یوگی، ہندوستان کی نیا ڈبودیں گے!!!

ڈاکٹر سیدفاضل حسین پرویز
9395381226
وقف بل پارلیمنٹ میں توقع کے مطابق منظور ہو گیا۔ مسلمان ایک بار پھر ہار گیا اس کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتیں ہارنے والی جنگ لڑ رہی تھیں سو ہار گئی، اب بے بس کمزور مفاد پرستوں پر مشتمل ملت کی ترجمانی کا دعوی کرنے والی غیر سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گی۔ دو تین سال بعد وہاں اسی طرح انہیں رسوائی ہو گی جس طرح سے بابری مسجد کے مقدمے میں ہوئی تھی۔ اب کسی بھی ایوان انصاف کے در پردستک دینا خود کو اور ملت کو جھوٹی تسلی دینا ہے، کیونکہ جمہوریت کے چاروں ستون ذعفرانی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی حریف جماعتوں کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اتنی اکثریت ہے کہ وہ اب با با امبیڈکر کے تدوین کیے گئے دستور ہند کو بدل سکتے ہیں۔ ویسے دستور ہند صرف کاغذ ی صفحے پر رہ گیا ہے عمل تو وہی کیا جا رہا ہے جو ایک ہندو راشٹرا میں کیا جا سکتا ہے۔
بال گنگا دھرتلک، سوامی وویکا نند، ساورکر اور گوولکر نے بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا، جسے واجپائی،اڈوانی مرلی منوہر جوشی نے حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی اور مودی،یوگی، امیت شاہ توقع ہیکہ اس خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن سنگھ، آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا، ہندو واہنی، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد نے شدت کے ساتھ ہندو راشٹرا کے لیے تحریک چلائی جبکہ سیکولرزم کا نقاب اوڑھے، کانگریس اور دوسری سیکولرجماعتوں نے ڈھکے چھپے طریقے سے ان کی مدد کی۔ بیشتر سیکولر سیاست دان اوپرسے کھدر اور اندر سے خاکی نیکر میں ہوا کرتے ہیں۔ ہر دور میں بعض نام نہاد مسلم قائدین اور جماعتیں اپنے سیاسی اقتدار اور مالی مفادات کی خاطر غیر محسوس طریقے سے مسلم دشمن جماعتوں کو تقویت پہنچاتی رہیں۔ آزادی کے 78برس بعد ہندوستانی مسلمان اپنا جائزہ لیتا ہے تو وہ خود کو اکیلا اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ بیس تا پچیس کے آبادی کے باوجود اپنی بے وزنی پر اس کا دل روتا ہے، اپنی حالت زار کے لیے وہ کس کو الزام دے اسے سمجھ میں نہیں آتا۔وہ ہندوستانی مسلمان جن کی عمر پچاس سے زاید ہے انہیں اپنی نہیں بلکہ نئی نسل مستقبل کی فکر ہے۔اعلی تعلیم اور روزگار کے بہانے ہزاروں خاندان مغربی ممالک کو ہجرت کر چکے ہیں مگر گزشتہ بیس پچیس برس کے دوران ایک عالمی تحریک کے تحت ان مغربی ممالک میں بھی ان کا مستقبل محفوط نہیں ہے، مذہبی تعصب امتیاز اور دشمنی کے وہاں بھی شکار ہیں۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں جن کی ترقی میں ہندوستانی تارکین وطن نے اہم رول ادا کیا۔ اس سے ان کی معیشت بہتر ضرور ہوئی ساتھ ہی انہوں نے اپنے ملک کی معیشت کو بھی مستحکم کیا۔ ان مسلم ممالک سے ہندوتارکین وطن نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں بلکہ انہیں ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ مسلم ممالک میں ہندؤں کے مذہبی رواداری کا ثبوت یہ ہیکہ سعودی عرب میں ہندو آبادی کا 1.1%حصہ ہیں، اور اگلے 25برس میں 1.6%ہوجائیں گے۔ کویت میں ساڑھے آٹھ لاکھ، قطر میں ساڑھے چار لاکھ، بحرین، یمن، عمان، یو اے ای میں بھی آبادی قابلِ لحاظ ہے۔ ابو ظہبی، دوبئی میں باقاعدہ منادر تعمیر ہوچکی ہیں۔ جسے مودی حکومت اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ بلکہ مندر کے افتتاحی تقریب میں ابو ظہبی کے شاہی خاندان کے افراد شرکت بھی کی اور رسومات میں حصہ بھی لیا۔ عرب ممالک میں وزیر اعظم نریندر مودی کو باوقار سیویلین ایواڈز سے نوازا گیا۔ خود سعودی عرب سربراہوں سے اس گرمجوشی سے ملتے ہیں گویا پچھڑے بھائی برسوں بعد ملے ہوں۔ ان کا یہ کردار دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ ان کی قیادت والے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ مساجد کی بنیادیں کھودکر مندر تلاش کیے جارہے ہیں، مساجد اور آستانوں کے احاطہ میں ہنومان چالسیہ پڑھا جارہا ہے، گنبدوں اور میناروں پر بھگوا جھنڈے لگائے جارہے ہیں، مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں، مودی جی کچھ بولتے نہیں، انہیں بولنے کی ضرورت بھی نہیں کیوں کہ جو کچھ بولنا او رزہر اگلنا ہے وہ یوگی آدتیہ ناتھ کررہے ہیں وہ مودی کے جانشین بننا چاہتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ اس ملک کا اقتدار مسلم دشمنی پر ہی مل سکتا ہے چنانچہ آج اترپردیش مسلم دشمنی کا سب سے بڑا ماڈل بن گیا ہے۔ متھرا کاشی کا ٹارگٹ انہوں نے انتہا پسندوں کو دے دیا ہے، آگرہ کی پہچان اب تاج محل کی بجائے کسی مندر کے حوالے سے ہوگی۔ یوگی بھول گئے کہ آگرہ پاگل خانہ کے لئے بھی مشہور ہے۔ اترپردیش کے مختلف علاقوں میں فسادات کے نام پر مسلمانوں کے گھروں، دکانات کو بلڈوزر اور آگ کے حوالے کیا گیا۔ پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ انصاف اس طرح کیا گیا کہ ان ہی کے ارکان خاندان کے خلاف مقدمہ دائر کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ کثیر مسلم آبادی والے حلقہ سنبھل کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ کردی گئی۔ سڑکوں اور اپنے گھر کی چھت پر نماز پر پابندی، فلسطین کا پرچم لہرانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ حد تو یہ ہیکہ آدتیہ ناتھ نے علی الاعلان اسرائیلی فوج کی تعریف کی جو فلسطینیوں کو ہلاک کررہے ہیں، اس سے زیادہ مسلم دشمنی کی کیا مثال ہوسکتی ہے۔
یوگی مسلم دشمنی کے روگی بن گئے ہیں، اور یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے اقدامات کو تنگ نظر، انتہا پسند پسند کریں گے اور ان کی واہ واہ ہوگی، مگر آج جس دور میں وہ جی رہے ہیں وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کی بدولت عالمی گاؤں بن چکی ہے، ان کا ہر ایک عمل ہر ایک لفظ ریکارڈ ہورہا ہے اور وہ بین الاقوامی سطح پر مسلم دشمنی کے لئے مشہور ہوگئے ہیں۔ بھلے ہی انہیں مزید بڑا منصب مل جائے، مگر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہندوستان کو عالمی سطح پر بہت زیادہ نقصان ہونے والا ہے۔ جس دن مسلم ممالک کے سربراہوں کی سوئی ہوئی غیرت اور ملی حمیت جاگ جائے گی اس دن یوگی کی وجہ سے ہمارے مہابھارت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہندوستانی مسلمان بھلے ہی اپنے وطن میں ہر ظلم سہہ لے گا، مگر وہ مسلمان اور انسانیت پسند غیر مسلم جو مغربی اور مشرقی ممالک میں ہیں، وہ یوگی کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں گھسیٹ سکتے ہیں۔ گجرات کے فسادات کے بعد مسٹر نریندر مودی کو ویزا جاری نہ کرنے کیلئے لندن اور امریکہ میں کامیاب تحریک چلائی گئی تھی۔ یوگی بیرونی ممالک کے دورے نہیں کرتے مگر وہ اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کررہے ہیں تو انہیں آگے چل کر ہر قسم کی مخالفتوں اور عالمی نفرت کا سامنا کرنا ہوگا۔
فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف ان کے الفاظ، اسرائیلی فوج کی تعریف سے ان کی گھٹیا سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان کی یہی ذہنیت سے ہندوستان کی مسلم ممالک میں امیج کو متاثر کرے گی۔
کہا جاتا ہے کہ یوگی کو یوپی کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لئے یہ فیصلہ ہوچکا ہے، انہیں مرکزی وزارت میں شامل کیا جاسکتا ہے یا پھر بی جے پی کی صدارت پر فائز کیا جاسکتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں وہ پہلے کی طرح آزاد نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم کے عہدہ پر انہیں فائز کرنا، ہندوستان کو عالمی برادری میں رسوا کرنا ہے، اس لئے بی جے پی اور آر ایس ایس کبھی نہ چاہے گی کہ ایسا ہو، ایسا یوگی کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کے اقتدار کے سورج کو گہن لگنے والا ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اگلے سال جب وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لئے عمر کے اعتبار سے اہل نہ ہونگے تو ملک کا صدر بنادیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دستور میں تبدیلی لاکر ہندوستان میں صدارتی طرز حکومت کو قائم کیا جائے گا۔ یہ محض قیاس آرائیاں ہیں، ویسے 75برس میں شیر بھی میاؤں میاؤں کرنے لگتا ہے۔
مودی کی جانشینی کے لئے امیت شاہ بھی تو امیدوار ہیں، یوگی اور امیت شاہ کے درمیان سے کوئی تیسرا امیدوار بھی آر ایس ایس کے آشیرواد سے وزارتِ عظمی کی کرسی پر فائز ہوسکتا ہے۔ جو بھی ہو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہندوستان، بی جے پی کی کوششوں سے ہندوراشٹر بھی بن جائے تو وہ عالمی برادری میں تنہا رہ جائے گا۔ ہندوستان کی اہمیت قدر وقیمت اس کے سیکولر کردار کی بدولت ہے۔ آج ہندو انتہا پسند مسلمانوں کا ہر شعبہ حیات میں بائیکاٹ کررہے ہیں، ان سے لین دین نہیں کیا جارہا ہے، ان کے تجارتی اداروں کے خلاف پروپگنڈہ کیاجارہا ہے، حتیٰ کہ ”ہمدرد“ اور روح افزا کے خلاف بھی مہم چلائی جارہی ہے۔اللہ نہ کرے کہ کل ہمارے ملک کا تجارتی اور معاشی بائیکاٹ کیا جائے۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی، تعصب ان پر مظالم کو دیکھتے ہوئے مسلم ممالک غیر مسلم تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج دیں، اگر ایسا ہوا تو ہمارا معاشی نظام کمزور ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہوگا۔
مسلم دشمنی میں اندھے کٹر ہندو انتہا پسند سیاست داں اور ان میں سرفہرست ہونگے۔؟؟؟
Comments are closed.