پروفیسر شافع قدوائی

 

معصوم مرادآبادی

 

پروفیسر شافع قدوائی کا شمار اردو کے ممتاز نقادوں میں ہوتا ہے۔ان کی تنقیدی تحریریں برصغیر کے اہم ادبی جرائد میں شائع ہوکر اہل علم کی دادوتحسین وصول کرتی رہتی ہیں۔ اپنے وسعت مطالعہ اور گہرے تنقیدی شعور کی بناء پر وہ معاصر اردو نقادوں میں اہم مقام کے حامل ہیں۔حالانکہ اردو کے دیگر نقادوں کی طرح ان کا پیشہ ورانہ تعلق اردو سے نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنی عملی زندگی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ میں درس وتدریس میں گزاری ہے جہاں کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، مگر انھوں نے اردو زبان وادب سے اپنے گہرے شغف کی وجہ سے اردو تنقید کی دنیا میں اختصاص حاصل کیا ہے۔

پر وفیسر شافع قدوائی کا تعلق اودھ کے ایک اہم علمی خانوادے سے ہے۔ ان کے نانا مولانا عبدالماجد دریابادی اپنے عہدکے ایک بڑے صحافی تھے۔ان کا اخبار ”صدق جدید“ اس دور کے اہم اخبار وں میں شامل تھا۔ اس نسبت سے ان کے خانوادے میں کئی صحافی پیدا ہوئے، جن میں پروفیسر شافع کے بھائی مرحوم نافع قدوائی کا تعلق روزنامہ ”قومی آواز“ لکھنؤ سے تھا۔ان کے کزن رشید قدوائی انگریزی کے مشہور صحافی ہیں اور کلکتہ کے انگریزی روزنامہ ”ٹیلی گراف“ سے طویل عرصے تک وابستہ رہ چکے ہیں۔پروفیسر شافع قدوائی اپنے اہم علمی ،ادبی اور تنقیدی کارناموں کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کابھی غالب رجحان صحافت کی طرف ہے۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است

میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں پروفیسر شافع قدوائی کے خاندان کے کئی لوگوں کے قریب رہا ہوں۔ ان میں سب سے اہم شخصیت تو پروفیسر ہاشم قدوائی مرحوم کی تھی جو مولانا دریابادی کے بھتیجے اور داماد تھے۔ ہاشم قدوائی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں اہم خدمات انجام دیں۔ ان کے شاگردوں میں سابق نائب صدر محمدحامد انصاری جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ہاشم قدوائی صاحب جب تک حیات رہے مجھے ان کی شفقت اور محبت اسی طرح حاصل رہی جس طرح اب ان کے بیٹے پروفیسر سلیم قدوائی کی حاصل ہے۔ بہرحال آج یہاں مجھے ہمدم دیرینہ پروفیسر شافع قدوائی پر اظہار خیال کرنا ہے، جن سے میرے تعلقات کا دورانیہ تقریبا ً چالیس برسوں کو محیط ہے۔میں نے اس عرصے میں یہ محسوس کیا کہ علم وفضل کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے باوجود ان کی طبیعت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے اخلاص ومحبت میں کوئی فرق آیا۔پروفیسر شافع قدوائی کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کھری اور سچی بات کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں لاگ لپیٹ اور ابہام نہیں ہوتا۔ حق گوئی کے معاملے میں دوستی بھی حائل نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے دنوں علی گڑھ میں ایک کتاب کے اجراء کے دوران انھوں نے ایسی سچی اور کھری گفتگو کی تھی کہ صاحب کتاب کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔ عام طوراجراء کی تقریبات میں لوگ مبالغہ سے کام لیتے ہیں اورتمام باتیں مصنف کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی ہیں، لیکن شافع قدوائی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات میں صاف گوئی کے طرفدار ہیں۔ان کی علمی وادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر تحسین فراقی نے لکھاہے:

”ڈاکٹر شافع قدوائی اگرچہ ابلاغیات (ترسیل عامہ)کے استاد ہیں مگر ان کی علمی تگ وتاز کا میدان بڑا وسیع ہے۔ وہ اردو ادب، فکشن اور مابعد جدید فکریات سے بڑی سنجیدگی سے وابستہ ہیں۔ تجسس اور تفحص ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ایک ممتاز علمی خانوادے کا فرد ہونے کی حیثیت سے انھوں نے متعدد قابل قدر علمی واکتشافی خصوصیات ورثے میں پائی ہیں۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بڑی سہولت اور سلیقے سے اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔“(’سرسید کی اولین صحافتی کوششیں‘ص 15)

پروفیسر شافع قدوائی مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم کے ڈین کے عہدے سے حال ہی میں سبکدوش ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی باصلاحیت اور باشعور شخص کسی ادارے کا سربراہ بنتا ہے تو اس ادارے کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طورپر وہ اس وقت جو خدمات انجام دے رہے ہیں، انھیں یقینا دور تک اور دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ ان کی سربراہی میں سرسید اکیڈمی نے سرسید اور علی گڑھ تحریک کی مختلف جہات اور موضوعات پر جس محققانہ اور دانشورانہ اندازمیں کام کیا ہے، وہ یقینا لائق ستائش ہے۔ انھوں نے مختصر عرصے میں ہی سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق موضوعات پر تحقیق کو معروضی انداز میں کام کرنے کی بنیاد فراہم کی ہے اور سرسید مطالعات کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ اس ذیل میں انھوں نے ایسے شہروں پر مونوگراف تیار کرائے ہیں جہاں سرسید نے دوران ملازمت قیام کیا اور اپنی خدمات کے نقوش چھوڑے۔ ایسے شہروں میں بنارس، مرادآباد، میرٹھ،آگرہ، علی گڑھ، دہلی اورکلکتہ وغیرہ شامل ہیں۔یہ مونوگراف اپنی نوعیت کی ایک انوکھی سیریز ہیں،جنھیں پڑھ کر مختلف شہروں میں سرسید کی سرگرمیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔لیکن اس اشاعتی سلسلے کی سب سے اہم چیز خواجہ الطاف حسین حالی کی لکھی ہوئی سوانح سرسید ”حیات جاوید“ کے تصحیح شدہ ایڈیشن کی اشاعت ہے۔ دراصل یہی کتاب سرسید پر تحقیق کا بنیادی مآخذ ہے۔ حالی کی یہ تصنیف پہلے پہل کانپور سے 1901 میں شائع ہوئی تھی۔ بعدازاں برصغیر ہندوپاک میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے، مگر سرسید اکیڈمی نے پروفیسر شافع قدوائی کی سربراہی میں اس کا جو تصحیح شدہ اڈیشن شائع کیا ہے، وہ کئی اعتبار سے خاصے کی چیز ہے۔اس ایڈیشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اس کی تصحیح کے علاوہ حواشی اور تعلیقات کے ساتھ اس کی اولین اشاعت کے بعد جو پانچ تبصرے شائع ہوئے تھے، وہ بھی ضمیمے کی طورپر شامل کردئیے گئے ہیں۔ اس میں مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے تعارفی نوٹ کے علاوہ مولانا وحیدالدین سلیم،مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی، شیخ عبدالقادراور مولانا ابوالکلام آزاد کے سیرحاصل تبصرے شامل ہیں۔792 صفحات پر مشتمل ”حیات جاوید“ کے اس ایڈیشن میں پروفیسر شافع قدوائی کا نہایت علمی اور تحقیقی پیش لفظ بھی شامل ہے۔

شافع قدوائی نے مطالعات سرسید کے ذیل میں انگریزی زبان میں بھی نہایت کارآمد کتابیں تصنیف کی ہیں جنھیں مغرب کے اہم اشاعتی اداروں نے شائع کیا ہے۔ انھیں اردو کی طرح انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی کے عالمی سطح کے پبلشر ان کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔سرسید پر شائع ہونے والی ان کی اہم کتابوں میں ”سوانح سرسید: ایک بازدید“ اور ”سرسید کی اوّلین صحافتی کوششیں“شامل ہیں۔ان کی تصنیفات کی مجموعی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے اور یہ تمام کتابیں عالمی ادب وتحقیق کے معیار پرکھری اترتی ہیں۔ فکشن پر ان کی ایک اہم تصنیف ”فکشن مطالعات:پس ساختیاتی قرات“ کے علاوہ” خبرنگاری ” اور "میرا جی ” ( مونو گراف) اردو میں ان کی اہم کتابیں ہیں ۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والی ان کی دو اہم کتابیں یہ ہیں Cementing Ethics with modernism: An Appraisal of Sir Sayyed Ahman Khan’s Writing.

# Sir Syed Ahmad Khan: Reason, Religion and Nation

پروفیسر شافع قدوائی کی پیدائش 8 اپریل 1960 کو ہوئی۔ ان کی تعلیم لکھنؤ اور بنارس میں ہوئی۔ان کی کتاب ”سوانح سرسید:ایک بازدید“ کو 2019میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس سے قبل2018 میں انھیں مدھیہ پردیش حکومت نے ’اقبال سمان‘ سے سرفراز کیا تھااور اسی سال اترپردیش اردواکادمی نے اپنے باوقار خسرو ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی اخبارات ’دی ہندو‘ ’انڈین ایکسپریس‘ اور ‘ ہندوستان ٹائمز ‘میں ان کے معیاری مضامین اور تبصرے اکثر وبیشتر شائع ہوتے رہتے ہیں۔وہ ایک بہترین مصنف، مترجم اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ایک عمدہ تجزیہ نگار بھی ہیں۔

 

Comments are closed.