امریکی صدر کا ٹیرف وار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ان دنوں ٹیرف لگانے کے حوالہ سے سرخیوں میں ہیں، ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ٹرمپ سے دوستی کا دم بھرتے رہے ہیں، لیکن اس معاملہ میں ہندوستان پر بھی 26% فی صد ٹیرف لگاکر امریکی صدر نے بتا دیا ہے کہ ہمیں دوستی نہیں، امریکہ کا مفاد ملحوظ ہے، اس لیے ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں، حالاں کہ امریکہ ہندوستان کا اہم تجارتی پارٹنر ہے، ان کے درمیان کم وبیش ایک سو نوے (190) بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ تقریباً پچاس (50) بلین ڈالر ہے، امریکی صدر ہر روز ٹیرف میں اضافہ کررہے ہیں، موجودہ وقت میں امریکہ، چین کے ساتھ 582 بلین کی تجارت کرتا ہے، جب کہ امریکہ 143 بلین ڈالر کے سامان چین کو سپلائی کرتا ہے، اس ٹیرف وار کی وجہ سے امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی نقصان 295 بلین ڈالر کا ہو سکتا ہے، دو معاشی طورپر مضبوط ملک ٹیرف، ٹیرف کھیل رہے ہیں اور عالمی منڈی میں ہاہاکار مچا ہوا ہے، حصص (شیرز) کے دام میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے، کبھی حصص کے دام بڑھ جاتے ہیں اور کبھی اوندھے منہ قیمتیں گرجاتی ہیں، ہندوستان پر اس کا اثر کم ہوا ہے، لیکن عالمی منڈی کو اب بھی سات فی صد تک گراوٹ کا سامنا ہے۔
غیر ملکی مصنوعات کی درآمد اشیاء پر جو محصول اور ٹیکس لگایا جاتا ہے اسے معاشیات کی اصطلاح میں ٹیرف کہتے ہیں، اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں: ایک تو دوسرے ملک سے درآمد مصنوعات پر انحصار کو کم کیا جائے، ٹیرف (محصول) جس قدر زائد ہوں گے، غیرملکی مال پر انحصار کم ہوگا اور مقامی مصنوعات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوگی، ملکی صنعت کو مقابلہ بازی سے تحفظ حاصل ہوگا، عالمی تجارتی بازار میں بہت سارے لوگ ٹیرف کے مخالف ہیں، کیوں کہ درآمد محصولات کے نتیجے میں ملکی باشندوں کو ہی خریداری کے وقت زیر بار ہونا پڑتا ہے اور خریداروں کو مناسب قیمت پر اشیاء کی فراہمی ناممکن ہوجاتی ہے، مودی جی کا ”لوکل فار ووکل“ کا نعرہ اسی بنیاد پر ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی میں اس سے وقتی اضافہ ہوتا ہے، جس کے مضر اثرات بعد میں معیشت پر ظاہر ہوتے ہیں۔
امریکی صدر کی سوچ یہ ہے کہ ٹیرف (محصول/ڈیوٹی) لگانے سے امریکی مصنوعات کی فروخت بڑھے گی اور امریکہ میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، کیوں کہ امریکہ میں بڑی اجرتوں پر کام لیا جاتا ہے، اس لیے وہاں کی مصنوعات مہنگی دروں پر دستیاب ہوا کرتی ہیں اور صارفین کم قیمت پر چیزیں لینا پسند کرتے ہیں جو عموماً دوسرے ممالک کی پیداوار ہوا کرتی ہیں، کیوں کہ اسی چیز کو دوسرے ممالک والے اوسط درجہ ٹکنالوجی اور کم اجرت والے مزدوروں سے تیار کراکر درآمد کرادیتی ہیں، اس معاملہ میں چین سب سے آگے ہے اور اس کی مصنوعات کی منڈیاں عالمی سطح پر ترقی پاچکی ہیں، امریکی صدر کا یہ قدم امریکی معیشت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جب درآمدی اشیاء مہنگی ہوں گی تو وہ صارفین کی خریداری کی صلاحیت کو متاثر کریں گی، طلب کم ہوگا تو فطری طورپر پیداوار گھٹے گی اور سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوگی۔
امریکی صدر کو اس صورت حال کا احساس ہے، اسی لیے نوے (90)دنوں کے لیے انہوں نے ٹیرف پر عمل درآمد کو روک دیا ہے، البتہ ان کا حریف چین اس سے مستثنیٰ ہے، اس پر لگائی گئی ٹیرف (محصولات) پر عمل درآمد جاری رہے گا، چین نے اس جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی مصنوعات کی برآمدگی پر ٹیرف کے ساتھ اٹھارہ امریکی کمپنیوں کو غیرمعتبر قرار دیدیا ہے، ان اٹھارہ میں چھ پر وہ پہلے ہی پابندی لگا چکا تھا، اس نے دوسرا قدم یہ اٹھایا ہے کہ جن الکٹرونک چھوٹے چھوٹے پارٹس کی امریکہ میں بہت کھپت تھی، اس کی برآمدگی کو روک دیا ہے، امریکی صدر کے ذریعہ نوے (90)دن نئے طے شدہ محصولات کو روک دینا، انسائیڈر ٹریڈنگ کے زمرے میں آتا ہے، یہ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ضابطہ کے خلاف ہے، انسائیڈر ٹریڈنگ کا مطلب ہوتا ہے کمپنی سے متعلق خفیہ اور غیرعوامی معلومات کا استعمال کرکے خرید وفروخت کے ذریعہ نفع کمانا ہے، یہ معلومات عوامی نہیں ہوتیں، اس لیے حکومت سے متعلق لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یااپنے قریبی لوگوں کو باخبر کرکے ان کو فائدہ پہونچا سکتے ہیں، اسی لیے باخبر ذرائع کے مطابق یہ امریکی صدر کی چالبازی بھی ہوسکتی ہے تاکہ ان کے حلقوں کو اس سے فائدہ پہونچے، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ 9.30 پر ”ٹروتھ اسپیشل“ پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ شیر خریدنے کا بہترین موقع ہے اور چار گھنٹے بعد ٹیرف پر عمل درآمد کو روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں 9.5 کا اضافہ درج کیا گیا اور چار ٹریلین ڈالر کا مارکیٹ میں اُچھال آیا، ایک ٹریلین دس کھرب کا ہوتا ہے، چار ٹریلین کا مطلب سیدھا سادھا چالیس کھرب ہوتا ہے، گذشتہ چار دنوں میں جن لوگوں نے حصص میں رقم گنوائی تھی وہ ستر فی صد اضافہ کے ساتھ حصص خریدنے والوں کو لوٹ آئی، جن لوگوں نے کم قیمت پر حصص خریدے تھے ان کی تجوریاں بھر گئیں، جن لوگوں نے بازار گرتا دیکھ کر اونے پونے حصص بیچ دیے تھے، ان کا دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا۔
امریکی صدر کے اس رویہ نے پوری دنیا کی مارکیٹ کو ہلاکر رکھ دیا ہے، اس کا خمیازہ دیر سویر امریکہ کو بھگتنا پڑے گا، کیوں کہ دنیا امریکہ پر جاکر ختم نہیں ہوتی، اس کے آگے بھی بہت کچھ ہے۔
Comments are closed.