آو مندر مندر کھیلیں

ڈاکٹر سلیم خان
اتر پردیش کے بارہ بنکی میں دیاشنکر سریواستو، پردیپ جین، سریندر ورما اور راج کمار نے عید کے موقع پر مسلمانوں پر پھول نچھاور کرکے ملک میں فرقہ پرستی کی آگ لگانے والوں کے منہ پر کالک پوت دی اور کہا کہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہندوستانی گلدستے کے پھول ہیں۔ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں دل و جان سے شریک ہوتے ہیں۔ اس سے اخوت اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جے پور شہر میں پھول برسانے والے ہندو بولے ہماری محبت کی یہ علامت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی عید کی مبارکباد دیتے ہوئے لکھا :’ دعا ہے یہ تہوار ہمارے معاشرے میں امید، ہم آہنگی اوررحمدلی کا جذبہ بڑھائے۔ آپ کی تمام کوششوں میں خوشی اور کامیابی ملے‘۔رمضان کی آمد پر بھی انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا تھا :”رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی لائے۔ یہ مقدس مہینہ شکر گزاری اور عقیدت کا مظہر ہے اور ہمیں ہمدردی،غمخواری اور خدمت کے اقدار کی یاد دلاتا ہے۔!”
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ توزبانی جمع خرچ کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ایک زمانے میں یہ پوچھے جانے پر کہ آپ نے عید کی مبارکباد کیوں نہیں دی ؟ انہوں نے کہا تھا میں ہندو ہوں ( یعنی میں کیوں دوں؟ ) مگر اس بار ریاست کے لوگوں کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئےانہوں نے لکھا کہ اس تہوار پر سبھی کو خیر سگالی اور سماجی ہم آہنگی کو مزید مضبوط کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ اپنی اس نصیحت پر اگر وہ خود اور ان کے اندھے بھگت عمل پیرا ہوجائیں تو نہ صرف یوپی بلکہ ملک میں امن و امان ہوجائے ۔سیاسی رہنما اپنے اپدیشوں کا مخاطب خود کو نہیں سمجھتے ورنہ یوگی سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے صدر ایڈوکیٹ ظفر علی گرفتار کرکے ان پر فساد کی سازش رچنےاور تشدد بھڑکانے کا الزام نہیں لگاتے۔ اس کارروائی کے خلاف اتنا غم و غصہ تھا کہ گرفتاری کے بعد وکلا نے نہ صرف سنبھل پولیس کے خلاف نعرے لگائے ہوئے بلکہ غصے سے گاڑی کا پیچھا بھی کیا۔
عید کے موقع پر مہاراشٹرمیں بیڈ ضلع کی ایک مسجد میں دھماکہ بھی ہوگیا ۔ تحصیل گیورائی کے اردھا مسالہ گاؤں کی ایک مسجد میں ایک دن قبل صبح 2:30 بجے ہونے والے دھماکے نے مسجد کے اندرونی حصے کو نقصان پہنچایا ۔ اس معاملے میں گرفتار ملزمین وجے راما گاوہانے (22) اور شری رام اشوک ساگڑے (24) کے حوصلے اس قدر بلند تھے کہ ان لوگوں نے دھماکےکی ویڈیو بناکر ازخود انسٹا گرام پر ڈالی ۔ انہیں یقین تھا ’سردار خوش ہوگا ، ساباسی (شاباسی) دے گا‘ لیکن وہ اندازہ غلط نکل گیا ۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اس باریہ نہیں کہا کہ ہم مجرموں کو قبر سے نکال لیں گے بلکہ صرف یہ بولے ، "ہمیں واقعہ کی اطلاع ملی ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟‘‘ انہیں ملزمین کے نام ظاہر کرنے میں شرم آئی تو یہ کام متعلقہ پولیس سپرنٹنڈنٹ کو سونپ دیا۔ اس سانحے کا روشن پہلو یہ ہے کہ گاؤں کے تمام برادریوں نے مل کر مسجد کے نقصان بھرپائی کی ذمہ داری لیتےہوئے کہا کہ اس گاؤں کی ہم آہنگی کو کوئی نہیں بگاڑ سکتا۔
سوال یہ ہے کہ وجے راما اور شری رام اشوک نے یہ شنیع حرکت کیوں کی؟ صرف سنگھ اور میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرا دینا کافی نہیں ہے۔ اس سوال کا جزوی جواب جے پور کے سانگنیر علاقے میں ویر تیجاجی مندر میں مورتی توڑنے والے ملزم کے اعتراف میں پوشیدہ ہے ۔ بیکانیر کا سدھارتھ سنگھ راجہ پارک میں ‘تماس کیفے’ نامی ریستوران چلاتا ہے، جو کچھ عرصے سے بھاری خسارے کے سبب بند ہونے کے دہانے پر تھا۔ واردات کی رات ملزم نے اپنے دوست کےساتھ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں شراب نوشی کی۔ واپسی کے دوران اس نے نشے کی حالت میں ایک مندر کے سامنے گاڑی روکی۔ وہاں کتوں کو کھانا کھلانے کے بعد مندر میں گیااور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی وجہ سے ویر تیجا جی کی مورتی توڑ دی۔ اس کے بعدسدھارتھ نے اپنی منگیتر کو واقعے سے آگاہ کرکے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ مہنگائی ، بیروزگاری اور مندی کے سبب ملک کے بے شمار نوجوان مالی مشکلات اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں ۔ موجودہ دور کے سیاستدانوں کو خوف ہے کہ وہ اپنا غم و غصہ سرکار پر نہ نکالیں اس لیے انہیں مسلمانوں سے نفرت کی شراب پلاکر مدہوش کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ کبھی بیڑ کی مسجد میں جاکر دھماکہ کردیتے ہیں یا کسی مندر کی مورتی توڑ دیتے ہیں۔
جموں کے مضافات میں کچھ سال قبل ایک مندر کے اندر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کرنے والےارجن شرما کو گرفتار کیا گیا تو اس نے پولیس افسر برجیش شرما کو بتایا کہ اس نے وہاں کالا جادو کئے جانے سے پریشان ہوکر یہ کیا۔ ارجن شرما کے مطابق مندر میں کالا جادو کرنے سے ناراض ہوکر وہ ’نمبردار‘ اور گاؤں کے دیگر بااثر لوگوں سے شکایت کرنے گیا مگر کسی نے توجہ نہیں دی تو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ عوام کے اندر ناراضی و بے چینی کے پیچھے سماجی اسباب بھی ہوتے ہیں مثلاًمدھیہ پردیش میں ساگر ضلع کے گورجھامر کے ڈاکٹر اتم سنگھ لودھی نے عدالتِ عالیہ میں گہار لگائی کہ وہاں شری دیو دتاتریہ کا مندر عوامی ٹرسٹ کی زمین پر بنایا گیا مگردرشن اور پوجا کرنے کی اجازت ہے صرف برہمنوں کو ہے۔ دوسری ذاتوں کے لوگوں کو داخلے کیاجازت نہیں ہے۔ سابق مہنت اور مندر کے ٹرسٹی کا بیٹاگولو شینڈے مندر پر قبضہ ہے ۔ اس کادعوی ٰ ہے کہ دیو دتاتریہ برہمنوں کے دیوتا ہیں، اس لیے صرف برہمن ہی پوجا اور درشن کے لیے جا سکتے ہیں۔
ماضی میں اس تفریق و امتیاز کے خلاف احتجاج ہوچکا ہے مگراس بار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اس نے شکایت کو خارج کرکے شکایت کنندہ کو ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا مشورہ دے دیا۔ عدالت کی اس سردمہری سے تنگ آکر اتم سنگھ لودھی جیسا کوئی شخص سدھارتھ یا ارجن شرما جیسی حرکت کردے تو کون قصوروار ہوگا ؟ اس کو ایسا کرنے سے روکنے کاسب سے اچھا طریقہ بیڑ جیسی کسی مسجد میں دھماکے کے لیے بھیج دینا ہے۔ پچھلے دنوں معروف اداکارہ اور رکن پارلیمان ہیما مالنی کے خلاف بھونیشور میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی شکایت درج کرائی گئی کیونکہ وہ بی جے پی ترجمان اور رکن پارلیمان سمبت پاتراکے ساتھ جگناتھ مندر میں درشن کی خاطرگئی تھیں۔ اس پر جگناتھ سینا نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی کہ ہیما مالنی نے مذہبی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ مقامی تنظیم کا الزام ہے کہ ہیما مالنی کے شوہر دھرمیندر نے ان سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا تھا اور وہ نکاہ مسلم رسم و رواج کے مطابق ہوا تھا۔ اس لیے ان کے مندر میں داخل ہونے سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
بیچاری ہیما ملنی کے کمبھ میں نہانے سے بھی پاپ نہیں دھلے۔ دھرمیندر کے پہلی بیوی پرکاش کور سے 4 بچے ہیں۔ ہندو قانون ایکٹ 1955 کے تحت چونکہ دھرمیندر کو ہیما مالنی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے انہوں اپنا نام بدل کر دلاور خان اور ہیما مالنی نے اپنا نام عائشہ بی بی رکھ لیا تھا ۔ اڑیشہ میں فی الحال ڈبل انجن سرکار ہے اس لیے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ ہندووں کی اس دلآزاری پر کیسے مرہم رکھتی ہے؟ بی جے پی اگر 400 پار چلی گئی ہوتی تو 2کی کمی سے فرق نہیں پڑتا لیکن 239 میں یہ مشکل ہے۔ ہیمامالنی پر تو خیر سنگین الزام ہے مگر کنہیا کمار تو اعلیٰ ذات کے بھومی ہار ہیں۔ انہوں نے اپنی بہار یاترا کے دوران سہرسہ ضلع کے بنگاؤں گاؤں میں بھگوتی استھان مندر کے اندر عوام سے خطاب کیا۔ گاوں والوں نے ان کا خیرمقدم کرکے روایتی پگڑی اور مالا بھی پہنا ئی ۔ تاہم ان کےجانے کے بعد نگر پنچایت، بنگاؤں کے وارڈ کونسلر امت چودھری کی ہدایت پر مندر کو ’’گنگا جل‘‘ سے دھونے کے بعد یہ جواز پیش کیا گیا کہ ’’ہم کنہیا کے ملک مخالف بیانات کو نہیں بھولے ہیں۔
بدمعاشوں کے مطابق کنہیا کا گناہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ انہوں نے جے این یو میں ملک کے خلاف متنازعہ بیان دیا تھا۔ ہم اسے کیسے معاف کر سکتے ہیں؟‘‘ اس پر کانگریس نے بی جے پی کو’’اچھوت‘‘ کے نظریہ فروغ دینے والی پارٹی بتایا ۔ بی جے پی نےاس واقعے کو لوگوں کی طرف سے کنہیار کمار کی سیاست کو رد کیے جانے کی علامت قرار دے کر جائز کردیا۔ اس سانحہ پرکانگریس کےراجیش کمار نے کہا، "ہمارا ملک ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکرکے آئین سے چلتا ہے ۔ اس میں مذہبی آزادی بنیادی حق ہے۔ کوئی بھی شخص مندر، مسجد، گرودوارہ یا چرچ میں جا سکتا ہے۔”انہوں نے کہا "کبھی مندر میں دلتوں کا جانا منع تھا، مگر اب تو پرشورام سماج کے لوگوں کو بھی روکا جا رہا ہے۔ یہ عوام کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ملک کس سمت جا رہا ہے؟”یہ اہم سوال ہے لیکن اس پر غور کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسی لیے کبھی مسجد میں دھماکہ ہوتا ہے اور کبھی مندر میں مورتیاں ٹوٹتی ہیں۔
Comments are closed.