فلاح پاگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا
روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے اور قرآن نفس کا تزکیہ کرتا ہے

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ناظم جامعۃ الفیصل۔تاج پور ،بجنور
9897334419
قرآن کریم کا مقصد انسانوں کو اللہ کا بندہ بنانا ہے۔ان کو پاک صاف کرکے جنت میں پہنچانا ہی نہیں بلکہ دنیا کو بھی جنت کا نمونہ بنانا ہے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خیر و شر کا شعور رکھ دیا اور ساتھ ہی وحی کے ذریعے سیدھے راستے کا تعین کردیا تاکہ لوگ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذار کر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے باوجود انسان اکثر گناہوں کی غلاظت میں ملوث ہوجاتا ہے۔ گناہوں کی آلودگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یہ گناہوں کی صفائی کا عمل دنیا کی زندگی سے شروع ہوتا اور اللہ کی رحمت سے آخرت میں اپنے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو آلائشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور ہر قسم کی گندگی سے پاک کرکے اچھائی،خیر، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ یعنی اپنی ذات کو گناہوں سے پاک کرنے کو اصطلاح میں تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔ تزکیہ کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ دل اور نفس کو ظاہری و باطنی غلاظتوں سے پاک و صاف کرنا ،دوسرے یہ کہ ظاہری و باطنی حسن اخلاق و اوصاف سے اپنے کو مزین کرنا۔تیسرے یہ کہ دل و دماغ کو عظمت و رفعت بخشنا یعنی اچھی اور اونچی سوچ رکھنااور اپنی شخصیت کو اس طرح سنوارناکہ وہ ہر پہلو سے بلندی و رفعت کی منزلوں کی طرف رواں و دواں رہے۔
تزکیہ دل کا بھی ہے اور دماغ کا بھی ۔دل کا تزکیہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو تمام آلائشوں سے پاک رکھے۔اس میں غیر اللہ کی محبت نہ ہو،اس میں حسد کینہ کپٹ نہ ہو،اس میں انسانوں سے نفرت کا لاوا نہ ابل رہا ہو،اس میں رشتے داروں سے انتقام کی آگ نہ سلگ رہی ہو،اسی طرح دماغ کا تزکیہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کے نظام کے خلاف خیالات پرورش نہ پارہے ہوں ،لوگوں کے خلاف سازشیں نہ رچی جا رہی ہوں ۔دل اور دماغ بالکل اسی طرح صاف ہوں جس طرح وہ پیدائش کے وقت تھے ۔اس میں صرف اللہ سے محبت ہواور اللہ کے حکم کے مطابق ہی خیالات و افکار ہوں۔
تزکیہ کے فائدے صرف آخرت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا بڑا فائدہ انسان کو دنیا میں بھی ملتا ہے ،اس کی پاکیزگی اسے لوگوں میں محبوب بنا دیتی ہے ۔اس لیے دونوں جہان میںکامیابی کے لیے تزکیہ ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا (الشمس 9تا10)
’’یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیااور نامراد ہوگیا وہ جس نے اسے آلود ہ کیا۔‘‘
اس آیت میں جس کامیابی کی خوش خبری دی گئی ہے وہ صرف آخرت کی کامیابی نہیں ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی کامیابی کے لیے جھوٹ ،فریب اور چالاکی ضروری ہے ایسا نہیں ہے بلکہ جو لوگ نیک عمل کریں گے اور خود کو تمام برائیوں سے پاک رکھیں گے ان کی دنیاوی زندگی بھی بہت اچھی گزرے گی۔جیسا کہ سورہ النحل میں فرمایا گیا۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل97)
’’جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے، اور ان کے اعمال کا بہترین اجر ان کو دیں گے۔‘‘
جنت میں داخل ہونے والوں کے لیے تو لازمی ہے کہ ان کا تزکیہ ہوچکا ہو یعنی وہ تمام برائیوں سے پاک ہوں۔سورہ طٰہٰ میں کہا گیا:
’’(اور) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کی جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ(خود کو گناہوں سے پاک) کیا۔‘‘ (طٰہٰ 7)
یہی مضمون ایک اور آیت میں بیان ہوا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ (الاعلیٰ14)
’’فلاح پاگیا وہ شخص جس نے تزکیہ کیا (پاکیزگی اختیار کی)۔‘‘
اگر انسان نے خود کو گناہوں سے پاک نہیں کیا تو جنت میں نہیں جائے گا بلکہ وہ دوزخ کا مستحق ہوگا ۔یعنی تزکیہ میں ناکامی کا انجام جہنم ہے۔
آخرت میں ایک انسان اگر گناہوں کے ساتھ خدا کے حضور پیش ہو لیکن اس کی نیکیاں برائیوں سے سبقت لے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کے گناہوں کو دور کر کے اسے پاک کر دیتے ہیں اور جنت میں داخلے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے ظاہری و باطنی وجود کو گناہوں سے آلودہ رکھا اور اسی حالت میں آخرت میں اللہ کے حضور پہنچ گئے توان کی آلودگی کو پاک کرنے سے اللہ نے صاف انکار کیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُزَکیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (آل عمران77)
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ بلکہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی گندگی کو دور کرنے کے لیے کئی اہتمام کئے ہیں۔ ایک تو نفس لوامہ جسے ہم ضمیر کہتے ہیںانسان کے اندر رکھ دیا جو گناہ کرنے پر اسے کچوکے لگاتاہے اور احساس دلاتا ہے،دوسرے یہ کہ اللہ نے ہر علاقہ اور دور میںنبیوں کے ذریعہ یہ کام کرایا اور اخیر میں قیامت تک کے لیے اپنے آخری نبی اور اپنی کتاب کے ذریعہ تزکیہ کا زبردست اہتمام کیا۔اس حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (آل عمران164)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان کو پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
یہی مضمون سورہ جمعہ میں بھی بیان ہوا ہے:
’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کے (نفس کو) پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (الجمعہ2)
سورہ توبہ میں اللہ نے اپنے نبی کو تزکیہ کرنے کا حکم دیا :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیہمْ اِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لہُمْ وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیْمٌ (التوبہ103)
’’اے نبی! آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کیجیے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجیے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجیے، پھر ان کے لئے دعا بھی کیجیے۔ بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین کا باعث ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
یہ بھی یاد رکھیے کہ تزکیہ تقریباً تقویٰ کا ہم معنیٰ ہے ۔تقویٰ یہ ہے انسان اللہ کے خوف اور ڈر سے گناہوں سے باز رہے۔تزکیہ یہ ہے کہ انسان خود کو پاک کرلے ۔جس طرح تقویٰ دل میں ہوتا ہے اسی طرح تزکیہ کا مقام بھی دل ہے ۔لباس کی تراش خراش،داڑھی اور ٹوپی کی پیمائش اور ڈیزائن سے نہ تقویٰ کا تعلق ہے نہ تزکیہ کا،بعض لوگ بظاہر بہت خوش لباس ہوتے ہیں ،ان کی داڑھیاں بھی چمک دار ہوتی ہیں ،ان کی باتیں بھی لچھے دار ہوتی ہیں ۔مگر ان کا باطن گندگیوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ایسے نام نہاد متقی اور مزکی لوگوں کے لئے اللہ کا ارشاد ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا (النساء49)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر بھی غور نہیںکیا جو اپنی پاکیزگی نفس کی شیخی بگھارتے ہیں۔ حالانکہ پاک تو اللہ ہی کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ماہ رمضان میں اپنے نفس کے تزکیہ پر بھرپور توجہ دیجیے۔قرآن نے تزکیہ کے تعلق سے جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل کیجیے،اپنے تزکیہ کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کے قلوب کا بھی تزکیہ کیجیے۔نبی اکرم وﷺ تزکیہ نفس کے تعلق سے یہ دعا مانگتے تھے آپ بھی اس دعا کا کثرت سے اہتمام کیجیے۔
اللّٰھم اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ العَجْزِ وَالکَسْلِ وَالجُبْنِ وَالبُخْلِ وَالھَرَمِ وَعَذَابِ القَبْراللّٰھمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَا ھَاوَزَکِّیْھَاانْتَ خیْرُ مَنْ زَکّٰھَاانْتَ وَلِیُّھَاوَمَوْلٰھَااللّٰھم اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْم لاَیَنْفَعُ وَمِنْ قَلْب لاَ یَخْشَعُ وَ مِنْ نَفْس لاَتَشْبَعُ وَ مِنْ دَعْوَۃ لَا یُسْتَجَابُ لَھَا۔(مسلم)
’’اے اللہ میں تجھ سے عاجز ہونے اور سستی اور بزدلی اور بخل اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا کر اور اس کا تزکیہ نصیب فرما کہ تو ہی تزکیہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور تو ہی کار ساز اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع دینے والا نہ ہو اور ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر ہونے والا نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)آمین
Comments are closed.