اسلام، امن و سلامتی کا سب سے بڑا داعی، ظلم اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ مخالف

مفتی امدادالحق بختیار قاسمی
صدر شعبہ عربی ادب دارالعلوم حیدرآباد
پہلگام میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی، سفاکیت، حیوانیت اور بد ترین قسم کی درندگی ہے، یہ انسانیت کے پیشانی پر یک بد نما داغ ہے، معصوم لوگوں کے قتل کرنے والے انسانی شکل میں درندے ہیں، ان کی درندگی کا جواب دینا تمام انسانیت کے انصاف کے لیے بہت ضروری ہے۔
اسلام اس طرح کی بربربیت کی سخت مخالفت کرتا ہے، اور ایسے ظالموں کے لیے فوری طور پر سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے، اسلام میں انسانیت کا احترام اور انسان کی حفاظت تمام چیزوں سے مقدم ہے، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے؛ بلکہ دنیا کوئی مذہب اس طرح کی ظالمان اور دہشت گردانہ کاروائی کو برداشت نہیں کرتا، جن درندوں نے معصوم کی جان دھجیاں اڑائیں، کتنے سہاگ اجاڑ دیے، کتنے بچوں کے سروں سے ان کے والدین کا سایہ چھین لیا، کتنے گھروں میں صف ماتم بچھا دی، کتنی زندگیوں کو اندھیرے میں جھونک دیا، ان تمام درندوں کو فوری طور پر سزائے موت دینی چاہیے اور ایسے ناپاکوں سے زمین کو پاک کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان کا ہر شہری چاہے، وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آج اس بزدلانہ کاروائی پر غم زدہ ہے، اور اس حادثہ کے مہلوکین کے افراد خانہ کے غموں میں پورے طور پر شریک ہے اور دہشت گردوں کے خلاف ایکشن میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔
ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے حقیقی مجرموں کو جلد از جلد گرفتار کر کے، انہیں ہینگ کر دیا جائے؛ ان کے خلاف ایکشن میں فوج کو اگر ہمارے تعاون کی ضرورت ہے تو آواز دے، ہم خواد اپنے ہاتھوں سے قاتلوں کو کیفر کر دار تک پہنچانے کا کام انجام دیں گے۔
انسانوں اور دنیا کی تمام مخلوقات کے بارے میں اسلامی تصور
اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے یہ تصور دیا کہ دنیا کے تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں؛ لہذا وہ سب آپس میں بھائی بہن ہیں، اسلام کے اس تصور سے امن و امان ، آپسی تعاون، خیر خواہی کے جذبات کو تقویت ملتی ہے،اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ دنیا کے اندر جتنی بھی مخلوقات ؛ چاہے وہ انسان ہوں یا ان کے علاوہ، اور انسانوں میں چاہے وہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، یہ سب اللہ کی فیملی ہیں، اللہ کی نگرانی اور ذمہ داری میں ہیں؛ لہذا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے والا انسان اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہے:
«الخلق عيال الله فأحب الخلق إلى الله من أحسن إلى عياله». (شعب الإيمان، فصل في نصيحة الولاة ووعظهم، 7448)
ترجمہ: مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک سب مخلوق میں پسندیدہ وہ شخص ہے، جو اللہ کے کنبے کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہے۔
نیز اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ رحم و کرم اور اچھے سلوک کی تاکید کرتے ہوئے، یہ بشارت سنائی ہے کہ جو دنیا میں لوگوں پر رحم کرے گا، تو اللہ تعالی کی رحمت اس پر نازل ہوگی، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ. (سنن ترمذي، باب ما جاء في رحمة المسلمين، 1924)
ترجمہ: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اسلام ہر طرح کے تشدد، ظلم و زیادتی اور فتنہ و فساد کی مخالفت کرتا ہے، اسلام میں دین کے نام پر کسی بھی طرح کی بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ اسلام تو امن و امان اور سلامتی کا سب سے بڑا داعی اور پیامبر ہے۔
اسلام میں ناحق قتل اور اس کی سزاء
اسلام میں انسانیت کے احترام کی تعلیمات بہت اہتمام سے ملتی ہیں،کسی بھی طرح کے ظلم اور زیادتی کو حرام قرار دیا گیا ہے، انسانی جان کی حفاظت کے تاکیدی احکامات دیے گئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﵟ قُلۡ تَعَالَوۡاْ أَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمۡ عَلَيۡكُمۡۖ أَلَّا تُشۡرِكُواْ بِهِۦ شَيۡـٔٗاۖ وَبِٱلۡوَٰلِدَيۡنِ إِحۡسَٰنٗاۖ وَلَا تَقۡتُلُوٓاْ أَوۡلَٰدَكُم مِّنۡ إِمۡلَٰقٖ نَّحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَإِيَّاهُمۡۖ وَلَا تَقۡرَبُواْ ٱلۡفَوَٰحِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَۖ وَلَا تَقۡتُلُواْ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِي حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّۚ ذَٰلِكُمۡ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُونَ 151 ﵞ سورة الأنعام.
ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر کن چیزوں کو حرام کیا ہے: تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، بھوک کے ڈر سے اپنی اولاد کا قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی اور ان کو بھی رزق دیتے ہیں، علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کے قریب مت جاؤ، اور ایسے شخص کا ناحق قتل مت کرو، جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اللہ تعالی تمہیں ان باتوں وصیت کرتا ہے؛ تاکہ تم سمجھو۔
ﵟوَلَا تَقۡتُلُواْ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِي حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّۗ وَمَن قُتِلَ مَظۡلُومٗا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِيِّهِۦ سُلۡطَٰنٗا فَلَا يُسۡرِف فِّي ٱلۡقَتۡلِۖ إِنَّهُۥ كَانَ مَنصُورٗا 33 ﵞ سورة الإسراء.
ترجمہ: اور ایسے شخص کا ناحق قتل مت کرو، جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے،اور جس کو ظلم کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے، تو ہم نے اس کے اولیاء کو حق دیا ہے (کہ وہ قاتل سے قصاص لیں) لہذا وہ قاتل کو قتل کرنے میں زیادتی سے کام نہ لیں، یقیناً وہ (مقتول کے اولیاء)اس لائق ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔
ناحق ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے
اسلا م میں کسی انسانی جان کا بھی نا حق مارنا، کتنا بڑا جرم ہے، اس کا اندازہ قرآ ن کریم کی درج ذیل آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
ﵟمِنۡ أَجۡلِ ذَٰلِكَ كَتَبۡنَا عَلَىٰ بَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ أَنَّهُۥ مَن قَتَلَ نَفۡسَۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ أَوۡ فَسَادٖ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعٗا وَمَنۡ أَحۡيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحۡيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعٗاۚ وَلَقَدۡ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُنَا بِٱلۡبَيِّنَٰتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرٗا مِّنۡهُم بَعۡدَ ذَٰلِكَ فِي ٱلۡأَرۡضِ لَمُسۡرِفُونَ 32 ﵞ سورة المائدة.
ترجمہ: اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے؛ جبکہ یہ قتل نہ کسی جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو، اور نہ زمین میں کسی فساد کے پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کا قتل کیا، اور جو کسی جان کو بچائے، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا، اور یقیناً ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لے کر آئے، پھر بھی ان میں سے اکثر زمین میں حد سے تجاوز کرتے رہے۔
مذہبی معاملات کی بناء پر ظلم
مذہبی منافرت کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، کسی دوسرے کے مذہب سے نفرت کرتے ہوئے، ان پر ظلم و زیادتی کرنا، اسلام م میں سخت ممنوع ہے، قرآن پاک کی آئندہ آیت سے یہ بخوبی واضح ہوتا ہے:
ﵟوَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ أَن صَدُّوكُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ أَن تَعۡتَدُواْۘ ﵞ سورة المائدة:2. ترجمہ: کسی قوم نے اگر تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے، تو اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی دشمنی تمہیں ان کے اوپر ظلم کرنے پر آمادہ نہ کرے۔
مومن اور مسلمان کی تعریف
رسول اللہ ﷺ کی درج ذیل حدیث کی روشنی میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کیا ظلم و زیادتی کرنے والے، دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے والے افراد کا اسلام سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
قَالَ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: ” أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ؟ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ”. (مسند أحمد، مسند فضالة عبيد الأنصاري، 23958)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے بیان میں فرمایا: کیا میں تمہیں مؤمن کے بارے میں بتاؤں؟ مؤمن وہ ہے، جس سے لوگوں کی جان ومال محفوظ رہیں اور مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں ۔
تمام دہشت گردقابل مذمت ہیں
پہلگام میں دہشت گردوں کا لوگوں کا مذہب معلو م کر کے ٹارگیٹ کرنے اور ٹرین میں داڑھی ٹوپی دیکھ کر گولی چلانے والے دونوں ایک جیسے ہیں۔
پہلگام کے دہشت گردوں کا کلمہ پڑھنے کا مطالبہ کرنا اور ہمارے ملک میں فرقہ پرستوں کا جے شری رام کہنے پر زبردستی کرنا اور تشدد کرنا، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پہلگام کے دہشت گرد اور تہوار کے موقع پر مسلم دوکانداروں کو اپنے نام کا بورڈ کا لگانے پر مجبور کرنے والے دونوں ایک ہی نفرتی فیکٹری کی پیدا وار ہیں۔
پہلگام کے دہشت گردوں اور برقع ، داڑھی ٹوپی دیکھ کر عام لوگوں کو نشانہ بنانے والوں میں کوئی فرق نہیں۔
پہلگام کے دہشت گرد اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرنے والے ، دونوں برابر کے مجرم ہیں۔
پہلگام کے دہشت گردوں اور فلسطین کے معصوم شہریوں ، خواتین اور بچوں کے نسل کشی پر خوشی کا اظہار کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پہلگام کے دہشت گرد اور ہمارے ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے والے، دونوں بھائی بھائی ہیں۔
پہلگام واقعہ کے دہشت گرد اور مالی گاؤں بم دھماکہ کی ملزم پرگیہ ٹھاکر دونوں بھائی بہن ہیں، جس کے خلاف این آئی اے نے عدالت سے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔
پہلگام واقعہ کے دہشت گرد اور بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے والے دونوں ایک جیسے درندے ہیں۔
ذکیہ جعفری کے سہاگ کو اجاڑنے والے اور پہلگام میں ہماری بہنوں کے سہاگ کو اجاڑنے والے دونوں ایک جیسے دہشت گرد ہیں۔
ہاں یہ سب بھائی بھائی ہیں، نہ یہ ہندو نہ مسلمان ہیں، نہ سکھ نہ عیسائی ہیں، یہ انسان نہیں، جانور ہیں، اور ان جانوروں کا مذہب دہشت گردی اور انسانیت دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ملک کی حفاظت کے ذمہداروں سے سوال؟
ملک کی سالمیت، شہریوں کی حفاظت، تمام غلط عناصر پر کڑی نگاہ رکھنا، یہ حکومت اور متعلقہ شعبوں کی ذمہ داری ہے؛ لہذا ان معصوموں کے قصور وار جہاں ان کو قتل کرنے والے دہشت گرد ہیں، وہیں ان دہشت گردوں پر قابو نہ پانے والی سیکوریٹی فورسز، ان کا قبل از وقت پتہ لگانے میں ناکام رہنے والی خفیہ ایجنسیز، ان کے سر براہ، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم بھی قصوروار ہیں، ان کی ناکامی اور نا اہلی کی وجہ سے ہی دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے، صرف دوسروں پر الزام عائد کرنے سے ہم اپنی ذمہ داری اور جوابدہی سے بری نہیں ہوتے۔
آخر وزیر اعظم نے جو تیقن دیا تھا کہ کشمیر سے 370 ہٹنے کے بعد وہاں مکمل طور پر امن و امان ہوگا، اس کاروائی نے اس امن وامان کی پول کھول کر رکھ دی۔ اسی طرح نوٹ بندی کے وقت یہی کہا گیا تھا کہ اس سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی؛ لیکن ان تمام کے باوجود دہشت گردانہ کاروائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
خبروں کے مطابق بیس منٹ تک دہشت گرد وں نے یہ کاروائی انجام دی، نام پوچھ پوچھ کر قتل و غارت گری کرتے رہے؛ لیکن اتنے طویل وقت کے باوجود سیکوریٹی فورسز کا کوئی نوجوان وہاں نہیں پہنچا.
کشمیر اور اہل کشمیر پر اس کے برے اثرات
جنت نشان کشمیر جتنا خوبصورت اور دل فریب ہے، وہاں کے لوگ بھی اتنے ہی مہمان نواز اور مددگار (کو اوپریٹو) ہیں؛ لیکن آزادی کے بعد سے لے کر اب تک وہاں کے لوگ کسی پائدار امن اور سلامتی سے محروم رہے،ہمیشہ ان پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں؛ جرم کسی اور کا ہوتا ہے، لیکن اس کی سزا انہیں بھگتنی پڑتی ہے۔
حالیہ واقعہ کے بعد بھی جہاں پورا کشمیر سوگ اور غم میں ڈوب گیا، تمام طرح کے کاروبار بند کر دیے گئے، نقل و حرکت بالکل تھم گئی، زندگی ٹھہر گئی، سیاحوں کی وہاں سے واپسی کی وجہ سے ہوٹل سیکٹر، ٹرانسپورٹینشن اور دیگر کاروبار پر جو اثر پڑااور اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات ایک طرف، دوسری طرف بعض حقیقت سے نا واقف لوگ، کشمیری حضرات کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں، جو بالکل غلط ہے، نہ صرف اس طرح کے واقعات سے کشمیریوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ بلکہ ان واقعات کے برے نتائج سے وہ خود متاثر ہوتے ہیں۔
Comments are closed.