ظریفانہ: ٹرمپ کا ٹیرف اور وقف کا بل ، یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

ڈاکٹر سلیم خان
للن سورتی نے کلن بنارسی سے کہا یار کمال ہے اُدھر ٹرمپ بھارت پر ٹیرف لگا رہا تھا تو اِدھر ہم ایوان پارلیمان میں وقف بل پر بحث کررہے تھے ۔
کلن بولا جی ہاں اس موقع پر تمام ارکان پارلیمان کو سرجوڑ کر اس عظیم مصیبت کا مقابلہ کرنے کی خاطر حکمت وملی پر غورکرنا چایئے تھا ۔
اس کا اثر تو پورے ملک پر پڑے گا لیکن اس کو چھوڑ کر ہماری سرکار وقف کے ذریعہ مسلمانوں کی خیر خواہی پر اتر آئی ۔ تعجب ہے۔
کلن بولا یار مجھے تو مسلمانوں کی خیرخواہی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہمیں ووٹ تھوڑی نا دیتے ہیں ۔
ارے بھائی ہندو تو بھر بھر کے ووٹ دیتے ہیں۔ یہ سرکار ان کا بھلا بھی تو نہیں کرتی۔
بھیا یہ ناٹک ہے ناٹک ۔ اس سرکار کو مسلم خواتین کا در د اس وقت نہیں ستاتا جب بلڈوزر چلا کر ان کا گھر توڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ تو منافقت ہے۔
للن نے کہا لیکن بھیا یہ معاملہ مختلف ہے۔ مجھے تولگتا ہے اپنی سرکار مسلمانوں کے اوقاف کو قبضے میں لے کر ہمیں تقسیم کر دے گی ۔
یار تم کس خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ وہ حکومت جو سرکاری کمپنیاں اڈانی اور امبانی کو بیچ چکی ہے وہ مسلمانوں کا وقف بھی انہیں کو دے گی۔ ہمیں نہیں
ہاں یار بدعنوانی کو ختم کرنے والی دلیل کو سن کر تو مجھے ہنسی آگئی کیونکہ اگر رام مندر کی تعمیر میں بدعنوانی نہیں ہوئی ہوتی اس کی چھت کیونکر ٹپکتی؟
ارے بھائی چھت تو چھوڑو پہلی ہی بارش میں ایودھیا کی بیشتر سڑکیں ٹوٹ گئیں بلکہ اسٹیشن کی دیوار تک گر گئی ۔
یہ تو ہونا ہی تھا ۔ اپنے لوگوں نے غریبوں سے کوڑیوں کے مول زمین خرید کر کروڈوں میں ٹرسٹ کو بیچی اور بیچ میں دلالی کھاگئے ۔ ہائےتو لگے گی نا۔
کلن بولا ان لوگوں نے صرف ہائے توبہ نہیں کی بلکہ پارلیمانی انتخاب میں ایودھیا سے کمل کو دھتکار کر ناانصافی کا انتقام بھی لے لیا ۔
تو اب کیا مسلمان بھی یہی کریں گے ؟ لیکن وہ تو پہلے بھی بی جے پی کو ووٹ کہاں دیتے ہیں؟
بھیا یہ مت بھولو کہ اب ہماری سرکار ان بیساکھیوں پر سوار ہے جن کو مسلمانوں کے ووٹ ملتے تھے۔ اب وہ مریں گے کمبخت ۔
خیر بھاڑ میں جائیں مسلمان اور ان کی ہمدرد ڈھونگی پارٹیاں ۔ میں یہ پوچھ رہا تھا کہ جب ٹرمپ ہم پر ٹیرف لگارہا تھا تو پردھان جی کہاں غائب تھے؟
کلن نے کہا ارے بھائی وہ ایوان کو وقف بل میں الجھا کردہلی کی گرمی سے بچنے کے لیے ویتنام کے دورے پر نکل گئے۔
اچھا تو عوام کی توجہ اپنے دوست ٹرمپ کی زیادتی سے ہٹانے کی خاطر پردھان جی نے یہ چال چلی ۔ یار یہ بہت بری بات ہے۔
بھائی کیا بتاوں مجھے پردھان جی کی ہر ادا پسند ہے مگر یہ امریکہ کو سنبھالنا اور ٹرمپ کی قدم بوسی دیکھ کر موڈ خراب ہوجاتا ہے، قسم سے؟
کلن بولا بھیا بات تو تمہاری درست ہے مگر یہ بتاو کہ تمہیں اس شاشٹانگ نمسکار کا احساس کیسے ہوگیا؟
یار کوئی ایک معاملہ ہو تو اسے نظر انداز کردیا جائے لیکن یہاں تو ہر روز کوئی نہ کوئی بات ہوجاتی ہے۔ مجھے الجھن ہونے لگی ہے۔
بھیا دیکھو اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لیے یہ سب آسانی سے سمجھ میں نہیں آئےگا۔
بھائی کلن تم اندر کے آدمی ہو اور پڑھتے لکھتے بھی بہت ہو اس لیے بتاو کہ آخر کیا چکر ہے؟
دیکھو بھائی میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ سنسکار کا معاملہ ہے۔
کیا بکواس کرتے ہو۔ وہ تو ہمارے دیش بھگت پریوار کے سنسکاری آدمی ہیں ۔ اس لیے غیر ملکی مرعوبیت کا الزام تم سنگھ پر کیسے ڈال سکتے ہو؟
اچھا تو کیاہمارے پریوار کےآئیڈیل مسولینی اور ہٹلر بھارت ماتا کے بیٹے تھے؟ ساورکرنے جن انگریزوں سے معافی مانگی وہ کون تھے؟
ارے ہاں مگر وہ اگلے وقتوں کی بات ہے لیکن اب تو ہم وشو گرو بن گئے ہیں ۔ ہمیں اب کسی کے آگے جھکنے کی کیا ضرورت؟
کلن بولا بھیا جس کو تم حقارت سے جھکنا کہتے ہواسے کچھ لوگ اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں اور یہی ہماری پرمپرا رہی ہے۔
پرمپرا والی بات میں نہیں سمجھا ؟
ارے بھیا تم بھول گئے ۔ ہمیں نے بابر کو افغانستان سے بلایا۔ اس کے دربار میں شامل ہوئے اور مغلوں سے روٹی بیٹی کا رشتہ بنایا۔
للن بولا امریکہ کی بات کررہا تھا تو تم مجھے گھمانے پھرانے لگے نہیں بتانا ہے تو صاف بولو اس طرح کنفیوز کر نے سے کیا فائدہ؟
یار یہ سمجھو کہ جیسے تم بھاگوت کو پرنام کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہو اسی طرح کوئی ٹرمپ کو سلام کرکے بھی خوش ہوسکتا ہے۔
ارے بھیا لیکن ٹیرف لگاکرہمارے ملک اورہتھکڑیاں پہناکر اپنی عوام کی اہانت کرنے والے کا احترام ہم کیسے کرسکتے ہیں ؟
میں نےکہا تو تھا کہ یہ سنسکار کا معاملہ لیکن تم ہو کے مان کر نہیں دیتے۔
پھر وہی الٹی منطق؟ ہمارے سنگھ میں یہ بزدلانہ عادات واطوار صرف پردھان جی تک محدود کیوں ہیں؟
کلن بولا اب جاکر تم نے صحیح سوال کیا ۔ دراصل 1993 سے ان کی دنیا بدل گئی مگر اس کا احساس ہمیں اب جاکر ہورہا ہے۔
للن نے حیرت سے پوچھا اچھا اس وقت کیا ہوا تھا؟
بھائی یشونت سنہا جیسے اپنے ہی سابق مرکزی وزیر کے مطابق اس سال نوجوان رہنما کے طور پردھان جی کو امریکہ بلایا گیا تھا ۔
یار کمال ہے۔ ان لوگوں نے اس وقت پہچان لیا کہ آگے چل کر وہ کیا بن سکتے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ تک نہیں تھے ۔
جی ہاں وہ سمجھ گئے کہ یہ آدمی ہمارے کام کا ہے ۔ اس کی ٹھیک سے تربیت کی جائے تو آگے چل کر مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن انہوں نے اتنے سارے لوگوں میں صرف پردھان جی کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
انہوں نے دیکھا کہ وہ ایمرجنسی کے وقت انڈرگراونڈ ہوکر جیل نہیں گئے اور رتھ یاترا شروع تو کی مگر ایودھیا نہیں پہنچے۔ یہی کام کاآدمی ہے۔
تو کیا امریکی انتظامیہ نے پردھان جی کی بزدلی کو چالیس سال قبل بھانپ لیا تھا ۔
جی ہاں وہ محاورہ تو تم نے سنا ہی ہوگا ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘۔
ہاں یشونت سنہا نے تو یہ الزام بھی لگایا ہے کہ امریکہ کے پاس پردھان جی کے کچھ ایسے خفیہ راز ہیں جن کے ذریعہ ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔
یار یہ تو بہت دور کی کوڑی ہے۔ میرے خیال میں کسی سربراہِ مملکت کو اس طرح بلیک میل کرنا ناممکن ہے۔
تمہارا یہ خیال غلط ہے ۔ تمہیں پتہ ہے کہ ماضی میں بھی ایک گجراتی وزیر اعظم پر اس طرح کا سنگین الزام لگا تھا ۔
اچھا! ماضی کا گجراتی وزیر اعظم یعنی مرار جی دیسائی ؟ ان کے بارے میں تو سنا ہے کہ وہ نہایت نظم وضبط کے پابند اصول پسند انسان تھے۔
جی ہاں ان کی شبیہ تو یہی تھی لیکن جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے بھی ممبئی میں گولیاں برسا کر سیکڑوں لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔
ارے وہی پردھان جی والا معاملہ لیکن ممبئی میں وہ مسلمان دنگا فساد کررہے ہوں گے ۔
جی نہیں وہ ممبئی شہر کو مہاراشٹر میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اسی کے لیے تحریک چلانے والوں پر مرارجی دیسائی نے گولیا ں چلوادی ۔
اچھا اب سمجھ میں آیا کہ فلورا فاونٹن کا نام بدل کر ہتاتما (شہید) چوک کیوں رکھا گیا ؟ لیکن ایسا قاتل اور سفاک آدمی وزیر اعظم کیسے بن گیا؟
ارے اس میں حیرت کی کیا ابت ہے۔ گودھرا کےنام پر پورے گجرات میں فساد کروانے والا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو مرارجی کیوں نہیں ؟
ہاں یار لیکن تم امریکہ سے گرے تو ممبئی میں اٹکے ۔ یہ بتاو کہ مرارجی دیسائی پر امریکہ کے حوالے سے کیا الزام لگا تھا ۔
بھیا الزام یہ تھا کہ وہ امریکہ کو خفیہ راز پہنچا دیا کرتے تھے یعنی یوں کہہ لوتنخواہ دار امریکی جاسوس تھے ۔
اچھا لیکن یہ الزام کس نے لگادیا۔ مجھے تو لگتا یہ کسی دشمن کی سازش رہی ہوگی۔
اس میں دشمن کی سازش کہاں سے آئی ؟ یہ انکشاف ایک کتاب میں کیا گیا اور اس کے مصنف پر مرارجی دیسائی نے مقدمہ جڑ دیا ۔
اچھا تو پھر کیا ہوا؟ اس آدمی کو پھانسی ملی یا نہیں؟
کاہے کہ پھانسی بھیا یہ مقدمہ نیویارک کی عدالت میں چلا اور مرارجی دیسائی کے وکیل اس مصنف کو غلط ثابت کرنے میں ناکام ہوگئے۔
اس کا مطلب ان پر وہ جاسوسی کا الزام درست ثابت ہوگیا۔ یار کہیں ایسا ہی کوئی معاملہ اپنےپردھان جی کا ساتھ نہ ہوجائے؟
کون جانے کیا ہوگا مگر ایک بات اور بھی ہےجس سے ممکن ہو پردھان جی ڈرتے ہوں۔
اچھا ! ہمارے پردھان وشو گرو ہیں۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔
بھیا یہ تمہاری عقیدت بول رہی ہے۔ امریکی ڈیپ اسٹیٹ بہت خطرناک ہے۔
میں نہیں سمجھا ؟
دیکھو امریکیوں نے ہندوستان کے دو وزرائے اعظم کےقتل کاا ندیشہ ظاہر کر کے بعد ممکنہ رونما ہونے والی صورتحال پر بات کی تھی۔
کیا بولتے ہو ؟ کیا ان لوگوں کو اندرا گاندھی اورراجیو گاندھی کے قتل کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ یقین نہیں آتایہ تو بہت خطرناک بات ہے۔
ارے بھائی جو سی آئی اے خود اپنے صدر جان ایف کینڈی کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اس کے سامنے کسی اور کیا بساط؟
تمہیں یہ کس نے بتایا کہ جان ایف کینیڈی کا قتل سی آئی اے نے کیا؟
ابھی حال میں جن خفیہ دستاویزات کو امریکی حکمرانوں نے شائع کرنے کا حکم دیا اسی میں یہ انکشاف ہوا ہے۔
اچھا تو کہیں پردھان جی اسی ڈر کے مارے تو امریکہ کے آگے دُم نہیں ہلاتے ؟
دیکھو بھائی کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری توجہ امریکی ٹیرف سے ہٹاکر ہمیں اوقاف جیسے معاملات میں الجھا دیتے ہیں ۔
ہاں یار ہم تو قیاس کرسکتے ہیں حقائق آگے چل کر ازخود سامنے آجائیں گے۔
Comments are closed.