کیا کوئی بڑی تحریک جنم لینے والی ہے؟

پسِ آئینہ: سہیل انجم
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اوقاف کا تحفظ ہے۔ بظاہر یہ معاملہ براہ راست عام مسلمانوں کا معاملہ نہیں لگتا لیکن اس کا تعلق ان سے بالواسطہ طور پر ضرور ہے۔ اس وقت مسلم دشمن قوتوں کے درمیان ایک ابال کی کیفیت ہے اور وہ ہر اس نشان کو مٹا دینا چاہتی ہیں جو کسی بھی طرح مسلم یا اسلامی شناخت کا حامل ہو۔ جس طرح آئے دن کسی نہ کسی مسجد، درگاہ یا مزار کے خلاف عدالتوں کا رخ کیا جا رہا ہے اور عدالتیں ان کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر رہی ہیں اس کے پیش نظر یہ اندیشہ قوی ہوتا جا رہا ہے کہ شرپسند طاقتیں آگے چل کر زیادہ سے زیادہ اوقاف کی املاک کو ہدف بنا سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا بھی خطرہ ہے کہ ان مدارس و مکاتب کے خلاف بھی جو مسلمانوں کی جانب سے وقف کی گئی زمینوں پر قائم ہیں، عدالتوں کا رخ کیا جائے۔ اسی طرح قدیم مساجد کو بھی جس طرح نشانہ بنانے کا سلسلہ چل پڑا ہے اس کے پیش نظر کوئی تعجب نہیں کہ ایسی تمام مساجد کو متنازع بنا دیا جائے جن کے سلسلے میں مسلمانوں کے پاس کوئی قانونی دستاویز یا کاغذ نہیں ہے۔ چونکہ ابھی تک ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا اس لیے کاغذی کارروائی کی جانب مسجدوں اور مدرسوں کے ذمہ داروں کی توجہ نہیں گئی تھی۔ حالانکہ مسلمانوں کی یہ بہت بڑی کمی ہے کہ وہ ایسی املاک کے کاغذات تیار نہیں کراتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری ملکیت ہیں اور آگے بھی رہیں گی۔ ایسی املاک جو وقف ہیں اور ان پر تنازع پیدا ہو گیا ہے تو وقف ترمیمی قانون کی رو سے ضلع مجسٹریٹ ان کا تصفیہ کرے گا اور وہ یہ بتائے گا کہ متنازع جائدادوقف کی ہے یا نہیں۔ اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ضلع مجسٹریٹ مسلمانوں کے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔ بہرحال مسلم تنظیموں او ر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف عذرداریاں داخل کی جا رہی ہیں اور چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان عذرداریوں پر سماعت کریں گے اور ان پر ہمدردانہ انداز میں غور کریں گے۔ ان عذرداریوں پر 16 اپریل کو سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف جو درخواستیں داخل کی گئی ہیں ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند (مولانا ارشد مدنی)، انڈین یونین مسلم لیگ، سمست کیرالہ جمعیت علما، رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، دہلی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خاں، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، سماجوادی پارٹی، ڈی ایم کے اور انسانی حقوق کی تنظیم ایسو سی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) قابل ذکر ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سکھوں، عیسائیوں اور بودھوں کی تنظیمیں بھی اس قانون کو چیلنج کریں گی۔ بالخصوص گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی جانب سے اس قانون کو چیلنج کرنے کا قوی امکان ہے۔ دراصل اس متنازع قانون کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے اور صدر دروپدی مورمو کی جانب سے پانچ اپریل کو ہی اس پر دستخط کر دیے جانے کی وجہ سے دیگر اقلیتوں خاص طور پر سکھوں اور عیسائیوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر وہ اس وقت نہیں بولیں گی تو حکومت ان کی املاک پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس اندیشے کے پیش نظر تمام اقلیتوں کے درمیان ایک قسم کی رابطہ کاری جنم لے رہی ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ آنے والے دنوں میں سی اے اے مخالف تحریک کے مانند وقف تحریک بھی شروع ہو جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جولائی 2023 میں دہلی میں اقلیتی رہنماو ¿ں کی ایک راو ¿نڈ ٹیبل میٹنگ منعقد کی گئی تھی جس میں یونیفارم سول کوڈ کو مسترد کیا گیا تھا۔ اسی طرح بورڈ کی جانب سے دہلی، ممبئی، بنگلور اور کلکتہ میں وقف بل اور عبادت گاہ قانون کے موضوع پر ورکشاپ منعقد ہوئی تھی۔ جن میں مسلم نمائندوں کے علاوہ دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ ان پروگراموں کے پیش نظر یہ خیال قائم کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے اقلیت مخالف اقدامات کے خلاف اقلیتوں کے درمیان ایک مضبوط رابط کاری جنم لے رہی ہے۔ اس کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ اقلیتیں حکومت کے امتیازی اقدامات کے خلاف ایک متحدہ تحریک شروع کریں۔ سپریم کورٹ میں جو درخواستیں داخل کی گئی ہیں ان کے بارے میں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا ہے کہ وہ ان کو سماعت کے لیے اِن لسٹ کریں گے۔ تاہم اس کا بھی اندیشہ ہے کہ ایسی تمام درخواستیں ٹھنڈے بستے میں نہ ڈال دی جائیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کاکہنا ہے کہ ہم لوگوں کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ پہلے اس قانون پر روک لگائے اور پھر اسے کالعدم کر دے۔ ان کے مطابق مسلم تنظیموں بالخصوص پرسنل لا بورڈ کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ صاف ذہن کے برادران وطن کے دلوں میں اگر کدورت کی گرد جم گئی ہے تو اسے صاف کیا جائے اور سی اے اے مخالف تحریک کے مانند ایک تحریک کھڑی کر دی جائے۔ وہ بڑے پراعتماد لہجے میں کہتے ہیں کہ اس تحریک اور قانونی لڑائی کے ذریعے حکومت پر اتنا دباو بنا دیا جائے گا کہ وہ یا تو اسے واپس لے لے گی یا پھر دوسری کوئی حکومت آئے گی تو وہ اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اسے ختم کر دے گی۔ لیکن کچھ لوگوں کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر سڑکوں پر اترا گیا تو اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ سی اے اے مخالف تحریک اگر چہ بہت کامیاب تھی لیکن اس میں شامل بہت سے لوگوں کو جیلوں ڈال دیا گیا اور آج تک ان کی ضمانت نہیں ہوئی ہے۔
شاید ایسی کسی تحریک کے اٹھنے کا خطرہ حکومت بھی محسوس کر رہی ہے۔ لہٰذا وہ اس کو ناکام بنانے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے میں لگ گئی ہے۔ ان اقدامات کا آغاز اترپردیش سے ہو چکا ہے۔ یوگی حکومت کی پولیس نے وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کو روکنے کے لیے سیاسی و مذہبی رہنماو ¿ں کو ایک لاکھ روپے سے لے کر دس لاکھ روپے تک کے نوٹس جاری کیے ہیں۔ مظفر نگر میں تین سو لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ اس بات کو تشویش ناک سمجھا جائے یا مضحکہ خیز کہ جمعة الوداع کو بازووں پر سیاہ پٹی باندھنے کی وجہ سے یہ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے خلاف سیاہ پٹی باندھ کر احتجاج کرنے کی اپیل کی تھی۔ پولیس کا الزام ہے کہ ایسے لوگوں نے دوسروں کو مشتعل کرنے اور امن و امان کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح لکھنو میں سماجوادی پارٹی کے متعدد مسلم و غیر مسلم ممبران کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ پولیس کے خیال میں مسلمانوں کی جانب سے وقف ترمیمی قانون کی مخالفت سے کشیدگی اور بدامنی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ پولیس کی انصاف پسندی ملاحظہ ہو کہ اس کے نزدیک رام نومی کے دن بھگوا پوشوں کی جانب سے سید سالار مسعود غازی اور دیگر بزرگوں کے مزاروں پر بھگوا پرچم لہرانا دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرنے اور امن و امان کو درہم برہم کرنے والا اقدم نہیں ہے۔ جبکہ بازووں پر سیاہ پٹی باندھ کر پر امن احتجاج کرنا اس کے نزدیک امن و امان کے لیے خطرناک ہے۔لہٰذا ان واقعات کے پیش نظر اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی جانب سے سڑکوں پر اتر کر سی اے اے کے مانند احتجاج کی کوشش کی گئی تو پولیس خاموش تماشائی نہیں بنے گی بلکہ ایکشن کرے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا ارشدمدنی نے سڑکوں پر احتجاج نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ بہرحال اس وقت پورے ملک کے مسلمانوں میں شدید اضطراب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے مذکورہ قانون منظور کرکے وقف املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی راہ ہموار کر لی ہے۔ لہٰذا اگر اس کے خلاف سخت احتجاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
موبائل: 9818195929

Comments are closed.