مسلم پرسنل لاء بورڈ پر کئے جانے والے اعتراضات کا جائزہ

ندیم عبدالقدیر
انسانی جبلت ہمیشہ سے ظلم و جبر کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ساری دنیا میں ظلم کے کسی بھی معاملے میں ظالم کی مذمت کی جاتی ہے اور مظلوم کےساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ اصول انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ پتہ نہیں وطن عزیز میں انسانی جبلت کی رمق آخر ی درجہ میں بھی بچی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ یہاں ظالم کی ملامت کرنے کی بجائے مظلوم پر اعتراضات کئے جاتےہیں، مظلوم کو طعنے دئیے جاتےہیں، مظلوم کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے،مظلوم میں ہی طرح طرح کے نقص نکالے جاتےہیں اور اس طرح دانستہ یا نادانستہ طور پر ظلم کو جائز ٹھہرایاجاتا ہےجس کا سیدھا فائدہ ظالم کو پہنچتا ہے۔ ظلم کے لئے مظلوم کو موردِ الزام ٹھہرانا درحقیقت ظالم کو کلین چٹ دینا ہی ہے۔ متنازع وقف ترمیم عام مسلمانو ں سے ان کی زمین جائیداد چھیننے کا حربہ ہے لیکن اس معاملے میں مسلمانوں کی ہی کئی شخصیات، ادارے ، تنظیمیں اور جماعتیں ظالم کی مذمت کرنے اور مظلوم کےساتھ کھڑے رہنے کی بجائے طرح طرح کے اوٹ پٹانگ جواز تراش کر مسلمانوں کو ہی اس کا موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اپنی اس ظالمانہ کوشش میں یہ ان لوگوں کو بھی نشانہ بنارہےہیں جو لوگ مظلوم مسلمانوں کیلئے آواز اٹھا رہےہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ اسی لئے ان کے نشانے پر ہے ۔
ملک میں مسلمانوں کی تنظیم اور اداروں کے نام پر لاکھوں جماعتیں ہیں لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ وہ واحد نمائندہ جماعت ہے جس نے اس ظالمانہ قانون کے خلاف سب سے بڑی جدوجہد کی۔ایسے وقت میں جب مسلمانوں کی لاکھوں تنظیمیں، جماعتیں ، ادارے اپنے اپنے دفاترمیں بیٹھ کر وقف قانون کے خلاف زبانی جمع خرچ کررہے تھے تب مسلم پرسنل لاء بورڈ زمینی سطح پر قانون کے خلاف بھاگ دوڑ کررہا تھا۔ جہاںان تنظیموں کی وقف قانون کے خلاف ساری جدوجہد صرف نجی محفلوں تک ہی محدود تھی وہیں بورڈ وہ ادارہ تھا جس نے حکومت کی حلیف جماعتوں سے ملاقات کی ، انہیں قانون کے خلاف باور کرانے کی کوشش کی اور جب ان حلیف سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تو بورڈ نے ان سیکولر جماعتوں کے بائیکاٹ کا کھل کر اعلان کردیا۔یہ طریقہ ٹھیک بھی تھا ، پہلے گفت و شنید سے ہی معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئےاور حکومت کی حلیف سیاسی پارٹیوں سے ہی بات کرناچاہئے تھی کیونکہ بل منظوری میں وہی جماعتیں اہم کردار ادا کرنے والی تھیں ، جو اُن سیاسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں کِیا بھی اوران کی ہی حمایت سے متنازع بل منظور ہوا ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم تنظیمیں، جماعتیں ،ادارے متحد ہوکر دامے ، درمے ،سخنے ، قدمے پرسنل لاء بورڈ کی طاقت بنتے، اس کی حمایت کرتے، اس کےساتھ کھڑے رہتے!! لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی کئی شخصیات، تنظیموں اور اداروں نے ایسا کرنے کی بجائے بورڈ پر اوٹ پٹانگ تنقید شروع کردی۔ بورڈ پرکئے جانے والے اعتراضات مضحکہ خیز حد تک واہیات ہیں۔ جب بورڈ بائیکاٹ کرنے کااعلان کرتا ہے تو یہ لوگ اخبارات میں، وہاٹس اپ پراور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر یہ لکھنا شروع کردیتےہیں کہ ’’بائیکاٹ سے کیافائدہ؟بورڈ کو بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے ‘‘ ۔ بورڈ جب بائیکاٹ کا اعلان نہیں کرتا ہے تب یہ کہنے لگتےہیں کہ ’’بورڈ کو بائیکاٹ کا اعلان کردینا چاہئے‘‘ ۔یعنی تنقید برائے تنقید۔
بورڈ جب حکومت کی حلیف جماعتوں سے ملاقات کررہا تھا تب یہ کہا جارہاتھا کہ’’ یہ ملاقات کیوں کی جارہی ہے ؟‘‘ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر بورڈ اُس وقت ان جماعتوں سے ملاقات نہیں کرتا تب یہ کہا جاتا کہ’’ بورڈ کو ذرا بھی عقل نہیں ہے اسے حکومت کی حلیف سیکولر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرنی چاہئے‘‘۔ اسی طر ح بورڈ جب کسی تحریک کا اعلان کرتا ہے تو اس کی مخالفت ہوتی ہے اور جب بورڈ تحریک کا اعلان نہیں کرتاہے تو یہ مشورہ دیاجاتا ہے کہ ’’بورڈ تحریک کا اعلان کیوں نہیں کرتا‘‘۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مشورے ، نصیحتیں، تنقیدیں ، طعنے زیادہ تر وہ تنظیمیں اور شخصیات دیتےہیں جو خود قوم کا کوئی کام نہیں کرتے۔ جن کا میدانِ عمل صرف ان کے دفاتر تک ہی محدود رہتا ہے لیکن مشورے اور نصیحتیں ساری دنیا کے ہوتےہیں۔
درحقیقت بورڈ پر تنقیدیں کرنے والے لوگ تین قسم کےہیں۔ پہلی قسم تو وہ ہے جو حکومت کی شاداب چراگاہوں سے مستفیض ہوتےرہتےہیں۔ یہ طبقہ حکومت سے ملنے والی بھاری بھرکم مراعات، نعمتوں، آسائشوںاور نان و نفقہ کے عوض میں حکومت کاانتہائی زبردست طورپر وفادار ہوتا ہے۔ ہر حکومت ایسے لوگوں کو اس لئے پال کے رکھتی ہے تاکہ یہ طبقہ حکومت کی ہر جائز ناجائز پالیسی کادفاع کرےاور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بدنام کرسکے۔یہ طبقہ یہی کام قوم کےساتھ پوری غداری اور حکومت کےساتھ مکمل وفاداری کےساتھ کرتا ہے ۔ تنقید کرنے والوں کی دوسری قسم اُن شخصیات، تنظیموں اور اداروں کی ہوتی ہے جن میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ حکومت کی کسی پالیسی کے خلاف کھل کر میدان میں اتریں۔ ان پر حکومت کا خوف چھایا رہتا ہے ۔ جب بورڈ حکومت کے خلاف مہم شروع کرتا ہے تو عوام الناس ایسی تنظیموں سے سوال پوچھنے لگتے ہےکہ آپ خاموش کیوں ہیں؟ ا یسے میں ان تنظیموں ، اداروں یا جماعتوں کےپاس بورڈ پر تنقید کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتاتاکہ خود کے ڈر اور خوف کو چھپا سکیں۔ اعتراض کرنے والوں کی تیسری قِسم اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سادہ لوح ہوتےہیں،جن کا کوئی نجی مفاد وابستہ نہیں ہوتا لیکن یہ طبقہ اوپر بیان کی گئی دونوں اقسام کے لوگوں کی واہیات تنقیدوں سے متاثر ہوجاتا ہے، ان کے جھانسے میں آجاتا ہے اور بورڈ پر تنقید کرنا عین دانشمندی سمجھ بیٹھتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ شریعت کے تحفظ کیلئے ایک کوشش اور جدوجہد کا نام ہے ۔ بورڈ کا ایک دائرۂ کار ہے ۔ ہر معاملہ اور ہر موضوع بورڈ کا کام نہیں ہے ۔ مثلاً مسلمانوں پر ہونے والے فرقہ وارانہ حملے، فرقہ وارانہ مسلم کُش فسادات ، ناگہانی آفات اور مسلمانوں پر ہونے والے دیگر مظالم وغیرہ۔ یہ سارے معاملات بورڈ کے دائرہ کار میں نہیں ہیں۔ بورڈ نے خود کئی بار اس بابت واضح بھی کیا ہے ، لہٰذا مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور فرقہ وارانہ مسلم کُش فسادات یا ناگہانی آفات وغیرہ کے مواقع پر یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کہاں ہے ‘‘ ۔ بورڈ الیکشن میں کسی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل بھی نہیں کرتا ۔ ہوسکتا ہے کہ بورڈ سے کوتاہیاں اور غلطیاں ہوتی ہوں۔ اس بارے میں بورڈ کی اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن تنقید برائے تنقید کا رویہ قوم کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یاد رکھئے!بورڈ پر کی جانے والی تنقید کہیں نہ کہیں سنگھ پریوار کی مدد کرنا، اس کے مسلم مخالف ایجنڈہ میں تعاون کرنا اور مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم کو صحیح ٹھہرانا ہی ہے ۔براہِ مہربانی قوم پر یہ ظلم نہ کریں۔ ظالم کو ظالم کہنے کے حوصلے کا مظاہرہ کریں اور یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم خاموش رہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ اردو ٹائمز ،ممبئی کے فیچر ایڈیٹر ہیں)
Comments are closed.