جب عقیدت میں غلو ہو تب ایمان لرزنے لگتا ہے

حافظ محمد شعیب
خادم مدرسہ عمرفاروق پرسونی جگدیش پور
عقیدت ایک خوشبودار چراغ ہے جو دل کی تاریک راتوں میں روشنی کرتا ہے۔ یہ وہ نرم ہوا ہے جو روح کو سکون دیتی ہے، آنکھوں میں سرشاری بھرتی ہے، اور دل میں ایک غیر مرئی نسبت کو جگاتی ہے۔ مگر جب یہی عقیدت حدود سے تجاوز کر جائے، جب وہ شعور کی جگہ جذبات کی حکمرانی میں آ جائے، جب وہ ادب کو عبادت کا رنگ دے دے، تب وہ چراغ چراغ نہیں رہتا، شعلہ بن جاتا ہے — ایسا شعلہ جو دین کے خوشنما پردے کو جھلسا دیتا ہے۔
جب عقیدت میں غلو ہوتا ہے تب محبت تعقل سے خالی ہو جاتی ہے، تب عقیدت پرست مرید، محبت کا لبادہ اوڑھ کر حقیقت سے دور، خرافات کے جنگل میں بھٹکنے لگتا ہے۔
غلو ایک ایسا سراب ہے جسے عقیدت کا آبِ حیات سمجھا جاتا ہے، مگر وہ روح کو گمراہی کے لق و دق صحرا میں لے جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پیر کے لئے جھکنا عبادت بن جاتا ہے، اس کی زبان سے نکلے ہر لفظ کو شریعت سے بالا مانا جاتا ہے، اور اس کی خاموشی کو تقدس کی چادر اوڑھا دی جاتی ہے۔
یاد رکھیے، محبت اگر عقل کی رہنمائی سے محروم ہو جائے تو وہ شرک کی سیڑھی بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب کون؟ مگر صحابہ کرام نے کبھی آپ کے نقشِ قدم کو سجدہ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے، تعظیم اپنی جگہ، مگر عبادت صرف اللہ کی۔ ان کا ادب، اعتدال کا آئینہ تھا، اور ان کی محبت حدودِ شریعت میں پروئی ہوئی تھی۔
جب عقیدت میں غلو ہوتا ہے تب لوگ پیر کے ہاتھ چومتے چومتے اس کے ہاتھوں سے تقدیر مانگنے لگتے ہیں۔ تب وہ کلماتِ شرعیہ کے بجائے بزرگوں کے قصے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اور تب دین سادگی سے نکل کر کرشماتی مجسموں، ملفوظات اور کرامات کی دنیا میں قید ہو جاتا ہے۔
پھر ایک نسل پیدا ہوتی ہے جو قرآن کو ثواب کے لیے پڑھتی ہے اور پیر کی تصویر کو حاجت روائی کے لیے دیوار پر ٹانگ دیتی ہے۔ ایک قوم جنم لیتی ہے جو دین کے حقیقی ورثے کی بجائے خوابوں، بشارتوں اور خود ساختہ نسبتوں کو دین سمجھ بیٹھتی ہے۔
اس لمحے عقیدت زہر بن جاتی ہے — مٹھاس سے بھرا ہوا، مسکراتا ہوا، مگر جان لیوا۔ پیر کی مسندِ محبت، مسندِ الوہیت بن جاتی ہے۔ اور جو کوئی اس غلو پر سوال اٹھائے، وہ گستاخ، وہ بے ادب، وہ مردود قرار پاتا ہے۔
اس لیے عقیدت کی آنکھوں کو عقل کے کنگن پہنانے ہوں گے۔ محبت کے پاؤں کو شریعت کی زنجیر میں باندھنا ہو گا۔ ورنہ دین کے خالص چشمے میں عقیدت کا زنگ اتنا گہرا ہو جائے گا کہ حق و باطل کے درمیان لکیر مٹ جائے گی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ محبت کو عدل کے ترازو میں تولا جائے۔ پیر سے محبت ضرور کیجیے، اس کی خدمت کیجیے، اس سے نسبت رکھیے، مگر اس کے قدموں کو سجدہ نہ بنائیے۔ اس کے اشارے کو قرآن کی آیت نہ سمجھیے، اور اس کی خاموشی کو وحی کا مترادف نہ بنائیے۔
کیونکہ جب عقیدت میں غلو ہو تب… ایمان لرزنے لگتا ہے، دین بگڑنے لگتا ہے، اور امت اندھوں کے قافلے کی طرح ویران راستوں پر چل پڑتی ہے۔
Comments are closed.