فضول خرچی کے بوجھ تلے شادی؛ غرباء کے لیے عذاب اور امراء کے لیے دکھاوا

 

از قلم :مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

[email protected]

+91 8121832026

 

آج کے معاشرے میں شادی جیسا مقدس اور آسان فطری عمل، فضول خرچی، دکھاوا، اور رسم و رواج کی بھاری زنجیروں میں جکڑ کر ایک ایسا بوجھ بن چکا ہے جو نہ صرف والدین کی کمر توڑ دیتا ہے بلکہ نوجوانوں کی زندگیوں میں بھی تاخیر، ذہنی دباؤ اور بسا اوقات گناہوں کی راہیں کھول دیتا ہے۔ نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنانے کا جو اسلامی تصور ہے، وہ آج ہماری تہذیبی پستی اور معاشرتی نمائشی کلچر کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ شادی کے نام پر لاکھوں روپے صرف مہنگے شادی ہالز، لباس، ویڈیوگرافی، جہیز، اور مہمان نوازی میں لٹائے جاتے ہیں، جبکہ نکاح جو کہ دو گواہوں کی موجودگی میں ایک سادہ اعلانِ نکاح سے مکمل ہو سکتا ہے، اب ایک ‘تقریبِ نمائش’ میں بدل چکا ہے۔ المیہ یہی ہے کہ اگر کوئی جوڑا خلوصِ نیت سے سنت کے مطابق سادہ نکاح کا ارادہ کرے تو اُسے طعن و تشنیع، طنز و تمسخر، اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اب شریعت پر عمل کرنا "معاشرتی جرم” بن چکا ہے

 

 

نکاح ایک عبادت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ

 

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا:

 

"وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا، وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً”

(الروم: 21)

ترجمہ: "اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔”

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے فرمایا:

"النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي”

(ابن ماجہ)

یعنی: "نکاح میری سنت ہے۔”

 

نکاح ایک ایسا بابرکت عمل ہے جو انسان کو دنیاوی فتنوں، نفسانی خواہشات، اور شیطانی راہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

 

"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ”

(بخاری و مسلم)

یعنی: "اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو نیچے رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔”

 

نکاح میں سادگی؛ برکت کا ذریعہ

 

اسلام نے نکاح کو سنت قرار دیا، مگر اس سنت کی ادائیگی کے نام پر آج معاشرے میں ایسے ایسے کام انجام دیے جا رہے ہیں جو واضح طور پر فرائض و واجبات کی پامالی اور شریعت سے کھلا انحراف ہیں۔

جہیز کے مطالبے پر والدین قرض میں ڈوب جاتے ہیں، شادی ہالز میں مہنگی محفلوں پر زکوٰۃ کی رقمیں اور حج کی بچتیں خرچ ہو جاتی ہیں، بے پردگی، موسیقی، اختلاط اور اسراف عام ہو جاتا ہے — گویا ایک سنت کو ادا کرنے کے نام پر اللہ کے کئی احکام روند دیے جاتے ہیں، جبکہ تاجدار دوعالم ﷺ نے فرمایا:

"أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا”

(مسند احمد)

ترجمہ: "عورتوں میں سب سے زیادہ بابرکت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو۔”

 

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"خيرُ النكاحِ أيسرُهُ”

(ابن حبان)

یعنی: "بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔”

 

امراء کی شاہانہ تقریبات معاشرتی دباؤ کا سبب

 

آج کل امراء اپنی شادی کی تقریبات کو عیش و عشرت کا مظاہرہ اور شان و شوکت کی نمائش کا موقع سمجھنے لگے ہیں۔ بارات کے لیے قیمتی گاڑیاں، بینڈ باجے، ہوٹلوں میں پرتکلف دعوتیں، مہنگے تحائف اور روشنیوں کے جھرمٹ میں نکاح جیسے مقدس فریضے کا حقیقی مقصد کہیں گم ہو جاتا ہے۔ یہ سب اسراف کی ایسی شکلیں ہیں جن پر نہ صرف دین خاموش نہیں بلکہ وعید سناتا ہے۔

 

ایسی تقریبات نہ صرف شرعی تعلیمات سے روگردانی کی مظہر ہیں بلکہ معاشرے میں دکھاوے، حسد اور مقابلہ بازی کی فضا کو بھی جنم دیتی ہیں۔ جب امیر طبقہ اپنی تقاریب کو غیر معمولی طور پر پُرتعیش بناتا ہے تو متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی معاشرتی دباو میں آ کر اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ اکثر قرض، مالی مشکلات یا معاشرتی شرمندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

 

مزید برآں، ان تقریبات میں اکثر دینی حدود کی پامالی بھی دیکھی جاتی ہے: مرد و زن کا آزادانہ اختلاط، موسیقی اور رقص، فحاشی کے مناظر، اور قیمتی وقت کا غیر ضروری ضیاع۔ یوں نکاح، جو کہ ایک بابرکت عبادت ہے، محض تفریح، فیشن اور نمائش کا موقع بن کر رہ جاتا ہے، جہاں نہ دعا کی قدر باقی رہتی ہے، نہ نکاح کے مقاصد کا شعور۔

 

یہی اسراف جب معاشرتی دباؤ بن کر نچلے طبقے تک پہنچتا ہے تو غریب طبقہ بھی نکاح جیسے سادہ اور آسان عمل کو امراء کی شاہانہ تقریبات کی نقل میں بدل دیتا ہے۔ اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات، مہنگے جوڑے، پرتکلف دعوتیں اور روشنیاں اُس کے لیے بوجھ بن چکی ہیں۔ نتیجتاً قرض، سود اور حتیٰ کہ زکوٰۃ کی رقم تک شادیوں پر خرچ کی جا رہی ہے۔ دکھاوا ایسا کہ سادگی کا جنازہ نکل چکا ہے، اور سنت ایک تماشہ بن کر رہ گئی ہے۔

 

درحقیقت، اسراف کا یہ سلسلہ جب تک رُکے گا نہیں، معاشرے میں نکاح آسان ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جائے گا، اور شریعت کی اصل روح گم ہوتی چلی جائے گی۔

 

قرآن و سنت میں اسراف کی مذمت:

 

بیشک فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں۔

یعنی فضول خرچی کرنے والا شیطانی صفات کا حامل ہے۔

(سورۃ الاسراء: 27)

فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ الانعام: 141)

کھاؤ، پیو، لیکن اسراف نہ کرو۔(سورۃ الاعراف: 31)

ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو وضو میں زیادہ پانی استعمال کرتے دیکھ کر فرمایا:

"مَا هَذَا السَّرَفُ يَا سَعْدُ؟”

حضرت سعد نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ”

(ابن ماجہ)

ترجمہ: ہاں، اگرچہ تم جاری نہر پر ہی کیوں نہ ہو۔

یعنی عبادت میں بھی اسراف منع ہے۔

 

لوگ کیا کہیں گے؟

جب عبادت جیسے مقدس عمل میں اسراف سے گریز لازم ہے تو دنیاوی معاملات، خصوصاً شادی جیسے نازک اور بابرکت رشتے میں اسراف کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ افسوس کہ آج ہم نے شادیاں معاشرتی نمائش اور فخریہ مظاہرے کا ذریعہ بنا دی ہیں۔ سادگی اور سنت کی پیروی کو فراموش کر کے دکھاوے کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً، ایسے خاندانوں کی داستانیں جنم لے رہی ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادیاں محض "لوگ کیا کہیں گے” کے تحت قرض اور معاشی تباہی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

 

ایسا ہی ایک خاندان آج بھی قرض کے بوجھ تلے سسک رہا ہے، جس نے دس سال قبل صرف ایک دیڑھ لاکھ کا قرض لیا تھا تاکہ بیٹی کی شادی شایانِ شان ہو، مگر یہ قرض آج دس لاکھ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ماہانہ آمدنی صرف سود اور قسطوں میں ختم ہو جاتی ہے، زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پاتیں، اور سکون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

 

یہ دو واقعات — ایک نبی کی سنت، اور دوسرا ہماری غفلت — ایک واضح پیغام دے رہے ہیں: فضول خرچی نہ صرف دینی نافرمانی ہے بلکہ معاشی تباہی کا راستہ بھی ہے۔

 

اجتماعی شعور اور مسنون نکاح تحریک

 

معاشرے میں شادیوں کے بڑھتے ہوئے اسراف، نمائشی تقاریب اور معاشرتی دباؤ کے طوفان کا مقابلہ محض انفرادی کوششوں سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک ہمہ گیر اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ علما، خطباء، اساتذہ، والدین، اور معاشرے کے باشعور افراد کو چاہیے کہ وہ کھل کر اس رویے کے خلاف آواز بلند کریں۔ مدارس، مساجد، تعلیمی ادارے اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ پیغام عام کیا جائے کہ سادہ نکاح شریعت کی پسندیدہ سنت اور معاشرتی نجات کا ذریعہ ہے، جبکہ فضول خرچی، دکھاوا اور رسومات معاشرتی بگاڑ کا سبب ہیں۔

 

ایسے حالات میں جب نکاح جیسے بابرکت عمل کو فیشن، رسومات اور غیر شرعی امور کی نذر کیا جا رہا ہو، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے "مسنون نکاح تحریک” کا آغاز نہایت خوش آئند اور بروقت قدم ہے۔ اس تحریک کے ذریعے معاشرے کو واپس اصل سنت کی طرف متوجہ کرنا ممکن ہے۔

 

اس اصلاحی مہم میں سب سے مؤثر کردار قاضی حضرات ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اگر نکاح کی تقاریب کو مساجد میں منتقل کریں، سادگی اور سنت کی برکتوں کو واضح کریں، اور خاندانوں کو اعتماد کے ساتھ غیر ضروری رسومات سے بچنے کی تلقین کریں، تو بہت جلد معاشرتی فضا بدل سکتی ہے۔ اسی طرح، ائمہ و خطباء اپنے خطبات میں اس شعور کو اجاگر کریں، اور سوشل میڈیا کو بھی اس اصلاحی جدوجہد کا ذریعہ بنائیں۔

 

یاد رکھیں، سادگی میں عظمت ہے، اور نمائش میں ہلاکت۔ آج ہم نے اگر اس فکری انحراف کا راستہ نہ روکا، تو آنے والی نسلوں کے لیے نکاح ایک آسان عبادت کے بجائے معاشرتی تماشہ بن جائے گا۔

Comments are closed.