نگینے لوگ

 

معصوم مرادآبادی

 

سرکردہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور فن کاروں پر تعزیتی مضامین لکھتے لکھتے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے ہم عصروں پر بھی کچھ لکھا جائے۔ہمارے یہاں عام رواج یہ ہے کہ کسی فن کار کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے لیے اس کے مرحوم ہونے کا انتظارکیا جاتا ہے۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ معروضی انداز میں کسی زندہ جاوید علمی یا ادبی شخصیت کے کارناموں کواحاطہ تحریر میں لایا جائے۔ حالانکہ ادب وصحافت کی دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جواپنی زندگی ہی میں اپنے اوپر ضخیم کتابیں اور خصوصی شمارے اس خوف سے شائع کروالیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی ان کو پوچھے یا نہ پوچھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کا کام اس لائق ہے کہ اسے مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جائے تو اسے لوگ یاد بھی رکھتے ہیں اور اس کے کارناموں کا بیان بھی دیر تک ہوتا ہے۔ خاکسار کی بالکل تازہ کتاب کا نام ہے ” نگینے لوگ”

اور اس میں جن لوگوں کے خاکے شامل ہیں، وہ سب الحمدللہ بقید حیات ہیں۔ کچھ زندگی کے آخری پڑاؤ پر ہیں اور کچھ درمیانی منزل میں۔ خدا سب کو تادیر سلامت رکھے۔ میں نے اس قسم کے مضامین کی شروعات اپنے ان کرم فرماؤں سے کی تھی جنھوں نے میرے ذہن وشعور پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ان پر لکھتے وقت عقیدت واحترام کا جذبہ حاوی ہے، تاہم میں نے حالیہ عرصے میں جب اپنے کچھ بے تکلف دوستوں کے خاکے لکھے تو ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ ان خاکوں کے جس پہلو نے قارئین کو متاثر کیا،وہ ان کا طنزیہ اور مزاحیہ انداز تھا۔

شاہد احمد دہلوی نے جگر مرادآبادی کے خاکے کا آغاز اس جملے سے کیا ہے کہ ”بعض چہرے بڑے دھوکہ باز ہوتے ہیں۔“ یہ شاہد احمد دہلوی جیسے بڑے خاکہ نگار کا حق تھا، مگر آپ موجودہ دور میں ایسی ’لبرٹی‘نہیں لے سکتے، کیونکہ آج کا دور خودپسندی کا دور ہے۔ میں نے پہلا طنزیہ اور مزاحیہ خاکہ برادرم تحسین منور کا لکھا تھا، جن کی شخصیت میں بڑی رنگارنگی ہے۔ اس خاکہ کو مقبولیت حاصل ہوئی تو میرا حوصلہ بڑھا۔ اس طرح میں نے طنزیہ اور مزاحیہ خاکے لکھنے کی طرف قدم بڑھایا اور یکے بعد دیگرے کئی دوستوں کے خاکے لکھے۔ اندیشہ یہی تھا کہ کہیں وہ برا نہ مان جائیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اورمیرے معزز قارئین نے ان خاکوں کی داد دی۔ ابھی یہ دلچسپ سلسلہ جاری ہی تھا کہ برادرم اطہرفاروقی کی صدا آئی کہ وہ ان خاکوں کو انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک خوشگوار پیشکش تھی، کیونکہ اردو کا مسئلہ یہ ہے کہ کتابیں لکھ کر خود ہی چھاپنی پڑتی ہیں۔اردو میں اچھی کتابوں کو بھی اچھے ناشر میسر نہیں آتے جس کی وجہ سے کتابوں کی رسائی اچھے اور سچے قارئین تک نہیں ہوپاتی۔

اس کتاب میں شامل کچھ خاکوں پرعقیدت کی چھاپ ہے تو کچھ پر بے تکلفی کا سایہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں میں نے قریب سے دیکھا اور جانا۔ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو میری شہ رگ کے قریب رہے ہیں۔اس کتاب میں جہاں ایک طرف پروفیسر اخترالواسع، م۔افضل، ڈاکٹر خاور ہاشمی،پروفیسر شافع قدوائی، ڈاکٹر حسن احمد نظامی، پروفیسر شہپر رسول، جلال الدین اسلم، عظیم اختر، محمود سعید بلالی،ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی اور عارف عزیز کے خاکے سنجیدہ پیرائے میں لکھے گئے ہیں تو وہیں برادرم اطہرفاروقی، ندیم صدیقی، سہیل وحید، حسن ضیاء، حقانی القاسمی، تحسین منور اورحکیم سید احمد خاں کے خاکوں کا رنگ مکمل طورپر طنزیہ اور مزاحیہ ہے۔ آخر میں اظہرعنائتی، پاپولر میرٹھی، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، ڈاکٹر طارق منظور، شکیل رشید اور معین شاداب کے وہ خاکے ہیں جو ان کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وجود میں آئے ہیں۔ان میں سنجیدگی اور مزاح دونوں کا عنصر شامل ہے۔ مقدمہ پروفیسر غضنفر علی نے لکھا ہے۔

ان خاکوں کے بارے میں کوئی دعویٰ اس لیے نہیں کرسکتا کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ بلاشبہ یہ وہ میدان ہے جس میں علم وادب کی نابغہ روزگار ہستیوں نے اپنے قلم کے جوہردکھائے ہیں۔میں نے ان خاکوں کو لکھتے وقت نہ تو خاکہ نگاری کے فن کا مطالعہ کیا اور نہ ہی خاکہ لکھنے کے آداب سیکھے۔یوں بھی میں اپنی بیشتر تحریریں کسی بندش کے بغیر لکھتا ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑا سرمایہ قارئین کی وہ محبت اور وارفتگی ہے جو مجھے اپنی تحریروں کے جواب میں ملتی ہے۔ ایک نوآموز خاکہ نگارکے لکھے ہوئے خاکوں کی یہ تازہ کتاب اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ آپ کے روبرو ہے۔اگر آپ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں 9810780563۔ دوسو صفحات کی اس کتاب کی قیمت نہایت مناسب یعنی صرف 250 روپے ہے۔

Comments are closed.