آپ کے شرعی مسائل

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

تکبیر تحریمہ کے وقت ہتھیلیوں کا رخ کس طرف ہو ؟

سوال:- دونوں ہاتھوں کو تکبیر تحریمہ کہتے وقت کیا کھلا رکھ کر آسمان کی طرف دکھلانا چاہئے ؟ (عبید اللہ، دلسکھ نگر)

جواب:- نہیں ، آسمان کی طرف ہتھیلیوں کا رخ نہ ہونا چاہئے ، فقہاء نے احادیث کو سامنے رکھ کر اس کی کیفیت یہ لکھی ہے کہ ہتھیلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو ، انگلیاں کھلی ہوئی ہوں ، اس حال میں دونوں ہاتھ اٹھائے جائیں ، اور جب انگوٹھے کان کی لو کے برابر آجائیں تو تکبیر تحریمہ کہی جائے : یستقبل ببطون کفیہ إلی القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما ، فإذا استقرتا فی موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین ، یکبر (ہندیہ:۱؍۷۳)

طبی آلات ڈالنے کی وجہ سے غسل

سوال:- بہت سی دفعہ خواتین کے امراض رحم کی تشخیص کے لئے ڈاکٹر کو طبی آلات یا خود اپنی انگلی عورت کی شرمگاہ میں داخل کرنی پڑتی ہے ، اگر کسی مریضہ کا اس طور پر ٹسٹ کیا گیا ہو تو کیا اس پر غسل واجب ہوجائے گا؟ ( فرحت جبیں، ملے پلی)

جواب:- غسل صرف صنفی اعضاء میں کسی چیز کے داخل کرنے سے واجب نہیں ہوتا ؛ بلکہ دو صورتوں میں واجب ہوتا ہے ، یا تو مرد و عورت کے درمیان تعلق قائم ہو ، یا شہوت کے ساتھ مادۂ منویہ کا خروج ہوا ہو ، یہ دونوں شکلیں وہ ہیں جن میں مرد و عورت لذت حاصل کرتے ہیں ، اگر طبی آلات وغیرہ عورت کے رحم میں داخل کئے گئے ؛ لیکن اس سے اس درجہ کی شہوت پیدا نہیں ہوئی کہ مادہ منویہ کا خروج ہوجائے تو پھر اس کی وجہ سے غسل واجب نہیں ہوگا:…… لا مذي أو ودی وإدخال أصبع ونحوہ في الدبر أو القبل علی المختار (درمختار مع الرد: ۱؍۳۰۴)

درودِ ابراہیمی کے بعد غیر عربی دعائیں

سوال:- قعدہ اخیرہ میں درودِ ابراہیمی کے بعد قرآن وحدیث سے ثابت ساری یا زیادہ سے زیادہ دعائیں کیا پڑھی جاسکتی ہیں ؟ کیا عربی کے علاوہ دوسری زبان مثلا اردو میں دعاء مانگی جاسکتی ہے ؟ (مکرم علی، شاہ علی بنڈہ)

جواب:- (الف) درودِ ابراہیمی کے بعد تنہا نماز ادا کرنے والا شخص اگر قرآن وحدیث میں مذکورہ بہت سی دعائیں پڑھ لے ، تو حرج نہیں ہے ؛بلکہ ان شاء اللہ باعثِ اجر و ثواب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہم إني ظلمت نفسي إلخ کے علاوہ اور بھی دعائیں اس موقع پر پڑھنا منقول ہے ، یہاں ان کا تذکرہ طوالت کا باعث ہوگا ؛ اس لئے ایک حوالہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے ، (ابو داؤد، حدیث نمبر:۳۰۸۲) ؛ البتہ جو شخص امامت کرے ، اس کو ’’ اللہم إني ظلمت نفسي إلخ ‘‘والی متداول دعا یا اتنی ہی مقدار قرآن و حدیث میں مروی کوئی دوسری دعا پڑھنی چاہئے ، زیادہ لمبی دعاء نہیں پڑھنی چاہئے ؛ تاکہ لوگوں کے لئے مشقت اور حرج کا باعث نہ ہو ۔

(ب) جہاں تک اردو میں دعاء کرنے کی بات ہے ، تو نماز سے باہر اس میں کوئی حرج نہیں ، نماز کے اندر عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں دعاء کرنے کے سلسلہ میں فقہاء کے تین نقاطِ نظر ہیں : ایک رائے یہ ہے کہ نماز میں غیر عربی زبان میں دعاء کرنا حرام ہے ، اس کو بعض فقہاء حنفیہ نے علامہ قرافی مالکی ؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے ، دوسرا نقطۂ نظر امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب ہے کہ غیر عربی میں دعاء کرنا جائز ہے ، تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ غیر عربی میں دعاء کرنا مکروہ اورخلاف اولی ہے ، علامہ شامیؒ —جو بڑے محقق حنفی فقیہ ہیں ، —- کا رجحان یہ ہے کہ نماز میں غیر عربی میں دعاء کرنا مکروہ تحریمی ہے اور نماز کے باہر غیر عربی میں دعاء مکروہ تنزیہی ، یعنی خلاف مستحب ، (ردالمحتار: ۲؍۲۳۴) — بہر حال علامہ شامیؒ کا نماز سے باہر بھی غیر عربی میں دعاء کو مکروہ تنزیہی قرار دینا تو ناقابل فہم ہے؛ البتہ اس سلسلہ میں ان کی رائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے آثار اور دین کے مزاج سے قریب تر معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص عربی میں دعاء کرسکتا ہو ، نماز میں اس کا غیر عربی میں دعاء کرنا مکروہ تحریمی ہے اور جو شخص عربی میں دعاء کرنے پر قادر نہیں ہو ، جیسے نو مسلم حضرات ، ان کے لئے غیر عربی میں بھی دعاء کرنے میں حرج نہیں ، جیساکہ امام ابوحنیفہؒ کی اصل رائے ہے ۔

جس کا انتقال ہوجائے اور زکوٰۃ ادانہ کرپائے

سوال:- آج سے پچاس سال قبل ایک خاتون کو ان کے والدنے تیس تولہ سونا دیاتھا،اس وقت سوناسترروپئے تولہ تھا ،ایک سال کی زکوٰۃ اداکی گئی، اس کے بعد سے زکوٰۃ ادانہ ہوسکی ،یہاں تک کہ ۲۰۰۱ء؁ میں اس کاانتقال ہو گیا ، اب اس کے وارثوں کو اس کی زکوٰۃ اداکرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ اور وہ کس طرح زکوٰۃ اداکر کے بریٔ الذمہ ہوں گے ؟ (کرامت حسین، ملک پیٹ)

ٍ جواب:- اگر کسی شخص کے ذمہ زکوٰۃ واجب تھی ،نہ خود اس نے زکوٰۃ اداکی اور نہ اس کے لئے وصیت کی تو اس کے ورثاء پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوگی: إن مات من علیہ الزکو ۃ سقطت الز کو ۃ بموتہ(ہندیہ: ۱؍۱۶۷)ہا ں! متو فی پراس کو تا ہی کا گنا ہ ہوگا،’’ حتی أنہ لو لم یؤدّ منہ حتی مات یأثم‘‘ (بدائع الصنائع:۲؍۷۸) ا سی طرح حق اللہ کے طور پرجو دوسرے دیون واجب ہو تے ہیں ،وہ بھی موت کی وجہ سے ساقط ہو جا تے ہیں،یہ تو اس کا قانونی حکم ہے؛لیکن اخلا قی اوراحسا نی حکم یہ ہے کہ جہا ں تک ممکن ہو ورثہ اس کی طرف سے زکا ۃ ادا کر نے کی کو شش کریںکہ ممکن ہے اس کی وجہ سے اللہ تعا لیٰ اس کو معاف فر ما دیں وما ذالک علی اللہ بعزیز،پھرغور کیجئے کہ اس میں لو گوں کے لئے کس قدر تنبیہ ہے کہ انسا ن اپنے واجبات خود ادا کرلے،ورنہ ہوگا یہ کہ لوگ اس کے ترکہ سے نفع اٹھائیںگے اور وہ اللہ کے یہاں مبتلاء عذاب رہے گا ،اللہ تعا لیٰ ہم سب کی اس سے حفا ظت فر مائے۔

غیر مسلموں کی تعزیت

سوال:- غیر مسلموں میں اگر کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کو پُرسہ دینے کا کیاحکم ہے ؟ اگر پُرسہ دینا جائز ہوتو اس کا کیا طریقہ ہے ؟ (محمد مزمل، پربھنی)

جواب:- غیر مسلموں کی خوشی اور غم میں انسانی سماجی رشتہ کے لحاظ سے شریک ہونا درست ؛بلکہ بہتر ہے ، تاکہ ان پراسلام کی فراخ دلی اور مسلمانوں کی خوش اخلاقی کا نقش قائم ہوسکے؛اس لئے غیر مسلموں کی تعزیت بھی کی جاسکتی ہے ،فرق یہ ہے کہ مسلمان کی تعزیت کرتے ہوئے متوفی کے لئے دعاء مغفرت کرنی چاہئے ، غیر مسلم متوفی کے لئے صرف پس ماندگان سے محبت اور تعلق کااظہار کیا جائے ، اہل علم نے غیر مسلم کی تعزیت کے لئے یہ کلمات لکھے ہیں : أصلح اللّٰہ بالک و أخلفک(ہندیہ: ۱؍۱۶۷) ’’ اللہ تمہارے حالات کو بہتر کرے اور بدل عطاء فرمائے‘‘۔

اوقات مکروہہ میں نکاح

سوال:-اوقات مکروہہ ثلاثہ (عند الطلوع والزوال والغروب)میں کیا عقد نکاح کی بھی ممانعت ہے ؟ اگر ہے تو کیسی ہے ؟ ہر دو صورتوں کا جواب بالدلیل عنایت فرمائیں ۔ ( کلیم الدین اشاعتی، حمایت نگر)

جواب:- اوقات مکروہہ میں صرف نماز کی کراہت ہے ، دوسری عبادات اور اذکار مکروہ نہیںہیں؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مروی ہے : یذکر اللّٰہ في کل احیانہ’’آ پ ہر وقت اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے‘‘نکاح کا معاملہ عام عبادات اور اذکارکے مقابلہ میں اس لحاظ سے کم تر ہے کہ یہ خالص عبادت نہیں ہے ؛ بلکہ عقد اور معاملہ بھی ہے ، لہذا ان اوقات میں نکاح کرنا بدرجۂ اولیٰ درست ہوگا ، اور کوئی کراہت نہیں ہوگی ۔

سانپ کو مارنا اور حدیث

سوال:- کیا حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ آدمی سانپ کو دیکھے تو اس پر حملہ نہ کرے ، بلکہ پہلے اس سے خواہش کرے کہ وہ چلا جائے ، اور اس کو حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا حوالہ دے ، ایسے میں تو خطرہ ہے کہ سانپ نکلے ، اور کسی آدمی کو ڈس لے ؟اس کا کیا حکم ہے اور یہ حدیث کس درجہ کی ہے ، نیز اس میں صرف دو پیغمبروں کے نام کیو ں لیے گئے ہیں ؟( محمد شہباز، کھمم)

جواب : اس سلسلہ میں بعض روایات موجود ہیں ، ترمذی میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے : إذا ظہرت الحیۃ في المسکن فقولوہا إنا نسئلک بعہد نوح ، و بعہد سلیمان بن داؤد أن لا تؤذینا ، فإن عادت فاقتلوہا(ترمذی، حدیث نمبر: ۱۴۵۸) جب رہائشی جگہ میں سانپ نکلے تو اس سے کہو: ہم تم کو حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہمیں تکلیف نہ پہنچاؤ ، اگراس کے باوجود دوبارہ آئے تو اسے مار ڈالو ۔

زیادہ تر شارحین کے یہاں یہ حکم بطورِ استحباب کے ہے ، اور قاضی ابو الحسن ماوردیؒ ، اورقاضی عیاضؒ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ خاص مدینہ کے سانپ کے لیے ہے ، نیز بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ منسوخ ہے ، اصل میں اللہ تعالیٰ نے جنوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ سانپ یا کسی اور مخلوق کی صورت اختیار کرلیں ؛ اس لیے احتیاطا یہ حکم دیا گیا ہے ، اگر سانپ حملہ کرے ، یا اندازہ ہو کہ یہ پہلے سے یہاں بسیرا کئے ہوئے ہے ، یا خطرہ ہو کہ کسی کو ڈس سکتا ہے ،تو اس کو متنبّہ کیے بغیر مار ڈالا جائے تو حرج نہیں ، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا حوالہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ مخلوقاتِ عالم کی نسلوں کو باقی رکھنے کے لیے کشتیٔ نوح علیہ السلام میں ہر جانور کا جوڑا رکھا گیا تھا ، گویا وہ تمام مخلوقات کے محسن ہیں ، اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام مخلوق پر حکومت عطا فرمائی گئی تھی ، انسانوں پر بھی اور جنوں پر بھی ، —- اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن ، یعنی معتبر قرار دیا ہے ؛ لیکن اس میں ایک راوی قاضی عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ آئے ہیں ، جن پربہت سے محدثین کوکلام ہے ؛ اس لیے بہت سے اہلِ علم اس روایت کو معتبر نہیں مانتے ۔

Comments are closed.