکتے تھے مگر تم تو انھیں دیکھ سکتی تھیں۔ایسا ہی ایک واقعہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی مروی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ خود حضرت عائشہ کو کھیل تماشے بھی دکھایا کرتے تھے۔پھر۔۔بات یہ ہے کہ کھیل تماشے دیکھتے وقت اور جانے بوجھے قریبی مرد کو دیکھتے وقت کی ذہنیت میں فرق ہوتا ہے ۔پھر حضرت ابن مکتوم والاواقعہ یہ بتانے کے لئے ہے کہ مرد خواتین کو آپس میں کس درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ریاست مدینہ قائم ہوچکی تھی۔غزوہء بدرو احد وقوع پذیر ہو چکے تھے۔مسجد نبوی وجود میں آچکی تھی۔اسلام کی طاقت ایک بڑی حد تک اپنی رٹ قائم کر چکی تھی۔نہ خواتین اغوا ہوتی تھیں نا بلاتکار ہوتا تھا۔ارتداد کا کوئی سوچ بھی نا سکتا تھا۔موب لنچنگ کا بھی دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔یہ وہ حالات تھے جن میں حضور ﷺ نے اتنا کہا کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو ۔اس میں نہ دعوت ہے نہ اصرار۔پھر بھی حضور ﷺ نے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھایا کہ خواتین کی گھر میں نماز افضل ہے بہ نسبت مسجد کے۔یعنی کسی خصوصی موقع پر خواتین کو مسجد میں آنے سے نہ روکا جائے۔حضور ﷺ نے گھر میں نماز پڑھنے پر زور دیتے ہوئے بڑی تفصیل سے بات سمجھائی کہ خواتین کو اپنے گھر کی بھی اس جگہ نماز پڑھنی چاہئے جہاںعموما انھیں کوئی دیکھ نہ پاتا ہو۔یہ خواتین کی افضل ترین نماز ہے۔اس سے کم افضل اس کمرے کی نماز ہے جہاں سب کا آنا جانا ہو ۔اس سے کم افضل گھر کے صحن کی نماز ہے۔اس سے بھی کم افضل محلے کی مسجد کی نماز ہے اور خواتین کی کم ترین نماز میری مسجد کی ہے یعنی مسجد نبوی کی۔مگر۔۔آج بر صغیر میں کم و بیش تمام تنظیمیں تحریکیں جماعتیں خصوصا جماعت اسلامی اس دوسری تفصیلی حدیث کوماننے کو تیار نہیں۔وہ اپنے متبعین کو یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ کی بندیوں والی حدیث مطلق ہے آپ کو مسجد میں آنے سے مردوں کے برابر ،ممکن ہے زیادہ بھی کہا گیا ہو ،ثواب ملے گا ۔کیونکہ جب جھوٹ ہی بولنا ہے تو کم کیوں زیادہ ہی بتایا جائے۔آج مسلمانوں کے درمیان ہندوستان بھر میں ہاہاکار مچا ہوا ہے کہ ان کی خواتین گھروں سے بھاگ بھاگ کر غیر مسلموں سے شادیا ں کر رہی ہیں ۔بڑے شوق سے ہندوانہ طریقے سے شادی کرتے ہوئے اپنے ویڈیو شوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہی ہیں ۔ہاہاکار مچاہوا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہماری بچیاں مرتد ہو رہی ہیں ۔ وہ ہندؤں کے ساتھ اس کے باوجود شادی کر رہی ہیں کہ ان کے شوہر۲ ؍۴سال ان کو استعمال کرنے کے بعد یا تو ان کو بھگا دے رہے ہیں یا مار ڈال رہے ہیں ۔ہندو شوہر کے ذریعے بھگائی گئی ایسی ہی ایک لڑکی سے جب سوال کیا گیا کہ یہ سب دیکھ کر بھی تم نے ہندو سے شادی کیوں کی ؟تو اس نے جواب دیا کہ میں سمجھتی تھی کہ میرا والا ایسا نہیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی کم عقل جذباتی ہوتی ہیں عورتیں۔
یادش بخیر۔قریب نصف صدی قبل پڑھی ہوئی مولانا مودودی ؒ کی کتاب پردہ یاد آگئی۔مولانا مودودی کون؟وہی جنھوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی۔یہ بات ہم جیسوں کو تو یاد ہے مگر خود جماعت اسلامی والے بھول گئے۔یہ بتانے کے لئے کہ پردہ کیوں ضروری ہے مولانانے سینکڑوں کیا ہزاروں برس کی تاریخ کا تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ بربادی کی راہ پرپہلے ایک معمولی سا قدم اٹھتا ہے جس پر عام لوگوں کو کیا خواص کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔پھر یہی ’’چپ‘‘غلط لوگوں کی جسارتوں کو بڑھاتی ہے ۔پھر خواتین کو دی گئی معمولی سی آزادی معاشرے کو تلپٹ کر دیتی ہے ۔ٖفحاشی پھیلاتی ہے۔ مردوں کا کیا خواتین کی آنکھ کا پانی بھی مرجاتا ہے۔پھر کیبرے بھی ہوتے ہیں اور strip tease بھی ۔گھر گھر چکلے بن جاتے ہیں ۔پھر قوموں کا اہم کام جنسی بھوک مٹانا اور جنسی تلذذ کو بڑھانا ہوتا ہے۔ایسی قوم کے مرد کسی کام کے نہیں ہوتے۔ایسی قوم کا کام پھر تاریخ کے کوڑے دان میں بسیرا کرنا ہوتا ہے۔
آج انہی مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت کے تعلق سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے ان کی فکر سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔حدیث کہتی ہے کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو مگر ان کی افضل نماز ان کے گھروں میں ہے۔مگر جماعت کی خواتین کے دماغوں میں بھرا جارہا ہے کہ روزانہ تراویح مسجد میں آکر پڑھیں ۔اس کا بہت ثواب ہے ۔آج تراویح کی بات کی جا رہی ہے جو کہ ایک نفل نماز ہے کل فرض کے لئے بھی بلایا جائے گا۔آج جو غلط سلط باتیں خواتین کے دماغوں میں بٹھائی جا رہی ہیں کل وہ باتیں معاشرے میں انتشار اور بے چینی پیدا کریں گی اس کا ذمے دار کون ہوگا؟اسے کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟اسلامی تاریخ میں سب سے اچھا دور حضرت عمرؓ کا سمجھا جاتا ہے ۔کیونکہ حضور ﷺ کے دور میں کافر و مشرکین کی ،منافقین کی جو شورشیں تھیں وہ حضرت عمر تک آتے ا ٓتے ان کا مکمل خاتمہ ہوچکا تھا ۔مگر معلوم نہیں کیا ہوا کہ حضرت عمرؓنے خواتین کا مسجد میں داخلہ بند کر دیا تھا۔کیوں؟جب کہ اس وقت مدینہ میں دنیا کی تاریخ کی بہترین اسلامی حکومت قائم تھی۔ خواتین سونے کے ڈلے اچھالتی ہوئی سفر کر سکتی تھیں۔آج ویسی کیا کیسی بھی اسلامی حکومت قائم نہیں۔خواتین کے لئے کیا مردوں کے لئے بھی راستے محفوظ ہیں نہ ٹرینیں نہ اور کوئی ذرائع آمدورفت۔جگہ جگہ مسلمانوں کی موب لنچنگ ہورہی ہے ۔خواتین کی کیا اپنی کیا غیروں کی عصمت دریاں ہورہی ہیں۔ہر دو چار دن میں کسی نہ کسی مسلم خاتون کی ارتداد کی خبر کہیں نہ کہیں نہ کہیں سے آجاتی ہے۔کئی سالوں سے اس پر کنٹرول کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔کالجوں میں لڑکیوں پر نظر رکھنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔مگر حال یہ ہے کہ برقعہ پوش لڑکیوں کے سگریٹ پینے کے ویڈیو ،اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے ویڈیوز وائرل ہوجاتے ہیں۔شوشل میڈیا سے اپنی بچیوں کو بچانے کی باتیں ہوتی ہیں مگر مرض ہے کہ قابو میں نہیںآتا۔یہ ہیں وہ حالات جن میں جماعت کی خواتین سے قیام اللیل کروایا جا رہا ہے۔سارے شہر کی خواتین کو ایک گھر میں جمع کرکے رات بھر نماز پڑھوائی جا رہی ہے۔سوچیں۔اگر رات میںآتے جاتے خدا نخواستہ کوئی نا خوشگوار حادثہ پیش آجائے تو کیا ہوگا؟جماعت کے مخالفین اس پر ہنگامہ کریں تو کیا غلط ہوگا؟یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب ماحول میں آپ کا وہ رعب ہو کہ دشمن کچھ غلط کرتے ہوئے دس بار سوچے۔فی الوقت تو مسلمان دشمن کے لئے تر نوالہ بنے ہوئے ہیں۔
ہم نے ایسے کئی خاندان دیکھے ہیں جہاں پردے کابہت سخت التزام کیا جاتا ہے۔گھر کے مردو خواتین ایک جگہ جمع ہیں اور اچانک کوئی مہمان آجاتا ہے تو خواتین اٹھ کر فورا زنان خانے میں چلی جاتی ہیں ۔حالانکہ آنے ولا مہمان ان میں سے کچھ کے لئے محرم ہوتا ہے پھر بھی وہ وہاں نہیں ٹہرتیں۔یہ کیا ہے؟یہ ہے خواتین کے اندر موجود فطری شرم و حیا۔اگر آنکھ کا پانی مرجائے تو کیا محرم اور کیا نا محرم۔ہماری ایک خالہ ہیں۔عمر قریب ۹۳ سال ۔ہم انھیں سمجھا سمجھا کر تھک چکے ہیں کہ اب آپ کے پردہ کرنا ضروری نہیں ،مگر وہ ہماری بات مانتی نہیں۔جماعت کیا کر رہی ہے ۔وہ جوان خواتین کی آنکھ کا پانی مارے دے رہی ہے۔سال دو سال پہلے ایک ویڈیو دیکھا تھا ۔جماعت کی ایک خاتون شاید مراٹھی میںساوتری بائی پھلے پر تقریر کر رہی ہے۔ہال میں تمام مرد غالبا ہندو ہیں۔صرف ایک غیر مسلم خاتون اسٹیج کے نیچے بیٹھی ہے ۔قارئین بتائیں۔آنکھ کا پانی مرا یا نہیں مرا۔اسی طرح اب جماعت کے اسٹیج پر مردوں کے ساتھ خواتین بھی بیٹھنے لگی ہیں ۔کیوں بھائی؟ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔بھائی !ہماری خواتین میں boldness ہونا بہت ضروری ہے ۔کل انھیں جہاد لڑنا ہے۔یہ ہمت ابھی تک مسلمانوں کی دیگر تنظیمیں جٹا نہیں پائی ہیں۔ یہی وہ بولڈنیس ہے جس کے تعلق سے مولانا نے لکھا ہے کہ آگے چل کر وہ قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔
جب قومیں ،گروہ ،جماعتیں مائل بہ زوال ہوتی ہیں تو منافقین گدھ کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں تاکہ وہ قوم یا گروہ جو کبھی بادشاہ تھادو بارہ اٹھ کر موجودہ حکمرانوں کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔یہ بڑی عجیب ذہنیت ہے کہ عام کارکنان یہ تو مانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے مگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔اب تو بس آخرت ہی میں پتہ چلے ۔افسوس کہ پچھتانے کا موقع نہیں ہوگا۔
………………………………………………………………………………………………………………….7697376137
Comments are closed.