حکومتِ ہند کے وقف قانون کے امتیازی ہونے کی آٹھ وجوہات

 

تحریر: جناب ابھیشیک سنگھوی صاحب

ترجمہ: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

(جناب ابھیشک سنگھوی صاحب امریکہ کی صف اول کی "ہارورڈ یونیورسٹی” سے تعلیم یافتہ، سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل، چار بار کے رکن پارلیمنٹ اور کانگریس پارٹی کے ترجمان ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ وقف ترمیمی بل 2025 کی ترامیم سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور وقف کے انتظامی معاملات میں مسلمانوں کی نمائندگی کو شدید طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔ ذیل میں موصوف کے مضمون کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔)

 

اصلاحات کے نام پر متعارف کیے جانے والا "وقف (ترمیمی) ایکٹ 2024” ، دراصل ایک پسماندہ قدم ہے جو آئینی ضمانتوں، مذہبی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم عدالتی اصولوں کو کمزور کرتا ہے۔ یہ قانون سازی کے (ناجائز) تجاوز کی ایک واضح مثال ہے، جسے انتظامی کارکردگی کے پردے میں پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

 

پہلی وجہ: یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 25 اور 26، (اور) خاص طور پر آرٹیکل 26 کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے، جو نہ صرف مذہب کو آزادانہ طور پر ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے؛ بلکہ مذہبی امور کو خود مختار انداز میں چلانے کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ حقوق مطلق نہیں ہیں؛ لیکن وہ اتنے کمزور بھی نہیں ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے مذہبی اداروں کی خود مختاری کو بنیادی طور پر چھین لیا جائے۔

 

سپریم کورٹ نے آزادی کے ابتدائی دوعشرے ہی میں، رتی لال گاندھی اور تلکایت گووند لال جی مہاراج جیسے مقدمات میں،توثیق کی ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو مذہبی گروہوں کو اپنے مذہبی امور خود چلانے کا حق (ان سے) چھین لے، وہ قانون آئین کے خلاف ہے۔ موجودہ ایکٹ کی بالکل وہی کوشش ہے۔

 

آئینی حقوق زیبائش کے لیے نہیں ہوتے ہیں کہ (وہ) صرف قانون کی کتابوں کی زینت بنے رہیں؛ جب کہ عملی طور پر انھیں باقا‏عدہ کمزور کیا جاتا رہے۔ یہ حقوق دراصل ریاستی مداخلت کے خلاف بنیادی پر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایکٹ ان ضمانتوں کو نظرانداز کر کے، صرف آئین کے حاشیے کو نہیں چھوتا؛ بلکہ آئین کی بنیاد پرحملہ کرتا ہے۔

 

دوسری وجہ: اس ایکٹ کی دفعہ 11 جمہوری شملیت کو ریاستی وقف بورڈوں کی تشکیل میں عملی طور پر ختم کر دیتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت سو فی صد ارکان کی تقرری ریاستی حکومت کی نامزدگی سے کرنے کی پابندی ہے۔ اس پورے عمل کو صرف ایک انتظامی کارروائی بنا دیتی ہے، جو (مسلم) برادری سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق چھین رہا ہے۔

 

اگر پورا بورڈ ہی حکومت کا ایک توسیعی ادارہ بن جائے؛ تو ادارہ جاتی خودمختاری میں آخر کیا باقی رہ جاتا ہے؟

 

تیسری وجہ: یہ ایکٹ ایک عجیب و غریب صورتِ حال کی اجازت دیتا ہے کہ وقف بورڈ کے گیارہ میں سے کم از کم ممکنہ طور پر صرف تین ارکان مسلمان ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی ہندو مندر بورڈ میں غیر ہندو افراد اکثریت میں ہوں؟ یا کسی سکھ گردوارہ کمیٹی میں غیر سکھوں کا غلبہ ہو؟

 

یہ آئین کے آرٹیکل 26 میں محفوظ مذہبی خود انحصاری کے تصور کی صریح مسخ شدہ شکل ہے۔ ایسا بندوبست صرف غیر حساس ہی نہیں؛ بلکہ بنیادی طور پر آئینی برابری اور کمیونٹی کی عزت نفس دونوں کے خلاف ہے۔ قانون صرف الفاظ میں برابر نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ روح اور عملی طور پر بھی برابری کو یقینی بنائے۔ مساوات کو ایک ہاتھ سے نافذ کر کے، دوسرے ہاتھ سے حقوق چھین لینا، کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں۔

 

چوتھی وجہ: یہ ترمیم وقف بورڈ کے ارکان سے، اپنے چیئرمین کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹانے کا حق چھینتی ہے۔ یہ داخلی جمہوریت اور ادارہ جاتی جوابدہی کے اصول کی واضح طور پر توہین ہے۔

 

خود مختاری بغیر جوابدہی کہ بیکار ہے؛ لیکن خود مختاری کے بغیر جوابدہی جبر واستبداد ہے۔

 

پانچویں وجہ: پہلے (کی وقف ایکٹ) کی دفعات کے تحت، وقف بورڈ کے سی ای او کا مسلمان ہونا اور بورڈ کے دو مجوزہ ناموں میں سے (کسی ایک کا) منتخب ہونا ضروری تھا۔ (موجودہ) دفعہ پندرہ ان دونوں شرائط کو خارج کر چکی ہے۔ اس سے انتخاب میں کمیونٹی کا کردار تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ (اس کا) واحد مقصد ریاستی کنٹرول کو مزید مضبوط کرنا ہے، جہاں مقصد صرف کنٹرول، کنٹرول اور مزید کنٹرول ہے۔

 

جب دیگر مذہبی اداروں میں اسی نوعیت کا کردار کمیونٹی کی مرکزیت اور احترام کے ساتھ برقرار رہے؛ تو (یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ) صرف ایک کمیونٹی کو ہی ایسی کمی کیوں برداشت کرنی چاہیے؟ انتظامی سہولت کسی کے شناخت کو مٹانے کے لیے بہانہ نہیں بن سکتا ہے۔

 

چھٹی وجہ: مختلف ایکٹس، جیسے: کرناٹک ہندو مذہبی اداروں کا ایکٹ، شری جگن ناتھ مندر ایکٹ، ماتا ویشنو دیوی درگاہ ایکٹ، تمل نادو مذہبی اوقاف ایکٹ، کاشی وشوناتھ مندر ایکٹ، سکھ گردوارہ ایکٹ اور دیگر کئی ایکٹس اپنے متعلقہ مذہبی کمیونٹیوں کی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی باہری افراد کو غالب کردار دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

 

پھر کیوں مسلمانوں کے مذہبی اداروں کے ساتھ مختلف طریقے سے برتاؤ کیا جائے؟ کیا آئینی مساوات صرف ایک طرفہ راستہ ہے؟

 

ساتویں وجہ: یہ ایکٹ ‘وقف بائی یوزر’ کے اصول پر حملہ کرتا ہے، جس کی جڑ اسلامی روایات میں گہری ہے اور سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے رام جنم بھومی فیصلے میں اس کی تائید کی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ بات دوبارہ دہرائی ہے کہ رسمی دستاویزات کی عدم موجودگی میں بھی وقف کو طویل عرصے سے عوامی مذہبی استعمال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

اس اصول کو مستقبل میں غیر قانونی بنانے کی کوشش کر کے، یہ ایکٹ ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے کہ مذہبی اصولوں کو قانون کے ذریعے ختم کر دیا جائے، جو کہ واضح طور پر آئین کے خلاف سمجھا جائے گا۔

 

آٹھویں وجہ: دفعہ 3 ایک غیر واضح شرط متعارف کراتی ہے کہ جائیداد وقف کرنے والا شخص نہ صرف پانچ سال تک مسلمان ہونا چاہیے؛ بلکہ وقف کرنے میں کوئی "حکمت، تدبیر،جتن، چالاکی” استعمال نہ کی ہو۔ اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ کون اس کی وضاحت کرے گا؟ کس بنیاد پر؟ یہ شرط انتظامی خود مختاری، ہراسانی اور لامتناہی قانونی مقدمات کے دروازے کھول دیتی ہے۔

 

اتنی مبہم، موضوعی اور ذاتی تشریح کی جانے والی اصطلاح، صرف وقف کا دعویٰ کرنے والے کو حکومتی محکموں کے لامتناہی بیوروکریسی کے دائرے میں گھماتی رہے گی۔ اس طرح قانون سازی میں ابہام، حادثاتی طور نہیں؛ بلکہ جان بوجھ کر کی جانے والی ایک تدبیر ہے۔ یہ مستقل عدم تحفظ پیدا کرتی ہے اور ریاستی اجازت پر مستقل انحصار قائم کرتی ہے۔

 

ان ترامیم کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ایک کمیونٹی کے اپنے مذہبی امور کو خود چلانے کے حق میں کمی آتی ہے، اگر مکمل طور پر نہ مٹا دیا جائے۔ اس (ایکٹ) سے ایک خطرناک مثال قائم ہوتی ہے، جو ہندوستان کے ہر اقلیتی ادارے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

 

آئین اکثریت کی منظوری کی شرط پر حقوق فراہم نہیں کرتا۔ یہ دراصل اکثریتی حکمرانی کے خلاف حفاظتی تدابیر کی جگہ ہے؛ تاکہ اقلیتی کے حقوق کو ریاستی طاقت کے بے جا استعمال سے بچایا جا سکے۔ یہ ایکٹ اصلاح نہیں؛ بلکہ انتقام ہے۔ یہ معقولیت نہیں؛ بلکہ انتقام ہے۔

 

جیسے ایک شاعر نے بڑے بلیغ انداز میں کہا ہے: "زمین میری ہے، گھر میرا ہے، عبادتیں میری ہیں، وراثت میری ہے — پھر بھی جو کچھ پہلے سے میرا ہے، اس پر میرا حق ہونے کا مجھ سے ثبوت مانگا جاتا ہے۔” ایسی قانون سازی، جو اصلاحات کے پردے میں چھپی ہوتی ہے، نظام سے بے دخلی کے آلات بن جاتی ہے۔ یہ (اصلاحات) صرف اور صرف شکوک، تفریق، عدم اعتماد اور مایوسی پیدا کرتی ہیں۔••••

Comments are closed.