کتابوں کے درمیان

پٹنہ یونیورسٹی میں فارسی تحقیق- تعارف وتجزیہ

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ ،پٹنہ

ڈاکٹر محمد رضوان اللہ آر وی ولادت 12 مئی 1959 بن حافظ بشیر احمد مرحوم حال مقیم گلشن کالونی شاہ گنج مہندرو پٹنہ کا شمار ہمارے عہد کے ان محققین میں ہوتا ہے جو فارسی زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، ڈوب کر مطالعہ کرتے ہیں، کچھ لکھتے ہیں تو ان کے مطالعہ کا عکس ان کی تصنیفات میں جھلکتا نہیں چھلکتا ہے، اس دور میں جب لکھنے والے دوسروں کے مضامین جمع کر کے مصنف، مرتب، مؤلف بن رہے ہیں قینچی اور پسٹنگ کے ذریعے تحقیقی مقالہ مکمل کیا جا رہا ہے اور ڈگری ایوارڈ ہو رہی ہے، اس دور میں بھی ڈاکٹر رضوان اللہ آروی کو یہ فن نہیں آتا،ان کی 17 /کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں جن میں بیشتر کے موضوعات فارسی ادب اور فارسی کے شعرائے کرام ہیں، ان کتابوں میں تحقیق بھی ہے تنقید بھی، راست مطالعہ اور حاصل مطالعہ کو انہوں نے کتابوں میں جمع کر دیا ہے، ان کی کتابیں ان کے تجزیاتی مطالعہ کا پر تو اور عکس جمیل ہیں انہوں نے عظیم آباد کے فارسی اساتذہ کو زندہ کرنے کے لیے دوضخیم جلدیں لکھ ڈالیں، گو دوسری جلد کو انہوں نے ضمیمہ قرار دیا ہے؛ لیکن وہ اصلاً عظیم آباد کے فارسی اساتذہ کی دوسری جلد ہے اور اس موضوع پر پہلی کتاب ہے، الگ الگ جگہوں پر ان اساتذہ کے تذکرے دستیاب ضرور ہیں لیکن یکجا طور پر انہیں زندہ کرنا ان کا کام نہیں، کارنامہ ہے۔

ڈاکٹر رضوان اللہ آروی کاذہن اختراعی ہے وہ نئے نئے موضوع پر سوچتے رہتے ہیں انہوں نے معروف افسانہ نگار احمد یوسف کے مقالہ ”پٹنہ یونیورسٹی کے اردو ٹھیس کا جائزہ“ غیر مطبوعہ سے تحریک پا کر پٹنہ یونیورسٹی میں فارسی تحقیق، تعارف و تجزیہ کے عنوان پر تفصیلی اور ضخیم کتاب تیار کر دی اور اس کو چھپوانے میں بھی کامیاب ہو گئے شان پرنٹرس دہلی 6 کے مطبع سے چھپی اس کتاب کا نا شر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ہے، جو معیاری طباعت کے لیے مشہور ہے کاغذ عمدہ ہے، ہارڈ بائنڈنگ، دیدہ زیب ڈبل سرورق کے ساتھ اس کتاب کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے جو یقینا طباعت، بائنڈنگ، کمپوزنگ وغیرہ پر آنے والے اخراجات کے پیش نظر زیادہ نہیں ہے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بک سیلروں کو نصف کمیشن بھی دینا پڑتا ہے اور بہت ساری کتابیں اہل علم تک مفت بھی پہنچانی پڑتی ہیں یہ میری رائے ہے، بقیہ کسی کی قوت خرید کمزور ہو تو اس کا مصنف کے پاس کوئی علاج نہیں ہے، ملنے کے پتے 14 ہیں؛ لیکن سب کو نقل کرنا ممکن نہیں،اگر آپ پٹنہ میں رہتے ہیں تو دور جانے کی ضرورت نہیں سبزی باغ میں بک امپوریم پر چلے جائیے اور وہاں سے خرید کر مطالعہ کیجئے لائبریری کی زینت بنائیے۔

اصل کتاب صفحہ نمبر۱۱/ سے شروع ہوتی ہے اور صفحہ نمبر360 پر جاکر ختم ہوتی ہے، کتاب کا انتساب نانا کے نام ہے، پھر فہرست مضامین ہے، کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، مصنف نے اسے تین زمروں سے تعبیر کیا ہے، باب کا عنوان نہیں لگایا ہے،پہلا زمرہ ایران کا فارسی ادب ہے، جس میں پچیس (25)تحقیقی مقالہ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے، دوسرے زمرہ میں ہندوستان کا فارسی ادب ہے، اس زمرہ میں بتیس (32)مقالوں پر گفتگو کی گئی ہے، تیسرا زمرہ بہار کا فارسی ادب ہے، جس میں چھتیس (36) مقالوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے، اس طرح پٹنہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے لکھے گیے تراسی (80) مقالے کا مطالعہ پیش کرنے میں مصنف نے کامیابی حاصل کی ہے، ان مقالوں تک رسائی اور اس کا مطالعہ دقت طلب بھی تھا اور وقت طلب بھی، مصنف نے اس خارزار وادی کو عبور کرنے میں اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے، شروع میں مصنف نے وجہ تالیف پر روشنی ڈالی ہے اور انتہائی تواضع وانکساری کے ساتھ اس کا عنوان ”اپنا اس حرف وحکایات میں ہنر کچھ بھی نہیں“ رکھا ہے، سات صفحات پر مشتمل مقدمہ نما اس تحریر میں وجہ تالیف کے ساتھ دشواریوں رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو قارئین کو آگے پڑھنے پر اکساتا ہے، مصنف کو اس کا قلق ہے کہ کھوئے ہوئے کی جستجو کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی رسائی احوال وآثار ملاسعید اشرف وتصحیح مثنویہائے او (ڈاکٹر محمد صدیق) تصحیح معراج الخیال وزیر علی عبرتی مع احوال و آثار (ڈاکٹر سید محمود عالم) اور مرزا فاخر مکیں ایک جائزہ انشاء نگاری وشعر گوئی او (ڈاکٹر خادم شاہدہ خانم)تک نہیں ہو سکی،حالاں کہ ان تینوں مقالات کا تذکرہ پروفیسر عابد حسین صاحب کی مرتب کردہ فہرست میں شامل ہے پٹنہ یونیورسٹی میں 2021 تک شعبہ فارسی میں جو مقالے لکھے گئے ان کا تعارف و تجزیہ اس کتاب میں آگیا ہے، ڈاکٹر صاحب نے تمام مقالات کے تعارف وتجزیہ میں مقالات کے ابواب کو نقل کیا ہے، پھر ہر باب کے مندرجات کا جائزہ لیا ہے، اس تعارف میں مقالہ نگار کا تعارف نہیں ہوپایا ہے، کتاب کے مندرجات میں اگر ایک دو پیراگراف میں مقالہ نگاروں کا تعارف بھی درج ہوتا تو قاری مقالہ نگاروں کی شخصیت تک بھی رسائی حاصل کرپاتے، یہ کمی اس کتاب میں کھٹکتی ہے۔

ڈاکٹر رضوان اللہ آروی علمی موضوعات پر لکھتے وقت صاف شستہ اور تنقید کرتے وقت شائستہ زبان کا استعمال کرتے ہیں، ان کی تحریروں میں زولیدگی، تعقید لفظی ومعنوی کا گذر نہیں ہوتا، اس لیے قاری کے ذہن پر ان کی تحریریں بار نہیں ہوتیں اور پڑھنے میں مزہ آتا ہے تحقیق، تنقید، تعارف، تجزیے سب کا۔

 

 

Comments are closed.