بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی: مودی پر تنقید اور اندرا گاندھی کی ستائش کیوں؟

ازقلم : ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ جنگ بندی نے نہ صرف سرحدوں پر وقتی سکوت طاری کیا ہے، بلکہ ملک کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں ایک ایسی بحث کا طوفان بھی برپا کر دیا ہے جس کی لہریں بھارت کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ایوانوں تک محسوس کی جا رہی ہیں۔ جنگ کا عارضی التوا بلاشبہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے، تاہم جس انداز سے یہ معاہدہ طے پایا اور اس میں ایک تیسرے فریق کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا، وہ بھارت کی روایتی خودمختارانہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ صورتحال ناگزیر طور پر ماضی کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے، خصوصاً جب اندرا گاندھی کی آہنی قیادت میں 1971ء کی جنگ لڑی گئی، جس نے نہ صرف پاکستان کو دو لخت کیا بلکہ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نئے ملک کو جنم دے کر خطے کا جغرافیہ بدل ڈالا۔ آج، اسی تاریخی آئینے میں جب موجودہ نریندر مودی حکومت کی سفارتی حکمت عملی کو پرکھا جاتا ہے تو اسے کئی حلقوں میں ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، جبکہ اندرا گاندھی کی سیاسی بصیرت، جرات مندانہ قیادت اور عالمی طاقتوں کے سامنے خم نہ ہونے والی استقامت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
حالیہ جنگ بندی کا اعلان بھارت اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز (DGMOs) کی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ تاہم، اس سارے عمل میں جو پہلو سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے، وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ دعویٰ ہے جس میں انہوں نے نہ صرف اس جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ان کی حکومت کی ثالثی نے ہی اس "ناممکن” کو ممکن بنایا ہے۔ یہ صورتحال بھارت کی اس دیرینہ اور واضح پالیسی سے صریح انحراف ہے جس کے تحت وہ دوطرفہ تنازعات میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت یا ثالثی کو کبھی قبول نہیں کرتا رہا۔ موجودہ مودی حکومت کا اس ثالثی کو قبول کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے: کیا یہ ایک مصلحت آمیز سمجھوتہ ہے، کیا یہ عالمی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے، یا پھر حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جنگ بندی خود حکومت کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے تاکہ کسی بیرونی ثالثی کے پردے میں "عزت بچانے” کا کوئی راستہ نکالا جا سکے، اور یہ تاثر دیا جا سکے کہ فیصلہ بیرونی دباؤ کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ شاید دونوں ممالک ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار نہ تھے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں مبینہ "دہشت گردی کے ٹھکانوں” کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا، مگر پاکستان کی جانب سے غیر متوقع اور بھرپور جواب نے تنازع کو ایک نئی اور خطرناک نہج پر پہنچا دیا۔ جب جنگ بندی قبول کی گئی، تو یہ سوال شدت سے پوچھا جانے لگا کہ اگر مودی حکومت کے مقاصد اتنے ہی محدود تھے، تو پھر وہ فلک شگاف نعرے اور بلند بانگ دعوے کیوں کیے گئے جنہوں نے عوام، بالخصوص ان کے حامیوں کی توقعات کو آسمان تک پہنچا دیا تھا کہ بھارتPOK پر بھی قبضہ کرنے جا رہا ہے؟ اس صورتحال نے خود مودی کے پرجوش حامیوں میں بھی مایوسی اور ایک طرح کے "فریب خوردگی” کے احساس کو جنم دیا ہے۔
تیسرے ملک کی مداخلت کا یہ کھلا اعتراف، بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا دھچکا اور سفارتی پسپائی تصور کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں کارگل تنازع کا اختتام بھی ثالثی کے ذریعے ہوا تھا، لیکن وہ تمام کارروائی پس پردہ چینلز (Back-Channel Diplomacy) کے ذریعے ہوئی تھی، نہ کہ اس طرح کھلے عام اورپبلک ڈومین میں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا نہ صرف جنگ بندی کا اعلان کرنا بلکہ کشمیر کے مسئلے پر بھی دونوں ممالک کے مابین ثالثی کی پیشکش کرنا، اس معاملے کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ کشمیر، بھارت کے لیے ایک انتہائی حساس قومی مسئلہ ہے اور اس پر کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کو ہمیشہ سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔
موجودہ نریندر مودی حکومت کی حکمت عملی پر متعدد پہلوؤں سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سب سے نمایاں نکتہ تیسرے فریق کی ثالثی کا قبول کرنا ہے، جسے بھارت کی دہائیوں پر محیط خارجہ پالیسی سے انحراف اور عالمی طاقتوں کے سامنے جھکنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، پلوامہ اور پہلگام جیسے حملوں میں انٹیلی جنس کی ناکامیوں کا اعتراف تو کیا گیا، لیکن ذمہ داری قبول کرنے اور احتساب کا وہ معیار نظر نہیں آیا جو ماضی میں دیکھا گیا تھا۔ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ 26/11 ممبئی حملوں کے بعد اُس وقت کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا، جبکہ موجودہ دور میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کی گئی۔ حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پلوامہ حملے اور اس کے بعد کی فوجی کارروائیوں کو سیاسی مقاصد اور انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا، جو قومی سلامتی کے معاملات کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے۔
عسکری تیاریوں کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، 2014ء کے بعد سے روایتی جنگ یا سرحد پار محدود کارروائیوں کے لیے ویسی سنجیدہ تیاری نہیں کی گئی جیسی متوقع تھی، اور فوج کی توجہ زیادہ تر اندرونی شورش اور دہشت گردی سے نمٹنے پر مرکوز رہی۔ ٹیکنالوجی کی جدت طرازی اور جدید جنگی ساز و سامان کی فراہمی میں بھی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بعض ناقدین اس جنگ بندی کو "گھٹنوں کے بل آنا” (Coming to Knees) سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بھارت کی نہیں بلکہ مودی حکومت کی پسپائی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ میں کشمیر پر ثالثی کی بات کو اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ شاید مودی حکومت نے امریکی صدر کے پاس کچھ "گروی” رکھ دیا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں عوام، بالخصوص وہ طبقہ جو حکومت سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھا، خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
اس کے برعکس، جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو اندرا گاندھی کی قیادت میں 1971ء کی جنگ ایک عظیم الشان کامیابی کی داستان سناتی ہے۔ یہ محض ایک جنگی فتح نہ تھی، بلکہ ایک ایسی فیصلہ کن کامیابی تھی جس نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نئے ملک کو جنم دیا۔ یہ عالمی تاریخ کا ایک نادر واقعہ تھا جہاں کسی ملک کو اس طرح شکست دے کر اس کا جغرافیہ تبدیل کیا گیا۔ اُس وقت بھارت کی معاشی اور فوجی طاقت شاید آج جیسی مضبوط نہ تھی، امریکہ کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا اور اس نے بھارت کو دھمکانے کے لیے اپنا ساتواں بحری بیڑا بھی خلیج بنگال میں بھیج دیا تھا۔ لیکن اندرا گاندھی نے امریکی صدر نکسن کے دباؤ کے آگے جھکنے سے صاف انکار کر دیا، حتیٰ کہ ان کا فون تک سننے سے گریز کیا۔ یہ ان کی مضبوط قیادت، سیاسی بصیرت اور فولادی عزم کا مظہر تھا۔ انہوں نے نہ صرف صورتحال کا درست ادراک کیا بلکہ فوجی سربراہان پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ان کے مشوروں کو اہمیت دی اور فیصلہ کن اقدامات اٹھائے۔ جنگ کے بعد پاکستان کے ساتھ طے پانے والا شملہ معاہدہ بھی اندرا گاندھی کی سفارتی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر طے پایا اور جس میں واضح کیا گیا کہ تمام تنازعات، بشمول کشمیر، دوطرفہ بات چیت کے ذریعے ہی حل کیے جائیں گے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
موجودہ صورتحال کا 1971ء سے موازنہ کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُس وقت بھارت ایک مضبوط اور خود اعتماد قوم کے طور پر عالمی منظر نامے پر ابھرا تھا، اور اندرا گاندھی نے کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قومی مفاد کو مقدم رکھا تھا۔ اس کے برعکس، حالیہ جنگ بندی میں تیسرے فریق کی کھلم کھلا مداخلت کو مودی حکومت کی کمزوری اور خارجہ پالیسی میں ایک واضح ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مودی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے بلند بانگ دعوے تو بہت کیے لیکن جب عملی اقدام کا وقت آیا تو وہ یا تو پیچھے ہٹ گئے یا بیرونی دباؤ کے سامنے جھک گئے۔ جبکہ اندرا گاندھی نے کم گوئی سے کام لیتے ہوئے ایک ایسی تاریخی کامیابی حاصل کی جس نے خطے کا نقشہ بدل دیا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقوں اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں کا معاملہ بھی دونوں ادوار کے موازنے میں اہمیت رکھتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سرجیکل سٹرائیک اور بالاکوٹ حملوں جیسے اقدامات کے باوجود اگر دہشت گردی کے واقعات نہیں رکے، تو کیا یہ جنگ بندی اس عفریت پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو گی؟ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اندرا گاندھی کے دور میں، بھارت نسبتاً کم طاقتور ہونے کے باوجود، قومی وقار اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
مجموعی طور پر، حالیہ جنگ بندی کو بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک دھچکا اور اس کی روایتی پوزیشن سے انحراف قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ، خصوصاً کشمیر کے مسئلے پر، بھارت کے دیرینہ موقف کے صریحاً خلاف ہے اور اسے گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کا شملہ معاہدے سے انحراف بھی صورتحال کی پیچیدگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اگرچہ کچھ ماہرین بات چیت اور مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مذاکرات کن شرائط پر اور کس کی ثالثی میں ہوں گے، خصوصاً جب ایک بار ثالثی کے دروازے کھول دیے گئے ہوں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ جنگ بندی نے مودی حکومت کی سفارتی حکمت عملی، قومی سلامتی کے امور سے نمٹنے کی صلاحیت اور عالمی سطح پر بھارت کے وقار پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ تیسرے فریق کی مداخلت کا قبول عام، انٹیلی جنس کی مبینہ ناکامیاں، اور احتساب کے فقدان جیسے عوامل نے عوامی سطح پر مایوسی اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جو عوام اور مبصرین کو اندرا گاندھی کی 1971ء کی فیصلہ کن قیادت کی یاد دلا رہا ہے، جب انہوں نے عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف ایک تاریخی فتح حاصل کی بلکہ بھارت کا سر فخر سے بلند کیا۔ اسی لیے، آج جہاں مودی حکومت پر تنقید کے نشتر برس رہے ہیں، وہیں اندرا گاندھی کی سیاسی بصیرت، جرات اور قومی حمیت کو سراہا جا رہا ہے، کیونکہ موجودہ سمجھوتے نے بھارت کی روایتی طاقت اور خودمختاری کے تصور کو کسی حد تک مجروح کیا ہے۔
Comments are closed.