اپنا دفاع—اسلامی تعلیم، ملکی قانون اور وقت کے تناظر میں

 

تحریر: مولانا آفتاب اظہر صدیقی

کشن گنج بہار

 

آج ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ داڑھی، ٹوپی، مسلم نام، نماز کی پہچان، قرآن سے محبت، سنت پر عمل اور حلال روزی کی کوشش — ان تمام چیزوں کو آج ٹارگٹ بنایا جارہا ہے۔ ٹرین کے ڈبے سے لے کر گاؤں کی گلیوں تک، مسلمانوں کو صرف ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ پڑھ کر، دیکھ کر، سن کر مسلمانوں کا دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمان خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا، خود کا دفاع کرنا، اور دفاع کے لیے اقدام کرنا ہر دور کی ضرورت اور دینی فریضہ ہے۔

 

اسلام کا پیغام: ظلم برداشت نہ کرو، دفاع کرو!

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولٰئِكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ”

“اور جس نے ظلم کے بعد بدلہ لیا، تو ایسے لوگوں پر (ملامت کا) کوئی راستہ نہیں”

(سورۃ الشوریٰ: 41)

 

یعنی اگر کوئی شخص اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا منہ توڑ جواب دیتا ہے، تو شریعت اسے الزام نہیں دیتی؛ بلکہ اس کے دفاع کو جائز اور بعض صورتوں میں فرض قرار دیتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"جو شخص اپنے آپ کو ذلت میں ڈالے، ہم اس کی مدد نہیں کریں گے۔”

یعنی عزت و غیرت کے ساتھ جینا، دفاع کرنا، خود کو مضبوط بنانا مسلمان کی فطرت ہونی چاہیے۔

 

*ہندوستانی قانون بھی دیتا ہے حقِ دفاع*

ہمارا ہندوستانی قانون، جو کہ دنیا کے بہترین آئینوں میں شمار ہوتا ہے، آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ہر شہری کو زندگی اور ذاتی آزادی کا حق دیتا ہے۔

اسی طرح آئی پی سی (IPC) کی دفعہ 96 سے 106 تک میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ

:

"اگر کسی شخص کی جان، جسم، عزت یا مال کو فوری خطرہ ہو، تو وہ شخص دفاع میں طاقت کا استعمال کر سکتا ہے — یہاں تک کہ اگر اس دفاع میں حملہ آور کی جان بھی چلی جائے تو وہ جرم نہیں سمجھا جائے گا۔

مثال:

اگر کوئی حملہ آور جان سے مارنے یا اغوا کرنے آئے، تو IPC کی دفعہ 100 کے تحت آپ اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچانے کے لیے اس پر جان لیوا وار کر سکتے ہیں۔

اگر کوئی دکان لوٹنے، جلا دینے یا سامان کو برباد کرنے آئے، تو دفعہ 103 کے تحت دفاع کا حق حاصل ہے۔

 

*حالات حاضرہ: کیا کریں مسلمان؟*

آج جب کہ پھیری والے بھائیوں کو مارا جا رہا ہے، دکانوں پر حملے ہو رہے ہیں اور صرف داڑھی رکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے — تو کیا مسلمان صرف سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرے؟

نہیں!

مسلمان کو چاہیے کہ:

 

(1) قانون کا علم حاصل کرے — ہر مسلمان نوجوان کو IPC کی دفعہ 96 سے 106 تک یاد ہونی چاہیے۔

(2) Self Defence

یعنی اپنے بچاؤ کی تربیت حاصل کرے — کراٹے، سیلف ڈیفنس، مارشل آرٹ جیسے ہنر وقت کی ضرورت ہیں۔

 

(3) قانونی ٹیم تیار کرے — ہر علاقے میں وکیلوں، سوشل ورکرز اور تحفظ کرنے والوں کی ٹیم ہونی چاہیے۔

 

(4) ظلم کی ویڈیو ثبوت کے ساتھ ریکارڈ کرے اور تھانے یا عدالت میں کیس کرے۔

 

(5) ڈرنے کے بجائے ڈٹ کر کھڑا ہو — ہر گاؤں، قصبے، اور شہر میں خوددار نوجوان سامنے آئیں، جو اپنی عزت اور قوم کی عزت کے محافظ بنیں۔

 

حضور اکرم ﷺ کا اسوہ

نبی کریم ﷺ نے صلح، حلم، اور صبر کا پیغام دیا — لیکن ساتھ ہی غزوہ بدر، احد، خندق جیسے موقعوں پر دفاع کا بہترین عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔ آپ نے فرمایا:

"المؤمن القوي خیر وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف”

"طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔”

لہٰذا طاقت، دفاع، اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت مؤمن کی شان ہونی چاہیے۔

آج کے مسلمانوں کو اگر عزت کے ساتھ جینا ہے تو:

اپنے دینی حق دفاع کو سمجھنا ہوگا؛

قانونی تحفظ کا شعور پیدا کرنا ہوگا؛

خاموشی چھوڑ کر میدان میں اترنا ہوگا اور اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کا قانونی، ذہنی، اور جسمانی دفاع کرنا ہوگا۔

 

یہ وقت بیداری کا ہے، کمزوری اور خاموشی کا نہیں۔

اب ظلم سہنا نہیں، ظلم کو اپنے مضبوط پنجوں سے روکنا ہوگا۔

 

یاد رکھیں:

جو ظالم کے خلاف نہیں بولتا، وہ ظالم کا مددگار سمجھا جاتا ہے۔

Comments are closed.