کامیابی اِ دھر ہے، آپ کدھر ہیں؟

عبدالغفار صدیقی
9897565066
ہم میں سے ہر شخص جس شئی کا طالب ہے ،اس شئی کا نام کامیابی ہے ۔ہماری ساری تگ و دو اور بھاگ دوڑ اسی لیے ہے کہ ہم کامیاب ہوجائیں ۔مگر ہمارے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کامیابی کیا ہے ؟کسی کے نزدیک زیادہ سے زیادہ دنیا کی آسائشیں حاصل کرلینے کا نام کامیابی ہے ۔کوئی کسی بڑے عہدے و منصب پر پہنچ جانے کو ہی کامیابی سمجھتا ہے ۔کوئی دووقت کی نان جویں پاکر بھی خوش ہے ۔غرض ہر کسی کے لیے کامیابی کا مفہوم الگ الگ ہے ۔جب ہم دینی اور مذہبی نقطۂ نظر سے کامیابی کا مطلب تلاش کرتے ہیں تومیرے علم کے مطابق دنیا کے تمام بڑے مذاہب اس بات پر متفق ہیںکہ دوزخ سے نجات ہی اصل کامیابی ہے ۔ہمارے برادران وطن اسے ہی ’موکش‘کہتے ہیں ۔اسلام کے نزدیک بھی دوزخ سے نجات اور جنت کا حصول اصل کامیابی ہے ۔فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۔آل عمران۔185)’’ پس جسے دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔‘‘
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے ۔ہمارے یہاں دن میں پانچ مرتبہ بآواز بلند کامیابی کی طرف بلایا جاتا ہے ۔اذان میں موذن ’’حئی علی الفلاح‘‘کی جو پکار لگاتا ہے اس کا مطلب یہی تو ہے کہ ’’آئو کامیابی کی طرف‘‘۔ موذن کی یہ پکار اس کی اپنی نہیں ہے ،بلکہ وہ اللہ کے فرستادہ کے حکم پر یہ آواز لگاتا ہے ،فرستادہ نے بھی کوئی اپنی مرضی سے یہ الفاظ موذن کو نہیں سکھائے ،اس لیے کہ وہ تو اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کہتا ۔وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(النجم۔3۔4)’’وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا ،وہ وہی بولتا ہے جو اس کی طرف وحی کیا جاتا ہے ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’حئی علی الفلاح‘‘ کی یہ آواز اللہ کے حکم و مرضی سے لگائی جارہی ہے ۔وہی اللہ جو ہمارا خالق و مالک ہے ،جس کو ہم نے اپنا معبود برحق تسلیم کیا ہے ۔جس کے بارے میں ہمارا یقین ہے کہ کامیابی کی کلید اسی کے پاس ہے ،وہی ہر چیز کا حقیقی علم رکھتا ہے ،اس کے متعلق ہمارے دل و دماغ کے کسی گوشے میں یہ وہم و گمان بھی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی حکم یا اس کا کوئی اشارہ جھوٹ پر مبنی ہے ۔اس نے اپنی کتاب جس کے منزل من اللہ ہونے اور برحق ہونے پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں ،اس کے آغاز ہی میں یہ غلط فہمی لاریب فیہ کہہ کر رفع کردی ہے ۔ ’’حئی علی الفلاح‘‘کی یہ پکار صرف آج نہیں لگ رہی ہے ،بلکہ جس دن سے رسول برحق نے اپنی حیات مبارکہ میں اس کو جاری کیا اس دن سے مسلسل لگائی جارہی ہے ،کسی ایک ملک میں نہیں لگ رہی ہے ،بلکہ دنیا کے ہر اس حصے میں جہاں اس نبی برحق پر ایمان لانے والے موجود ہیں ،مستقل لگارہے ہیں ۔کسی ایک خاص وقت نہیں بلکہ ہر لمحہ یہ پکار فضائوں میں گونج رہی ہے، کسی ایرا غیرا کے مکان یا کوٹھی بنگلہ یا کسی ظل الٰہی کے دربارسے نہیں بلکہ خانہ خدا سے لگائی جارہی ہے ،جس کے تقدس کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں ،کسی انجانی زبان میں نہیں لگائی جارہی ہے بلکہ اسی زبان میں لگائی جارہی ہے جس میں موذن رسول حضرت بلال حبشی ؓ نے لگائی تھی ،تاکہ مسلمان جہاں بھی یہ آواز سنیں انھیں اس آواز کی مانوسیت اپنی طرف راغب کرلے ۔ساڑھے چودہ صدیاں بیت گئیں ،کسی مسلمان نے اس آواز کا رد نہیں کیا ۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس پکارکی حقانیت پر ان تمام شواہد و ثبوتوں کے باوجود خود مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد اس آواز پر کان نہیں دھرتی ۔
اللہ ،اس کا رسول ؐ ،تمام صحابہ و تابعین ،جملہ فقہاء و محدثین ،ہر مسلک کے علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ ’’حئی علی الفلاح‘‘کی یہ آواز برحق ہے اور کامیابی کا حصول اس آواز پر لبیک کہنے میں ہی ہے ۔ میرے علم و مطالعہ کی حد تک گروہ اسلام سے ہی نہیں ،دیگر مذاہب کے اہل حل و عقد میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ نہیں کہا کہ ’’حئی علی الفلاح‘‘ کی یہ آواز لایعنی ،بے ہودہ اور جھوٹ و افتراء پر مبنی ہے اور کامیابی اُدھر نہیں ہے جدھر یہ آواز بتارہی ہے ،بلکہ اس آواز کی مخالف سمت میں ہے ۔اس کے باوجودتوحید و رسالت اورکتاب و معاد پر ایمان لانے والے اس آواز کو نظر انداز کررہے ہیں ۔فَاعْتَبرُوْا یَآ اُولِی الْاَبْصَارِ (الحشر۔2)
اس آواز پر لبیک نہ کہنے کا مطلب ہے کہ ہم موذن کو جھوٹا سمجھتے ہیں ،اس حالت میں ہمارا دعوائے ایمان ہی خطرے میں پڑجاتا ہے اور خود کو مسلمان کہنے اور کہلانے کا حق ہم کھوچکے ہوتے ہیں ،اور اگر ہم موذن کو سچا مانتے ہیں اور اس پکارکی حقانیت پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اس پکار پر لبیک نہیں کہتے تو ہم گویا جان بوجھ کر ناکامی کی طرف لے جانے والے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔ہم جان بوجھ کر ،ہوش و حواس کے عالم میں ،جب ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں تو پھر کسی سے گلہ و شکوہ کا موقع بھی نہیں رہتا۔زبان سے ’’حئی علی الفلاح‘‘ پر ایمان اور عمل سے اس کی مخالفت ،اسے آپ کفر نہ سہی نفاق تو کہیں گے ہی ،پھر کیا کسی بھی زمانے میں منافقوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کسی بھی حکمراں نے کیا ہے ۔منافق جنھیں ہم اپنی زبان میں ’’دوگلے ‘‘کہتے ہیں ،ہر محفل میں رسوا کیے جاتے ہیں ۔اسی لیے آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد چونکہ دوگلی ہے ،رسوا اور ذلیل ہورہی ہے ۔
یہ صورت حال تو ان لوگوں کی ہے جو ’’حئی علی الفلاح‘‘ کی آواز پر کان نہیں دھرتے ،اسے اگنور کردیتے ہیں ۔انھوں نے تو جان بوجھ کر اپنے لیے ناکامی کا راستا منتخب کیا ہے ۔اب ذرا ان کا حال بھی دیکھ لیجیے جو اس آواز پر کان دھرتے ہیں ،ان میں سے کتنے اس شعور کے ساتھ اس آواز پر لبیک کہتے ہیں کہ اسی میں کامیابی ہے ۔کتنے ہیں جو یہ جانتے ہوئے مسجد جاتے ہیں کہ ہم کامیابی کی طرف جارہے ہیں ،میں سمجھتا ہوں ان میں بیشتر تعداد غیر شعوری طور پر اس آواز کی سمت جاتی ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس آواز پر لبیک کہنے کے باوجود ان کے اخلاق و معاملات بھی ان لوگوں کی طرح ہوتے ہیں جو اس آواز پر لبیک نہیں کہتے ۔بلکہ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ ایک نماز پڑھنے والے کے مقابلے ایک بے نمازی دنیا وی معاملات میں زیادہ امانت دار ثابت ہوا ہے ۔اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ نماز ہمیں بے ایمانی کی تعلیم دیتی ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ نماز پڑھنے والا عادتاً اور رسماً نماز پڑھ رہا ہے ،وہ اس کے تقاضوں سے کما حقہ واقف نہیں ہے۔ورنہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز شعور کے ساتھ ادا کرنے والا ،کسی پر ظلم کرے ،ہمسائیوں کو ستائے ،بازار میں دھوکا دے ،کمپنیوں میں کرپشن کرے ،معاملات میں جھوٹ بولے ،فتنہ و فساد کرے ،اللہ کے باغیوں کو ووٹ دے اور ان کی حمایت میں نعرے لگائے ۔اگر وہ ان میں سے کچھ بھی کررہا ہے تو سمجھ لیجیے وہ ’’حئی علی الفلاح‘‘ کے مفہوم و تقاضوں سے واقف نہیں ہے ۔اس کا یہ رویہ بھلے ہی عدم واقفیت و جہالت کی بنا پرہو، اس کو انجام بد سے نہیں بچا سکتا بلکہ اس پر یہ بھی فرد جرم عائد ہوگی کہ تم جو کچھ سنتے رہے ،جو کچھ پڑھتے رہے ،اس کو سمجھا کیوں نہیں ،تم نے کبھی یہ کوشش کیوں نہیں کی کہ اس کے تقاضوں کو جانتے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اتارتے ،اس پر ایک دفعہ یہ بھی لگائی جائے گی کہ تمہارے اس رویہ نے کہ تم نماز پڑھنے کے باوجود بد عملی کرتے تھے دوسرے لوگوں کو بھی اس آواز پر لبیک کہنے سے روکا ہے ،یعنی تم اللہ کے راستے میں سد راہ بنے رہے ۔
میرے مسلمان بھائیو!’’حئی علی الفلاح‘‘ کی آواز کو سمجھو،اس پر لبیک کہو ،جب تمہیں پکارا جائے کہ کامیابی کی طرف آئو تو سب کچھ چھوڑ دو اور اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ یں لگادو،اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔(فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ-ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَالجمعہ۔9)(فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہ-الذاریات۔51)) واقعہ یہ ہے کہ کامیابی اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہنے میں ہی ہے ۔وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(الاحزاب۔71)۔’’جس نے اللہ او ر اس کے رسول کا کہنا مان لیا اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی ۔‘‘
اس آواز کا تقاضایہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اللہ و رسول ؐ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں ۔میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مجھ پر ایمان لائوگے ،اور نیک عمل کروگے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی حیات طیبہ سے نوازیں گے اور آخرت میں بھی تمہارے نیک اعمال کے مطابق جزا دیں گے ۔یعنی دنیا میں عزت ملے گی ،لوگ تمہارا احترام کریں گے ،تم پر اعتبار کیا جائے گا ،تمہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا ۔اس کے علاوہ جب ہم مرجائیں گے تو اللہ کی رحمت ہم پر سایہ فگن ہوگی ،اس کی نعمتوں بھری جنت میںہمارا ٹھکانہ ہوگا ۔پروردگار کا یہ وعدہ صرف مردوں سے ہی نہیں ہے بلکہ خواتین سے بھی اس کا یہی وعدہ ہے ،اور اس کا ہر وعدہ برحق ہے۔مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً-وَ لَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(النحل۔97)’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘

Comments are closed.