یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے

پسِ آئینہ: سہیل انجم
جمہوریت کے چار ستونوں میں سے تین ستون تو کمزور ہو چکے ہیں۔ اب چوتھے کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس کی سنگینی اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ یہ ناروا کوشش حکمراں طبقے کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے اس کی مخالفت نہ کی جائے، خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اور جو بھی قانون بنائے اس کو من و عن تسلیم کر لیا جائے خواہ وہ خلافِ آئین ہی کیوں نہ ہو۔ حکمراں طبقہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب وہ عدلیہ کو نشانہ بناتا ہے تو یہ بات خطرناک ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما نے سپریم کورٹ کو ہدفِ ملامت بنایا اور دوبے نے تو براہ راست چیف جسٹس آف انڈیا پر سنگین الزامات لگا دیے تو ان کے خلاف توہین عدالت کے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ سب سے پہلے تو نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے سپریم کورٹ کے حکم پر شدید تنقید کی اور آئین کی دفعہ 142 کو جمہوری طاقتوں کے خلاف نیوکلیئر میزائیل قرار دیا۔ لیکن جب سپریم کورٹ نے اسی دفعہ کا استعمال کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا تھا تو فیصلے کی ستائش کی گئی تھی۔ نائب صدر کے بعد بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما نے بھی سپریم کورٹ پر سنگین الزامات عاید کیے۔ دوبے نے تو یہاں تک الزام لگا دیا کہ سپریم کورٹ ملک میں مذہبی جنگ بھڑکا رہا اور اپنے دائرہ ¿ کار سے باہر جا رہا ہے۔ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے عدالتوں کا نہیں۔ اور اگر عدالتیں قانون بنانے لگیں تو پارلیمنٹ کو بند کر دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے یہ بات عمداً یاد نہیں رکھی کہ عدالتیں قانون تو نہیں بناتیں لیکن پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے سکتی ہیں اور اگر کوئی قانون آئین مخالف ہے تو اسے منسوخ بھی کر سکتی ہیں۔ نشی کانت دوبے یہیں نہیں رکے بلکہ انھوں نے یہ الزام بھی عاید کیا کہ اس وقت ملک میں جو خانہ جنگی چل رہی ہے اس کے براہ راست ذمہ دار چیف جسٹس سنجیو کھنہ ہیں۔ اس پر ہنگامہ ہونا تھا اور ہوا بھی۔ انھوں نے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کو بھی لپیٹ لیا اور کہہ دیا کہ وہ الیکشن کمشنر نہیں بلکہ ’مسلم کمشنر‘ تھے۔
دراصل ان بیانات کا ایک پس منظر ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی جانب سے ریاستی اسمبلی سے منظور کردہ بلوں کو طویل عرصے تک اپنے پاس روکے رکھے جانے سے متعلق ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں کے گورنروں کے رویے پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ آر این روی کی جانب سے بلوں کو اتنے دنوں تک روکنا غیر قانونی اور غلط ہے۔ ڈویژن بینچ نے دفعہ 142 کے تحت دیے گئے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ گورنروں اور صدر کے پاس جو بل معلق ہیں انھیں منظور شدہ سمجھا جانا چاہیے۔ بینچ نے یہ بھی کہا تھا کہ صدر کو بھی اپنے پاس بھیجے گئے قوانین پر تین ماہ کے اندر فیصلہ دے دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ آئین کے مطابق اگر پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کرکے دستخط کے لیے صدر کے پاس بھیجتی ہے اور صدر اس سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ اسے دوبارہ غور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو واپس کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ دوبارہ اس بل کو خواہ جوں کا توں ہی کیوں نہ ہو، صدر کے پاس بھیجے تو صدر کو اس پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ یہی ضابطہ گورنروں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں مرکز کی جانب سے مقرر کیے جانے والے گورنروں کا رول بڑا ناپسندیدہ رہا ہے۔ وہ حکومتوں کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے نمائندے ہیں۔ ان پر بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مہاراشٹر کے سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری، موجودہ نائب صدر اور مغربی بنگال کے سابق گورنر جگدیپ دھنکھڑ، دہلی کے ایل جی وی کے سکسینہ اور تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ آر این روی نے تو ایک اسکول کے پروگرام میں طلبہ سے جے شری رام کے نعرے لگوائے۔ خیال رہے کہ عام طور پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سیاست نہیں کی جاتی اور انھیں سیاسی تنازعات میں نہیں گھسیٹا جاتا۔ لیکن موجودہ مرکزی حکومت میں یہ ایک عام روش بن گئی ہے۔ اگر کوئی فیصلہ حکومت کو سوٹ کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اس کو قبول کرتی ہے کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی فیصلہ سوٹ نہیں کرتا تو اس کے خلاف بیان بازی کی جاتی ہے۔ تروپتی مندر سے متعلق ایک مقدمے کے سلسلے میں امت شاہ کا یہ بیان سرخیوں میں رہا ہے کہ عدالتوں کو ایسا فیصلہ نہیں دینا چاہیے جو قابل قبول نہ ہو۔ لیکن جب یہی عدالت رام مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو عدالتی فیصلہ ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے گورنروں کے خلاف سخت تبصرہ کیا تو حکومت کے لوگ برافروختہ ہو گئے۔
سپریم کورٹ کے خلاف غصہ اور ناراضگی بلکہ جھنجلاہٹ وقف ترمیمی قانون پر سنجیو کھنہ کے سخت موقف کی وجہ سے بھی ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں ابھی تک حکومت کی ہمنوائی نہیں کی بلکہ حکومت سے ایسے چبھتے ہوئے سوالات کیے کہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ کو جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کرنی پڑی۔ حکومت کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت نہیں کرے گا اور کرے گا بھی تو حکومت کی طرف اپنا جھکاو ¿ رکھے گا۔ لیکن تادم تحریر سپریم کورٹ کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ اب اس پر اگلی سماعت پانچ مئی کو ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دن عدالت کوئی فیصلہ سناتی ہے یا پھر تاریخ دے دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نشی کانت دوبے نے براہ راست سنجیو کھنہ پر الزام لگا دیا۔ مبصرین کے مطابق یہ بیانات عدالت پر دباو ¿ بنانے کے لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ وقف قانون کو درست قرار دے دے۔ ادھر جب نشی کانت دوبے وغیرہ کے بیانات پر ہنگامہ ہونے لگا تو بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہہ دیا کہ ان بیانات سے پارٹی کا کچھ لینادینا نہیں ہے۔ وہ ان کے ذاتی بیانات ہیں۔ یہ دراصل بی جے پی کی دوہری سیاست ہے۔ اس سے قبل پرگیہ ٹھاکر وغیرہ کے بیانات سے بھی پلہ جھاڑا جاتا رہا ہے لیکن ان کو پارلیمنٹ کا ممبر بھی بنایا گیا۔ اگر نڈا جی صحیح کہہ رہے ہیں تو دوبے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔یہ دراصل عوام کو بیوقوف بنانے کی باتیں ہیں۔ ورنہ بی جے پی کے لیڈر وہی بیان دیتے ہیں جو پارٹی چاہتی ہے۔ دوبے ہوں یا شرما یا کوئی اور، وہ لوگ پارٹی کی لائن کے مطابق ہی بیان دیتے ہیں۔ اگر ان بیانات پر ہنگامہ مچتا ہے تو پارٹی کو ا س سے الگ کر دیتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے جس طرح متعدد آئینی اداروں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے اسی طرح وہ سپریم کورٹ پر بھی کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فیصلوں پر بار بار نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ ججوں کے تقرر کے نظام کالجیم سسٹم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حکومت نے 2014 ہی میں ججوں کے تقرر کے لیے ’نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن‘ (این جے اے سی) بنایا تھا جس کو سپریم کورٹ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کمیشن کی ہئیت اس طرح بنائی گئی تھی کہ ہر حال میں حکومت کے پسندیدہ شخص کو جج بنایا جاتا۔ لہٰذا مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عاملہ اور عدلیہ کی لڑائی ہے اور اس کے پس پردہ عدلیہ کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے
موبائل: 9818195929
Comments are closed.