ملک کو کدھر لے جایا جا رہا ہے؟

 

سہیل انجم

مہذب معاشرے تنگ دل و تنگ نظر نہیں بلکہ فراخ دل اور وسیع النظر ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ایک دوسرے کو انگیز کرنے کا زبردست مادہ ہوتا ہے۔ اس کے باشندے کسی بھی تنقید کو جو کہ تنقیص کے دائرے میں نہ آتی ہو، خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ وہ گڑے مردے اکھاڑ کر نفرت و دشمنی کو ہوا نہیں دیتے۔ بلکہ وہ تاریخی ورثے کو خواہ وہ ان کے ذاتی نظریات و خیالات کے برعکس ہی کیوں نہ ہو، محفوظ رکھتے اور اس سے نصیحت پکڑتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو نفرت کی علامت نہیں بناتے۔ وہ مذہبی تہواروں کو فرقہ واریت سے آلودہ نہیں کرتے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو ملک کے لیے تنزلی کا باعث ہو اور ترقیاتی رفتار کو پیچھے کی طرف لے جانے والا ہو۔ ان میں زبردست حسِ مزاح بھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی فنکار کسی شخص یا ادارے کے بارے میں اہانت کیے بغیر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اپنی بات رکھتا ہے تو اس کی فنکاری کو داد دی جاتی ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم ہندوستان کے موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اتنے شدت پسند اور تنگ نظر کیسے ہو تے جا رہے ہیں۔ آخر وہ گڑے مردے اکھاڑ کر اور معمولی معمولی باتوں پر تشدد برپا کرکے ملک کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں۔ وہی ملک جو کبھی مذہبی رواداری کی مثال تھا مذہبی تنگ نظری کی گرفت میں کیسے آگیا۔ جس ملک میں ایک دوسرے کے مذہبی، لسانی، ثقافتی اور تہذیبی نظریات و خیالات کا احترام کیا جاتا تھا، اس ملک میں اب یہ قدریں معدوم کیوں ہوتی جا رہی ہیں۔ کیوں ایک روادار ملک کو کٹر ملک میں اور ایک ایسے ملک میں جہاں اختلافی نظریات کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو، بدلا جا رہا ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس رجحان پر قدغن لگائیں اور اس قسم کی شدت پسندی کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

مغل حکمراں اورنگزیب کے نام پر جس طرح ایک طبقہ مسلمانوں کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اورنگزیب کی قبر ملک کی سلامتی اور اتحاد و یکجہتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ اورنگزیب کی لڑائی مراٹھا حکمرانوں سے تھی۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کے فرزند سمبھاجی مہاراج کو مغل فوج نے گرفتار کیا تھا۔ جن کا بعد میں قتل کر دیا گیا۔ اس موضوع پر ایک ایسی فلم بنائی جاتی ہے جس میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا اور بے بنیاد باتوں کے حوالے سے معاشرے میں نفرت و کشیدگی کو ہوا دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اورنگزیب کی قبر پر بلڈوزر چلا کر اسے منہدم کر دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس معاملے کو اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ ناگپور میں تشدد پھوٹ پڑتا ہے جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پولیس ایکشن ہوتا ہے۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر کہیں تشدد ہوا ہے تو اس میں جو بھی ملوث ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملک کا ماحول خراب کرے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کارروائی کی زد بے قصوروں پر نہ پڑے۔ صرف انہی لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے جو تشدد کے ذمہ دار ہوں۔ لیکن جس طرح ناگپور میں یکطرفہ کارروائی کی گئی اور ایک مسلمان کو ماسٹر مائنڈ بتا کر گرفتار کیا گیااور اس کا مکان بلڈوز کر دیا گیا اس سے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

ناگپور کے فہیم خان کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے مذہبی جذبات سے کھیلنے والوں کو خبردار کیا تھا اور انتباہ دیا تھا کہ ان اقدامات سے شہر کا امن و امان تباہ ہو جائے گا۔ اگر فہیم خان واقعی قصوروار ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے، غیر منصفانہ نہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نام نہاد بلڈوزر جسٹس کے خلاف سخت احکامات جاری کیے تھے اور حکومت و انتظامیہ کو ہدایت دی تھی کہ بغیرنوٹس دیے کسی کے مکان کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے باقاعدہ ایک گائڈ لائن جاری کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کسی جرم کی پاداش میں مکان کو منہدم کر دینا خلاف قانون ہے۔ لیکن ناگپور میونسپلٹی نے فہیم خان کے مکان کو اسی طرح بلڈوز کر دیا جس طرح اور دوسرے معاملات میں لوگوں کے مکانات گرائے گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہدامی کارروائی کے دوران کارروائی روک دینے کے لیے بامبے ہائی کورٹ کا حکم آگیا اور کارروائی رک گئی۔ لیکن تب تک مکان گر چکا تھا۔ یہ عجیب صورت حال ہے کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں صحیح یا غلط ملزم بنایا جاتا ہے تو اسی وقت انتظامیہ کو اس کے مکان کے غیر قانونی ہونے اور بغیر نقشہ منظور کروائے مکان کی تعمیر کا انکشاف ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں جو کروڑوں اور اربوں مکانات ہیں وہ تمام نقشہ منظور کرانے کے بعد ہی تعمیر کرائے گئے ہیں۔ اگر نہیں اور ایسا بالکل نہیں ہے تو پھر منتخب افراد کے مکانات کو ہی غیر قانونی قرار دے کر کیوںمنہدم کیا جاتا ہے۔ اس معاملے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے ایسی کارروائیوں کے خلاف فیصلہ دینے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ ایسی کارروائیاں توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ لیکن انتظامیہ کے افسران کو اس کی بھی پروا نہیں ہے۔ ادھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی ایسے لوگوں کے آگے بے بس ہے۔ وہ صرف سخت تبصرے کرنے یا احکامات جاری کرنے کے علاوہ کوئی اور قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔ اگر عدالتوں کو اس طرح نظرانداز کرنے اورتوہین عدالت کے جرم کا ارتکاب کرنے کا رویہ عام ہو گیا تو پھر اس ملک میں عدالتوں کے اختیارات اور ان کے وقار و احترام کا خدا حافظ ہے۔

ہم نے کالم کی تمہید میں حسِ مزاح کی بات کی ہے۔ کیا اب ہندوستان سے حس مزاح کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ اب اگر کوئی کسی کے بارے میں طنزیہ و مزاحیہ انداز میں کوئی بات کہتا ہے تو اس کو اہانت قرار دے کر پورے ملک میں طوفان برپا کر دیا جاتا ہے۔ کامیڈین کنال کامرا کا معاملہ تازہ بہ تازہ ہے۔ انھوں نے اپنی ایک پیروڈی میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شنڈے کے سلسلے میں اشاروں کنایوں میں کچھ کہا تو ایک طبقے نے طوفان برپا کر دیا۔ جس اسٹوڈیو میں کامرا نے اپنا شو پیش کیا تھا اس میں توڑ پھوڑ کی گئی اور کامرا کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر کامرا کی پیروڈی خلاف قانون ہے اور کارروائی کے قابل ہے تو ان کے خلاف ضرورکارروائی ہونی چاہیے مگر قانون کے دائرے میں۔ اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ یہاں بھیڑ یا جنگل کا قانون نہیں چلتا۔ لیکن کچھ لوگ ملک میں بھیڑ کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑائے گا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہا تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔

اگر کسی معاشرے میں ثقافتی و تہذیبی رنگا رنگی ہے تو وہ اس معاشرے کی خوبصورتی ہے۔ جس طرح چمن میں مختلف النوع پھول ہوتے ہیں جن میں کوئی خوشبودار ہوتا ہے اور کوئی نہیں۔ کوئی کسی ایک رنگ کا ہوتا ہے تو کوئی دو رنگا اور کوئی رنگا رنگ۔ چمن میں ان تمام پھولوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ دراصل یہ رنگا رنگی ہی چمن کی خوبصورتی کا باعث بنتی ہے۔ اگر کسی باغ میں ایک ہی رنگ کے پھول ہوں تو اسے خوبصورت نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح ہندوستان مختلف النوع عقائد و نظریات کا حامل ملک ہے۔ یہاں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر دس پندرہ کلومیٹر پر لہجہ بدل جاتا ہے۔ کچھ دور اور آگے بڑھیے تو زبان بدل جاتی ہے۔ یہاں بے شمار مذاہب کے پیروکار ہیں جو دوسرے مذاہب میں مداخلت کیے بغیر اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان اپنی اسی خوبی اور خصوصیت کی بنا پر دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ورنہ دنیا میں ایسے بے شمار ملک ہیں جہاں صرف ایک زبان بولی جاتی ہے اور ایک ہی مذہب رائج ہے۔ ان ملکوں میں کوئی تنوع نہیں ملے گا۔ اور ایسے ملکوں میں مذہبی، ثقافتی و لسانی رنگارنگی کی کمی کے باعث جو یکسانیت ہے وہ آنکھوں کو چبھتی ہے۔ لیکن ہندوستان کا مذہبی و ثقافتی تنوع اس کی خوبصورتی اور طرہ امتیاز ہے۔

ہندوستان کا ایک قدیم اور بنیادی فلسفہ ”سرودھرم سمبھاو“ ہے۔ جس کا مطلب ہے تمام مذاہب کا احترام۔ کسی کے ساتھ امتیاز نہیں۔ کسی کے ساتھ بھید بھاو نہیں۔ کسی کو برا بھلا کہنے کی گنجائش ہے۔ کسی کی توہین کرنے کی اجازت نہیں۔ آج بھی ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں توفحریہ انداز میں ہندوستان کی اس معاشرتی خوبی کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں مذہب، زبان، ذات برادری اور تہذیب و ثقافت کے نام پر کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔ جب وہ کسی دوسرے ملک میں ہندوستان کی اس خوبی کو بیان کرتے ہیں تو ہر ہندوستانی کاسر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ لیکن جب اسی ملک کے مٹھی بھر لوگ اس قدیم نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں تو ہر امن پسند شہری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیں اور ان کے خلاف ایسی سخت کارروائی کریں کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔ حکومتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج کے واقعات کل کی تاریخ بنتے ہیں۔ اگر غلط، غیر قانونی اورناپسندیدہ اعمال ہندوستان کی تاریخ بنیں گے تو ذرا سوچیے کہ دنیا کے نقشے پر اس کی کیا تصویر بنے گی اور آنے والی نسلیں موجودہ معاشرے کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رجحان کو لگام لگائی جائے تاکہ ہندوستان کی قدیم روایات ایک بار پھر زندہ ہو سکیں، پوری دنیا میں ہندوستان کا سر اونچا ہو سکے اور وہ واقعتاً وشو گرو بن جائے۔

موبائل:9818195929

Comments are closed.