شور برپا ہے خانۂ دل میں

محمد اللہ قیصر
ہمارے پھوپھی زاد بھائی، ہم سب کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے، ہردم اپنی شفقت و عنایات کے پھول نچھاور کرنے والے، بے لوث محبت کرنے والے
قاری قمرالہدی صاحب کی وفات کی خبر سننے کے بعد دل کی کیفیت یہ ہے کہ
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
کسی کروٹ چین نہیں، دماغ ہے کہ ان کی یادوں کو نہ جانے کتنی تہوں سے کرید کرید کر نظروں کے سامنے لارہا ہے، اور دل ہے کہ ان کی محبتوں اور شفقتوں کو یادکرکےبلک رہا ہے، آنکھیں آنسو بہاکر دل و دماغ میں برپا مد و جزر کا اظہار کررہی ہے
یہ روح فرسا خبر سنتے ہی دل کی بے چینی اپنے عروج ہے، دماغ ان کے تصور میں غرق ہے، کبھی لگتا ہے وہ اپنے دروازے پر کسی مہمان کے انتظار میں کھڑے ہیں، کبھی گڑھیا چوک پر ہاتھ ہلا کر رکو رکو کی ندا دے رہے ہیں، کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کٹھیلا آئے اور مسکراتے ہوئے دروازے سے داخل ہوتے ہی قدرے کرخدار آواز اور صاف ستھرے لہجے میں "السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ” کی صدا لگا رہے ہیں، اور نظر پڑتے ہی چہرے پر ایک عجیب خوشی کی جھلک۔
ساتھ ہی ماضی کی یادیں بھی ستارہی ہیں، والد محترم ، بڑے بھائی مولانا سعد اللہ صاحب کو بہت چھوٹی عمر میں اپنے ساتھ مدرسہ لے گئے، پھر دو چار سالوں بعد میں بھی چلا گیا، جہاں قاری قمر الہدی صاحب پہلے سے درجہ حفظ میں تھے، وہاں قمر الہدی بھائی نے ہمیں دل و جان سے سے زیادہ عزیز بنا کر رکھا، ابتدائی ایام میں مطبخ سے خود ہی کھانا لاتے، برتن دھوتے، دسترخوان اٹھاتے، پھر کچھ ہی دنوں بعد یہ چھوٹے موٹے کام ہم خود ہی کرنے لگے، لیکن کئی سالوں تک ان کی نگرانی برقرار رہی، مدرسہ تھا، طلبہ کی بڑی تعداد تھی ظاہر ہے آپسی چپقلش اور چھوٹی موٹی رنجشیں بھی ہو جاتی ہیں، ایسے موقع پر قمرالہدی بھائی ہمارے لیے ڈھال بن جاتے، بڑا بھائی پشت پر کھڑا تو چھوٹے میں کچھ اکڑ آہی جاتی ہے، وہ ہمارے ساتھ بھی ہوا، کبھی ہماری غلطی ہوتی تو ہمیں بھی تادیبی پھٹکار کے مرحلہ سے گذرنا پڑتا، قمر الہدی بھائی انتہائی متحرک فعال تھے، اور ہمیشہ چست و توانا نظر آتے، سب لوگ کہتے کہ حرکت و نشاط میں اپنے ماموں اور مربی مولانا قیصر صاحب کا عکس ہیں، ہمیشہ "گرم دم جستجو” کی تصویر بن کر رہے، مدرسہ میں بھی قمرالہدی بھائی اساتذہ کی خدمت میں لاثانی تھے، کوئی استاذ کسی بھی وقت، کسی کام کے لیے کہدیں تو چہرے پر ذرا شکن نہیں فورا تیار ہوجاتے، طلبہ مزاحا کہا کرتے تھے کہ قمر الہدی کو اساتذہ کی خدمت میں سب سے زیادہ مزہ آتا ہے
طالب علمی کے زمانہ سے ہی بڑے بہادر، بیباک، نڈر اور دلیر ثابت ہوئے تھے، بشارت العلوم میں عموما فجر کی نماز کے فورا بعد اساتذہ طلبہ کو چائے کے لیے "کھرما گولہ” کے نام سے معروف چوک پر بھیجتے تھے، ایک مرتبہ کوئی چھوٹی عمر کا طالب علم ایک استاذ کے لیے چائے لانے گیا، وہاں طالب علم نے گلاس چولھے پر رکھ دیا، ہوٹل والے نے اسے یہ کہہ کر پھینک دیا کہ دوسری جگہ رکھو، وہیں قمر الہدی بھائی تھے، انہوں نے ہوٹل والے کے دودھ کی دیگچی ہی پلٹ دی، بڑا ہنگامہ ہوا، دونوں طرف سے بھیڑ جمع ہوگئی، ادھر مدرسہ کے طلبہ دوسری طرف گاؤں کے لوگ، اساتذہ آئے پھر کسی طرح معاملہ ٹھنڈا ہوا،
بڑی دلپذیر شخصیت کے حامل تھے، بلند قامت، دوہرا بدن، گورا رنگ، چوڑی پیشانی،بڑی بڑی آنکھیں، آنکھوں جھلکتا حرکت و نشاط، گھنی داڑھی، مسکراتا چہرہ، بڑا ہر دلعزیز سراپا تھا ان کا، دل اخلاص و وفا سے لبریز تھا اسلیے چہرے پر ہر دم فرحت و مسرت کے آثار نمایاں نظر آتے، ملتے تو ایسا لگتا جیسے وہ آپ ہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں، ایک بار ملنے والا مستقل دوست بن جاتا، انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، با مروت،بڑے ہی نیک طینت تھے، حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازے گئے تھے، رشتہ داری کی حفاظت کا سلیقہ خوب تھا، خوشی ہو کہ غم ہر موقع پر اپنی موجودگی درج کراتے،
دوسروں کے ساتھ ان کے سلوک واطوار کو دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے ان کا دل کینہ کپٹ سے محفوظ رکھا تھا ،کسی سے کوئی رنجش ہوتی تو دیرپا نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ گاؤں اور علاقہ کے لوگ ہوں یا مدرسہ کے رفقاء کار سب ان کی وفات پر ماتم کناں ہیں، ہر کسی کا دل رو رہا ہے،
اور زبان کہہ رہی ہے
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
اب اللہ کی امانت اللہ کے حوالہ ہوگئی، دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو حسنات سے مبدل فرمائے، قن کے درجات بلند کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.
Comments are closed.