عید پر فساد کرانے کی سازش ناکام

پسِ آئینہ: سہیل انجم
عید الفطر کے موقع پر تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے پر ہندوستانی مسلمانوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ورنہ شرپسند عناصر نے فساد کرانے اور عید کی خوشیوں کو خاک و خون میں لت پت کرنے کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ بعض پولیس افسران نے بھی اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے اقدامات و احکامات بھی بظاہر اسی مقصد کے لیے تھے۔ ان احکامات پر آگے چل کر بات کریں گے۔ آئیے پہلے چند واقعات پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے اردھ ماسلہ گاوں میں عید سے قبل کے ہفتے میں سید بادشاہ کا عرس چل رہا تھا۔ ہفتے کو اس کا صندلی جلوس نکلا جس میں لوگوں نے بلا تفریقِ مذہب شرکت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ جلوس کے دوران دو غیر مسلم افراد کا کسی سے تنازع ہو گیا۔ جس پر انھوں نے منافرت آمیز گفتگو کی اور درگاہ کے قریب واقع مکہ مسجد کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی۔ اسی رات میں تقریباً ڈھائی بجے مسجد میں دھماکہ ہوا۔ جب دھماکے کی آواز سن کر مسلمان مسجد میں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ مسجد کے فرش، دیواروں، صفوں، کھڑکیوں اور پنکھوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں وجے راما گوہانے اور سری رام اشوک ساگڑے کو گرفتار کیا گیا۔ دھماکے کی جگہ پر جلیٹن کی چھڑیاں پائی گئیں۔ پولیس کے مطابق وجے نے اپنے انسٹا گرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ جلیٹن کی چھڑیاں لیے ہوئے ہے۔ مسجد میں پہنچنے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے وجے راما کو بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ ملزم کا گھر مسجد کے پاس ہی ہے اور اس کو تمام لوگ جانتے ہیں۔ پولیس کے بیان کے مطابق وہ نشے میں تھا۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اسے نشے میں ہونے کی بات اسے بچانے کے لیے کہی جا رہی ہو۔ تاہم پولیس نے بھی جلوس کے دوران ملزموں کی جانب سے قابل اعتراض باتیں کیے جانے کی تصدیق کی۔ عام طور پر ایسے واقعات میں باہری لوگوں کے ملوث ہونے کی بات کہی جاتی رہی ہے لیکن مذکورہ واقعے میں مسجد کا پڑوسی ہی ملوث پایا گیا جو کہ نفرت انگیز خیالات سے ایک بڑے طبقے کے متاثر ہونے کی نشانی ہے۔
قبل ازیں جے پور کے پرتاپ نگر میں ایک مندر میں ویر تیجا جی مہاراج کی مورتی توڑی گئی جس کے خلاف ہندو تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور قابل اعتراض نعرے لگائے۔ انھوں نے ایک قریبی پیٹرول پمپ پر حملہ کیا اور پولیس رکاوٹوں کو نقصان پہنچایا۔ احتجاج کی وجہ سے مقامی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گئی۔ پولیس نے کم از کم بیس افراد کو حراست میں لے لیا جن سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ گرفتار شدگان میں دونوں فرقوں کے لوگ ہیں یا ایک ہی فرقہ کے۔ اس معاملے میں راجہ پارک کے ایک شخص سدھارتھ سنگھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ریسٹورینٹ چلاتا ہے اور مالی دشواریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ واردات سے قبل اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پی۔ پھر وہ مندر میں گیا جہاں اس نے ریکارڈنگ کی اور اپنی مالی دشواریوں کے لیے بھگوان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ گویا یہاں بھی معاملے کو ہلکا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اتوار کی رات میں کوشامبی کے بھون سری گاوں میں واقع ایک مندر میں شیو لنگ اور نندی کی مورتی توڑ دی گئی اور آس پاس کے مواضعات کے شیو مندروں کے ترشول اکھاڑ کر پھینک دیے گئے۔ پیر کی صبح کو جب یہ خبر عام ہوئی تو علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس نے دوسری مورتی نصب کرکے معاملے کو ٹھنڈا کیا۔ اس معاملے میں ایک نوجوان کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ البتہ پولیس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ ذہنی مریض ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی مسلمان نہیں ہوگا۔ ورنہ اس کو ذہنی مریض بتا کر بچانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس سے قبل اٹھارہ مارچ کو جلیسر ضلع ایٹہ میں بھی شیو لنگ توڑا گیا جس کے خلاف وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں نے احتجاج کیا۔ جبکہ مارچ ہی میں رائے بریلی میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا۔ یہ سارے واقعات عید سے عین قبل پیش آئے۔ قبل ازیں جنوری میں اناو ضلع کے تاریخی بالیشور مہادیو مندر میں بھی شیو لنگ توڑا گیا تھا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو مندروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کافی مماثلت پائی جا رہی ہے۔ جس سے بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان واقعات کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو مسلمانوں کو ان کا ذمہ دار قرار دینا اور دوسرے ان کی آڑ میں ماحول کو خراب کرانا۔ بہرحال ہمیں نہیں معلوم کہ ان واقعات کے ذمہ دار کون لوگ ہیں۔ لیکن جو بھی ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس قسم کے واقعات کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر گائے کے گوشت کی برآمدگی کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔ ایسے ہی ایک معاملے میں ایک ہندو تنظیم کا ایک شخص گرفتار کیا گیا ہے جس نے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر گوشت رکھنے اور ایک دوسرے مسلمان کو پھنسانے کی کوشش کی تھی۔
جہاں تک عید سے متعلق معاملات کی بات ہے تو اس موقع پر پولیس کی جانب سے جو احکامات صادر کیے گئے ان سے قارئین واقف ہیں۔ میرٹھ پولیس کی جانب سے جو احکامات جاری کیے گئے وہ اپنی نوعیت کے انوکھے رہے۔ اس نے سڑکوں پر نمازِ عید الفطر ادا کرنے پر پابندی عاید کر دی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ سڑکوں پر نماز ادا کرتے ہوئے پائے جائیں گے ان کے پاسپورٹ اور لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔ جبکہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ سنبھل میں تو چھتوں پر نماز ادا کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ادھر ہریانہ حکومت نے عید کی تعطیل منسوخ کر دی۔ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یوپی کے محکمہ بجلی نے بھی عید کی چھٹی رد کر دی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے ان احکامات کی مذمت کی جا رہی ہے ۔ ادھر عید کے روز مرادآباد میں ایک بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس وقت لوگوں میں شدید غصہ پیدا ہو گیا جب پولیس نے یہ کہتے ہوئے ان کو عیدگاہ میں جانے سے روکا کہ وہاں جگہ نہیں ہے۔ لیکن بہرحال لوگوں کو سمجھا بجھا کر معاملے کو ٹھنڈا کیا گیا اور عید گاہ میں دو جماعتیں کی گئیں۔ عیدگاہ میں جانے سے روکے جانے والوں کا الزام ہے کہ عیدگاہ میں کافی جگہ ہونے کے باوجود پولیس نے روکا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یقیناً یہ پولیس کی یکطرفہ کارروائی تھی۔ اور اگر واقعی عیدگاہ بھر گئی تھی تو پھر پولیس کا قدم غلط نہیں تھا۔ کیونکہ وہ انتظامیہ کے اس حکم پر عمل درآمد کی کوشش کر رہی تھی کہ سڑکوں پر نماز نہ پڑھی جائے۔ ویسے یہ بہت اچھی بات رہی کہ کہیں بھی مسلمانوں نے سڑک پر نماز پڑھنے کی ضد نہیں کی۔ جس کی وجہ سے شرپسندوں کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔البتہ بعض مقامات پر مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ بظاہر کہیں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ بعض مقامات پر برادرانِ وطن کی جانب سے عیدگاہ جاتے ہوئے مسلمانوں پر پھول برسائے گئے۔ امن پسند برادران وطن کی جانب سے پولیس احکامات کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا سڑک پر صرف نماز ہی ادا کی جاتی ہے کسی دوسرے مذہب کی تقریب نہیں ہوتی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت کم مذہبی تقریبات سڑکوں پر ہوتی ہیں۔ جبکہ برادران وطن کی جانے کتنی مذہبی تقریبات سڑکوں پر ادا ہوتی ہیں اور پورے پورے دن سڑکیں جام رہتی ہیں۔ لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی۔ مقام افسوس ہے کہ مرکز میں بیٹھے حکمرانوں یا بی جے پی کے اعلیٰ رہنماوں کی جانب سے مذہبی تعصب کی علامت بنے ان غیر آئینی احکامات کے خلاف نہ تو کوئی بیان دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔
موبائل: 9818195929
Comments are closed.