خود شیشے کے گھر میں بیٹھے پتھر پھینکیں اوروں پر

 

ڈاکٹر سلیم خان

اورنگ زیب کے نام سیاست چمکانے والوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ’بات نکلے گی تو پھر رانا سانگا تلک جائے گی‘ اور پھر ان لوگوں کا کیا ہوگا؟ اب ان کی سمجھ میں آرہا ہے  کہ رانا سانگاکو غدار کہہ کر راجپوتوں سے جوڑنا  اگر ان کو  برا لگتا تو اورنگ زیب کو ظالم و سفاک بتا کر مسلمانوں سے جوڑدینا   کیسا لگتا ہوگا؟آرایس ایس کو اس بات کا اندازہ پہلے ہی  ہوگیا  کہ  وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے  دیویندر فڈنویس کو    اورنگ زیب کی قبر اکھاڑنے کی دھمکی  مہنگی  پڑ سکتی ہے ۔ اس لیے ناگپور فساد کے بعد سنگھ کے ترجمان نے پہلے تو اورنگ زیب کو موجودہ دور میں غیرمتعلقہ کہہ  اس معاملے کو ہلکا کیا اور  پھرنظم و نسق کی معنویت پر زوردیا۔ اس کے بعد  اپنے ایک دانشور سے انڈین ایکسپریس مضمون لکھوا کر پلہ جھاڑنے کی کوشش کی  اور بالآخرسنگھ میں  موہن بھاگوت کے بعد سب سے بڑے رہنما دتاترے ہوسابلے نے فرما دیا کہ اگر اورنگ زیب کے بجائے داراشکوہ کو نمونہ بنایا جائےتو انہیں  اعتراض نہیں ہے۔

بابر کی نسل سے مغل  شہزادہ  داراشکوہ دراصل  اورنگ  زیب کا  مسلمان بھائی تھا ۔ ساورکر اور گولوالکر کے مطابق وہ ہندوستان کو اپنا  فادرِ وطن (پِتربھومی ) نہیں مانتا تھا اس لیے ملیچھ تھا لیکن اورنگ عالمگیر کے تنازع نے آر ایس ایس کے اگلے سر سنگھ چالک ہوسابلے سے ان کے بنیادی  فلسفے کی تردید تو کروادی  لیکن اس وقت تک رانا سانگا   نےمعاملہ بہت آگے بڑھ جا چکا تھا ۔  سماجوادی پارٹی کے معمر رکن  پارلیمان رام جی لال سُمن  نے  ایوانِ بالا  میں جب   کہا کہ مسلمانوں میں  مغلوں  کا ڈی این اے تلاش   کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے  کہ رانا سانگا  نے اسےابراہیم لودھی کو ہرانے کیلئے بابر کو  ہندوستان بلایا تھا۔ اس لحاظ سے اگر مسلمان بابر کی   اولاد ہیں تو ہندو ’’غدار‘‘رانا سانگا کی اولاد ہوئے۔رام جی لال سُمن نے ایک تاریخی حقیقت کے حوالے سے منطقی بات کے ساتھ  یہ بھی کہہ دیا تھا کہ  ہندوستان کے مسلمان اورنگ زیب  کو نہیں بلکہ محمدصاحب (ﷺ) کواپنے لیے  آئیڈیل مانتے ہیں ۔

    بی جے پی  والے رام جی لال سُمن    کی  اس حقیقت بیانی  کو برداشت نہیں کرسکے  اس لیےتلملا اٹھے۔ انہوں  نے  اس بیان کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر  سماجوادی پارٹی کے اس موقف کو ’’ہندو مخالف‘‘ ذہنیت کی عکاسی قراردےدیا اور سوچا کہ لال ٹوپی مدافعت میں آکر معافی تلافی کرنے لگے گی  لیکن یہ اندازہ بھی غلط نکلا۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے رام جی لال کی تائیدمیں کہہ دیا کہ اگر بی جےپی اورنگ زیب پر گفتگو کرسکتی ہے تو ہم بھی تاریخ  کا ایک صفحہ پلٹ سکتے ہیں۔ اس طرح زعفرانی چاروں خانے چت ہوگئے۔ رام جی لال سُمن ایک نہایت سلجھے ہوئے تجربہ کار اور دلیر رکن پارلیمان ہیں ۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ بہت ہی جچا تُلا  ہوتاہے۔  انہوں نے تاریخی حقائق کی روشنی میں  کہا تھا کہ ’’ہندوستانی مسلمان بابر کو اپنا آئیڈیل نہیں مانتے،وہ پیغمبر محمد ؐکی پیروی کرتے ہیں اور صوفی روایات کے امین ہیں مگر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ بابر کویہاں کس نے بلایا؟ وہ رانا سانگا تھا جس نے ابرہیم لودھی کو ہرانے کیلئے بابر کو مدعو کیاتھا۔‘‘ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’اگرمسلمانوں کو بابر کی اولاد کہا جاتا ہے توا س منطق سے ہندو غدار رانا سانگا کی اولاد ہوئے۔‘‘

 سُمن نے زعفرانیوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے  سوال کیا  ’’ہم بابر کو تو ہدفِ  تنقید بناتے ہیں مگر رانا سانگا پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟‘‘ بی جےپی کو جب اس کا کوئی جواب نہیں سوجھا تو وہ  تمام ہندوؤں کی توہین  کا راگ الاپنے لگی ۔ اس موقف کی تائید   میں  اکھلیش یادو نے سوال کردیا کہ  ’’ کیا بی جے پی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کے وقت ان کی پیشانی پر بائیں پیر  کے انگوٹھے سے راج تلک  لگانے کی  مذمت کرےگی؟‘‘ اس طرح مدافعت پر اقدام بھاری پڑ گیا۔بی جے پی نے اکھلیش یادو کی تائید پر مسلمانوں کی ناز برداری  کا گھسا پٹا الزام  تھوپ دیا۔بی جے پی بھلائی اسی میں تھی کہ اس معاملے کو رفع دفع کردیا جاتا لیکن اس کے نادان دوست کرنی سینا نےسماج وادی رام جی لال سمن کی رہائش پر حملہ کرکے ایسا رائتا پھیلایا کہ اب اس کا سمیٹنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس حملے نے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کےتشدد سے متعلق صفر برداشت کے دعویٰ کی دھجیاں اڑا دی ۔

وزیر اعلیٰ  ادیتیہ ناتھ خود  حملے والے  دن  آگرہ میں موجود تھے اس کے باوجود کئی کلومیٹر کا سفر کرکے پولیس رکاوٹوں کو روندتا ہوا کرنی سینا کا لشکر کھلے عام   رام جی لال کے گھر پر پہنچ گیا اورانکاونٹر کی ماہر  پولیس تماشا دیکھتی رہی بلکہ اس کے جوان زخمی ہوے  ۔ سوال یہ ہے کہ پولیس  کے ہاتھوں میں مہندی لگانے کا کام کس نے کیا تھا؟ ان  احتجاجیوں نے رکن پارلیمان کے گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی اور وہاں موجود سماجوادی کارکنان کو دوڑا دوڑا کر مارا۔ وہ لوگ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتے رہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا احتجاج تھا جس میں مظاہرین ایک رکن پارلیمان کا گھر منہدم کرنے کی خاطر دو عدد بلڈوزر اپنے ساتھ لائے تھے۔

کرنی سینا کی حماقت نے بی جے پی کی کمزوری کو ممبئی کےکنال کامرا کی مانند  بے نقاب کردیا ۔  کنال کامرا نے سابق وزیر اعلیٰ اور فی الحال نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے پر طنز کسنے والی جو پیروڈی بنائی ہے اس کو نظر انداز کردیا جاتا تو ملک اور بیرونِ ملک بیشتر لوگوں کو اس  کا علم ہی نہیں ہوتا  لیکن شندے کے احمق شیدائیوں نے سار کھیل بگاڑ دیا۔ اس کے بعد جب گڑے مردے اکھڑنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ اس سے زیادہ خطرناک پیروڈیا ں وزیر اعظم نریندر مودی اور چھوٹا فانٹا یعنی یوگی کے لیے  بھی بنا ئی جا چکی ہے۔ یہ دبے ہوئے حقائق ایکناتھ شندے کے مداحوں کی شر پسندی سے اجاگر ہوگئے ۔   سوال یہ ہے کہ جب بھی  رانا سانگا، ساورکر یا شندے کو غدار کہا جاتا ہے تو ان لوگوں کو اتنی مرچی کیوں لگتی ہے؟  ظاہر ہے یہ ان ہندوتونوازوں کی دُکھتی رگ ہے کہ جو انہیں راہُل گاندھی کے خلاف عدالت میں جانے کے بعد  ثبوت پیش کرنے سے روکنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ ان حقائق کا انکار ممکن نہیں ہے۔

شندے کے ساتھ پنگا نے کنال کامرا کی مقبولیت میں بے شمار اضافہ کیا  اور اس نے اس کا فائدہ اٹھا کر جھکنے کے بجائے دھڑا دھڑ پیروڈیاں بنانی شروع کردی ۔  یہ حسنِ   اتفاق ہے کہ ایک دلیر مسخرے کے ذریعہ مشیت ایزدی نے اقتدار کی کرسی پر فائز نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ   شندے کے غرور کو ملیا میٹ  کردیا۔    کنال کامرا کے معاملے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے اس بلند بانگ دعویٰ کی بھی ہوا نکال دی کہ ناگپور کے اندر  تشدد میں ملوث  لوگ  غیر سماجی عناصر  ہیں ۔ ان میں فہیم خان جیسے چند لوگوں پر ملک سے بغاوت کی دفع  لگائی گئی  ہے۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر بھیج کرتباہ کرنے کے ساتھ  نقصان بھرپائی کی بات کی جارہی ہے لیکن شندے کی حمایت میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کی کھلے عام  پذیرائی ہورہی ہے۔  یہ منو سمرتی کا وہ تفریق و امتیاز ہے جسے بدنامِ زمانہ  پیشوائی نے نافذ کیا تھا ۔  ایک کنال کامرا کو  جونہیں ڈرا سکے تو بھلا  رام جی لال سمن کو کیا ڈرائیں گے؟ 

رام لال جی سمن نے یہ کہنے کے بعد کہ  ’’میرے بیان سے سماج کے کچھ طبقوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ میرے بیان سے لوگوں کے درمیان اس طرح کا پیغام پہنچا، جب کہ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے کافی تکلیف ہوئی ہے، میں تمام ذاتوں، طبقوں اور برداریوں کا مکمل احترام کرتا ہوں۔‘‘ واضح کیا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور کم ازکم اس جنم میں اس پر معافی نہیں مانگیں گے۔اس طرح پھر سے ثابت ہوگیا  معافی مانگنے روایت صرف  ہندوتوانوازوں  کا خاصہ   ہے۔   رام لال جی سومن نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے ۔ ایک انٹرویو میں وہ بولے رانا سانگا کا بابر کو بلانا ایک تاریخی حقیقت ہے اور لوگوں کوسچ سننے کی عادت ڈالنی چاہیے اس لیے معافی تلافی کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے گھر پر حملے کو سرکار کی سرپرستی میں  ایک منصوبہ بند سازش  کہہ کر اسے انتظامیہ  کی ناکامی قرار دیا کیونکہ حملے والے دن وزیر اعلیٰ شہر میں موجود تھے۔ ان سے جب سوال کیا کہ  کرنی سینا نے دوبارہ حملے کی دھمکی دی ہے تو وہ بولے کہ نظم و نسق  قائم رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے لیکن اگر وہ اس کے اہل نہیں ہیں تو بیچ میں سے ہٹ جائیں  ہم خود اپنا انتظام کرلیں گے ۔   اس طرح کی بے خوفی کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بیدم  شاہ وارثی کے کمالِ بے نیازی کی اس تمثیل  میں ہے؎

نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں             نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض

 

Comments are closed.