عید کی روح عبدیت، اجتماعیت اور اتحاد ہے

عارف عزیز(بھوپال)

٭ اسلام ایک عالمگیر اور اصلاحی مذہب ہے جو کسی خاص قوم یا علاقہ تک محدود نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے اس کے تہواروں میں بھی یہی روح حاوی نظر آتی ہے جس کو نہ سمجھنے یا ماحول کا اثر قبول کرنے کی وجہ سے آج کی نسل میں اپنے تہوار مناتے وقت اکثریت کے تہواروں کی نقل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس سے اسلامی تہواروں کی شائستگی وپاکیزگی مجروح ہورہی ہے مسلمان بھی دوسروں کے تہواروں کی طرح زیب وزینت، روشنی وسجاوٹ اسراف وفضول خرچی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اس کے پس پردہ یہ جذبہ کارفرما ہو کہ اس طرح مسلمانوں کی شان بڑھے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اعمال سے اسلام کی شان بڑھنا تو کجا اس کی شان گھٹ جاتی ہے لہذا عید صرف اچھے کپڑے پہن لینے یا شیر خرمہ سویاں کھالینے کا نام نہیں۔ اس جشن کی روح عبودیت ،اجتماعیت اور اتحاد ہے۔
عید کے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے والا خوشی کا دن اور فطر کے معنی کھلنے کے ہیں، عید کے دن مہینہ بھر کے روزے کھلتے ہیں۔ اس لئے اس کا نام ’’عیدالفطر‘‘ ہوگیا۔ آقائے نامدار آنحضرت ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اس کے دوسرے سال سے رمضان المبارک کے روزوں کے فرض ہونے کا آپؐ نے اعلان فرمایا، اسی سال عید کی نماز میدان میں ادا فرمائی اور غریبوں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، بس یوں سمجھ لیجئے کہ اسلام آیا تو اس نے دوسری انقلابی اصلاحات کے ساتھ تہواروں کا بھی ایک نیا تصور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام سے قبل عربوں میں جو تہوار منائے جاتے تھے، ان میں کھیل کود، جوئے اور شراب کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں، اس کے برعکس اسلام کے ماننے والوں کو حکم ہوا کہ روزوں کی تکمیل پر اپنے پروردگار کا شکر بجا لائیں، اس کی پاکی اور عظمت کا اعلان کرتے ہوئے صاف ستھرے کپڑوں میں عیدگاہ میں جمع ہوں اور دو رکعت نماز شکرانہ کے بعد مہینہ بھر کی اپنی عبادت وریاضت کو شرفِ قبولیت عطا کرنے کی اللہ کے حضور میں درخواست کریں، کیونکہ عید مسرت وشادمانی کا دن ہے اور اس میں ہر امیر وغریب نیز خاص وعام کی شرکت ضروری ہے لہذا عید کے دن کی اہم ترین عبادت صدقہ فطر کی ادائیگی کو قرار دیا گیا اور نماز سے پہلے اسے غرباء تک پہونچانے کی تلقین کی گئی، اس کی اہمیت یوں واضح کی گئی کہ جب تک صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا، روزے معلق رہیں گے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کیلئے محض اس کی عبادت وشکر کافی نہیں بلکہ غریب ونادار بندوں کا حق ان تک پہونچانا بھی ضروری ہے۔
پچھلی امتوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ دنیا کے سارے انسان اللہ کا کنبہ ہیں لہذا انسانیت کو رنگ ونسل اور علاقوں کے خانوں میںتقسیم کردیاگیا اسلام نے اس غلطی کو درست کرکے انسانوں کو مساوات، بھائی چارہ اور غمگساری کا سبق دیا سب سے پہلے نماز کے ذریعہ اس صداقت کا عملی اظہار کرایاگیا خاص طور سے عیدگاہ کے میدان میں صف بندی کے ذریعہ امیر کی بغل میں غریب اور غریب کی بغل میں امیر کو اس طرح کھڑا کردیاگیا کہ کسی کے دل میں دوسرے پر برتری کا ذرا بھی احساس نہ رہے، یہی اسپرٹ اور جذبہ اسلام مسلمانوں کی عام زندگی میں بھی جاری وساری دیکھنا چاہتا ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی عملی زندگی اس کے برعکس ہے انہوں نے اپنے درمیان مختلف دیواریں کھڑی کردی ہیں وہ ایک امت اور جماعت ہونے کے بجائے گروہوں اور مختلف فرقوں میںبٹے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے مخالف ایک گروہ کو شہہ دے کر دوسروں سے لڑادینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ مسلمانوں کی بے وقعتی اور کمزوری کی صورت میں سامنے آرہا ہے کروڑوں کی تعداد میں ہونے اور ایک اعلیٰ افضل مذہب کے ماننے کے باوجودمسلمان خود کو بے سہارا محسوس کرتے ہیں رمضان ہو یا عید یہ ہر سال بار بار لوٹ کر آتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کا یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاجاتے ہیں۔
اسلامی تہواروں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ چاند کے حساب سے منائے جاتے ہیں اس لئے کسی خاص موسم کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے اگر ان کا ایک ہی موسم مقرر ہوتو وہ بھی موسمی تہوار کہلانے لگیں گے۔ان کی یہ شان کہ وہ کسی موسم کے پابند نہیں کبھی گرمیوں میںتو کبھی جاڑوں میں اور کبھی بارش میں آتے ہیں یعنی زمان ومکان کے پابند نہیں ہوتے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عادت، حسنِ سلوک اور اچھائیوں کو اختیار کرنے کا کوئی موسم نہیںہوتا۔
ہادی برحق ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے روزے میں جھوٹ بولنے کی عادت کو ترک نہیں کیا تو خدا کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ایسا شخص فاقہ کرتا ہے اور مقصد سے دور ہوجاتا ہے۔ رسول پاک ﷺ کی یہ تعلیم ہر زماں ومکاں کے لئے ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ کی عادت کسی خاص موسم میں نہیں بلکہ مطلق ترک کی جانا چاہئے مگر عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ رمضان المبارک میں کچھ احتیاط ضرور برت لیتے ہیں جو رمضان کے رخصت ہوتے ہی ان کی زندگیوں سے نکل جاتی ہے، خاص طور پر عید کے موقع پر نماز دوگانہ ادا کرنے کے بعد یہ معلوم ہی نہیںہوتا کہ مسلمانوں نے روزے رکھے اور اپنی تربیت کا کورس مکمل کرلیا ہے ان کی زندگی میںکوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔جھوٹ، فریب، خود غرضی، ایذا رسانی، جیسی معاشرتی برائیاں موجود رہتی ہیں، ہمدردی، غمگساری، اتحاد اور اتفاق سے وہ پہلے کی طرح دور رہتے ہیں۔
حالانکہ رمضان المبارک کے اختتام پر عیدالفطر کا تہوار مناتے وقت ہر مسلمان کوعید کی اصل روح اور اسلامی تہوار کے مزاج کو پیش نظر رکھنا چاہئے رمضان کے روزوں کا ایک مقصد یہ بیان کیاگیا ہے کہ عام مسلمانوں میں تقویٰ وپرہیزگاری پیدا ہو۔ یہ تقویٰ وپرہیزگاری مالک حقیقی کو صرف رمضان کے مہینے میں مطلوب نہیں، مسلمانوں کی زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا اہتمام ہونا چاہے ایک مہینہ کی تربیت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان سال کے باقی گیارہ ماہ بھی اسی انداز میںبسر کریں رمضان کے روزے عبادات تلاوت، زکوٰۃ اوردیگر اعمالِ خیر ان کی زندگیوں میں توازن پیداکردیں اور مستقل تبدیلی کا باعث بن جائیں۔٭

Comments are closed.