وقف پر حملہ: کیا ہم غلامی کے دروازے خود کھول رہے ہیں؟

غلام جیلانی قمرؔ
خیرا، بانکا (بہار)
وقف ترمیمی بل، جو ہماری دینی شناخت پر ایک سنگین حملہ ہے، لوک سبھا میں پاس ہو چکا ہے۔ 288 ووٹ حق میں، 232 مخالفت میں پڑے! جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ملت کی بنیادوں پر وار کیا جا چکا، مگر کیا ملتِ اسلامیہ ہندیہ کو اس فیصلے کی تباہ کن جہتوں کا ادراک ہے؟
وقف جائیدادیں محض زمین کے بے جان ٹکڑے نہیں، بلکہ ہمارے آبا واجداد کی مقدس امانتیں ہیں، جو نسل در نسل مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی اور فلاحی مقاصد کے لیے وقف کی گئی تھیں۔ مساجد، مدارس، یتیم خانے، خانقاہیں اور رفاہی ادارے انہی اوقاف کا ثمر ہیں۔ مگر اس ترمیم کے ذریعے انہیں حکومتی اختیار میں دے کر ان پر مکمل تسلط کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ یہ محض ایک قانونی ترمیم نہیں، بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی شناخت کو مٹانے کی ایک خطرناک سازش ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ہماری بے حسی اور خاموشی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہو۔ یاد کیجیے، تین طلاق بل کیسے پاس ہوا تھا— پہلے میڈیا کے ذریعے اس کے خلاف نفرت انگیز ماحول تیار کیا گیا، پھر عدالتوں میں سوالات اٹھائے گئے، اور آخر میں ایک ایسا قانون بنا دیا گیا جو مسلم پرسنل لا میں کھلی مداخلت تھا۔ آج وہی گھناؤنا طریقہ وقف جائیدادوں کے تناظر میں دہرایا جا رہا ہے۔
یہ صرف زمینوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ ملت کے مستقبل کا سوال ہے۔ وہی اوقاف، جو ہماری دینی میراث ہے، اب اقتدار کے حریصوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ وہی جائیدادیں، جن پر ہمارے تعلیمی اور مذہبی ادارے قائم ہیں، ریاستی قبضے کی زد میں ہیں، اور ہم غفلت کی چادر تانے سو رہے ہیں۔
اس بل کے نفاذ کا مطلب یہ ہوگا کہ وقف بورڈ محض ایک نمائشی ادارہ بن کر رہ جائے گا، اور حکومت جب چاہے کسی بھی جائیداد کو اپنے کنٹرول میں لے سکے گی۔ پہلے ہی کئی ریاستوں میں وقف کی زمینیں غاصبانہ قبضے کا شکار ہو چکی ہیں، اور اگر یہ بل قانون بن گیا تو ان ناجائز تسلط کو قانونی جواز فراہم ہو جائے گا۔
کبھی مدارس نشانے پر ہوتے ہیں، کبھی مساجد، کبھی علماء کی زبان بندی کی جاتی ہے، اور اب اوقاف کو ہڑپنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ کیا ہم مزید خاموشی اختیار کریں گے؟ کیا ہم اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب ہماری آخری نشانی بھی ہم سے چھین لی جائے؟
اس بحران کا سب سے افسوسناک پہلو ہماری اپنی بے حسی اور تساہل ہے۔ جب تین طلاق بل پاس ہو رہا تھا، ہم بے بس تھے۔ جب این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج ہوا، ریاستی جبر نے اسے کچل دیا۔ اور آج ایک اور آزمائش ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اور ہم بدستور بے حس کھڑے ہیں۔
یہ وقت خواب غفلت سے بیدار ہونے، ظلم کے خلاف صف بندی کرنے اور حق کی سربلندی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا ہے۔ خاموشی اب صرف بے بسی نہیں، بلکہ ظالم کی حمایت کے مترادف ہے۔لبوں کو جنبش دینا ہوگا، حق کی گونج کو فلک تک پہنچانا ہوگا، اور ضمیروں کو جھنجھوڑنا ہوگا۔ ہمیں قانونی اور جمہوری محاذ پر مزاحمت کا علم بلند کرنا ہوگا، عدالتوں میں حق کی جنگ لڑنی ہوگی، عوام میں شعور کی شمع روشن کرنی ہوگی، اور سیاسی و سماجی سطح پر ایسا دباؤ پیدا کرنا ہوگا کہ ظالم کے قدم ڈگمگا جائیں، جبر کے ایوان لرز اٹھیں، اور عدل و انصاف کا پرچم سربلند ہو جائے۔ کیونکہ تاریخ خاموشی کے جرم کو کبھی معاف نہیں کرتی، اور حق کے لیے اٹھنے والی آوازیں ہی ظلم کے ایوانوں کو مسمار کرتی ہیں۔
یاد رکھیے! خاموش قومیں صرف اپنی میراث نہیں گنواتیں بلکہ اپنی شناخت، اپنی خودمختاری اور اپنی نسلوں کا مستقبل بھی گروی رکھ دیتی ہیں۔
مولیٰ کریم ہمیں بے حسی کے اندھیروں سے نکالے، ہماری غیرت کو بیدار کرے، ہمیں اپنی وراثت کی حفاظت کا شعور دے اور وہ ہمت عطا کرے جو تاریخ کے دھارے کو موڑ سکے۔

Comments are closed.