چین یا پاکستان: بھارت کے لئے اصل خطرہ کون؟

 

ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین

بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات ایک ایسی پیچیدہ گرہ کی مانند ہیں، جسے سلجھانے کے لیے تاریخی بصیرت، سیاسی فہم اور جیو پولیٹیکل شعور کی ضرورت ہے۔ ایک جانب پاکستان کے ساتھ کشمیر کا دیرینہ تنازعہ ہے، جس نے متعدد جنگوں اور مسلسل سرحدی کشیدگی کو جنم دیا۔ دوسری جانب، چین کی بڑھتی ہوئی فوجی، اقتصادی اور سفارتی طاقت بھارت کے لیے ایک عظیم چیلنج بن کر ابھری ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو اصل خطرہ کس سے ہے؟ کیا وہ پاکستان ہے، جو برسوں سے اس کا حریف رہا، یا چین، جو عالمی طاقت کے طور پر اپنا مقام مستحکم کر رہا ہے؟ جدید اعداد و شمار اور گہری تحقیق کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بھارت کو سب سے بڑا خطرہ چین سے ہے، جبکہ پاکستان اس تناظر میں زیادہ تر چین کی پراکسی کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے۔ اس لیے بھارت کو اپنی دفاعی اور سفارتی حکمت عملی کو چین کے خلاف مرکوز کرنا ہوگا، جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھی دانشمندی سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

 

بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی جڑیں 1947 کی تقسیم ہند سے ملتی ہیں، جب کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل زخم بن گیا۔ اس تنازعہ نے 1947-48 کی پہلی کشمیر جنگ، 1965 کی دوسری کشمیر جنگ، 1971 کی بنگلہ دیش آزادی کی جنگ، اور 1999 کی کارگل جنگ کو جنم دیا۔ 1947-48 کی جنگ نے لائن آف کنٹرول قائم کی، 1965 کی جنگ غیر فیصلہ کن رہی، 1971 کی جنگ نے بنگلہ دیش کو آزاد کروایا، اور 1999 کی کارگل جنگ میں بھارت نے پاکستان کے دراندازوں کو پسپا کیا۔ ان جنگوں کے علاوہ، حالیہ برسوں میں سرحدی جھڑپوں، جیسے کہ 2025 کی مئی میں ہونے والی محدود کشیدگی، نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ تاہم، جب ہم بھارت کے لیے چین کے خطرے کا جائزہ لیتے ہیں، تو جدید اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چین کی فوجی، اقتصادی اور جغرافیائی صلاحیتیں پاکستان سے کہیں زیادہ سنگین چیلنج پیش کرتی ہیں۔

 

2024-25 میں چین کا فوجی بجٹ 231 ارب ڈالر تھا، جو بھارت کے 86.1 ارب ڈالر اور پاکستان کے 10.2 ارب ڈالر کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ فرق چین کی فوجی برتری کو ظاہر کرتا ہے، جو جدید ہتھیاروں، نیوکلیئر صلاحیتوں، سائبر ٹیکنالوجی، اور فضائی و سمندری طاقت میں بھارت سے آگے ہے۔ بھارت کا فوجی بجٹ، جو عالمی سطح پر پانچویں بڑا ہے، پاکستان سے تقریباً نو گنا زیادہ ہے، لیکن چین کے مقابلے میں یہ اب بھی بہت کم ہے۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت محدود ہے، اور وہ زیادہ تر چین سے حاصل ہونے والے ہتھیاروں پر انحصار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2015 سے اب تک چین نے پاکستان کو 8.2 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ہیں، جن میں جے ایف-17 اور جے-10 سی فائٹر جیٹس شامل ہیں۔ یہ ہتھیار براہ راست بھارت کے خلاف استعمال ہوتے ہیں، جیسے کہ 2025 کے مئی کے تنازعات میں دیکھا گیا، جو محدود جھڑپیں تھیں اور جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئیں۔

 

چین کی وسعت پسند پالیسیاں بھی بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ جنوبی چین سمندر میں اس کے جارحانہ دعوؤں سے لے کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو تک، چین اپنے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات، جیسے اروناچل پردیش اور اکسائی چن پر دعوے، اور 2020 کے لداخ تصادم نے اس خطرے کو مزید واضح کیا۔ چین نے اپنی سرحدوں پر سڑکیں، پل اور فوجی اڈوں کی تعمیر کی ہے، جو بھارت کے لیے دفاعی نقطہ نظر سے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے مقابلے میں، پاکستان کے پاس ایسی وسعت پسند صلاحیتیں نہیں، اور اس کا فوکس بنیادی طور پر کشمیر تک محدود ہے۔ فوجی بجٹ اور اسٹریٹجک عزائم میں یہ تفاوت واضح کرتا ہے کہ چین کا خطرہ بھارت کے لیے پاکستان سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

 

پاکستان اور چین کے درمیان گہرے فوجی اور اقتصادی تعلقات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے خلاف چین کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا ایک اہم منصوبہ ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط کرتی ہے اور چین کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے سمندری رسائی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں حصہ لیتے ہیں، جو ان کے اتحاد کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ تنازعات میں، جیسے کہ 2025 کے بھارت-پاکستان جھڑپوں میں، چین نے پاکستان کے ذریعے اپنی فوجی ٹیکنالوجی کو جانچنے کا موقع حاصل کیا، جو چینی ہتھیاروں کی ساکھ کو بڑھاتا ہے۔ یہ متحرک صورتحال واضح کرتی ہے کہ پاکستان کے اقدامات اکثر چین کی وسیع جیو پولیٹیکل حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں، جو خاص طور پر بھارت کو نشانہ بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔

 

چین کی عالمی سفارتی طاقت بھی بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے، چین اپنی ویٹو پاور اور اقتصادی اثر و رسوخ کا استعمال کرتا ہے تاکہ دوسرے ممالک کو اپنے حق میں کر سکے۔ اس نے بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، جبکہ پاکستان کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کی حمایت کی۔ اس کے مقابلے میں، پاکستان کا عالمی اثر و رسوخ محدود ہے، اور وہ زیادہ تر چین کے تعاون پر انحصار کرتا ہے۔ یہ تفاوت واضح کرتا ہے کہ بھارت کو ایک عالمی طاقت کے طور پر چین سے نمٹنا ہے، نہ کہ صرف ایک علاقائی حریف سے۔

 

بھارتی عوام کی رائے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین کو پاکستان سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ 2022 کے پیو ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق، 43 فیصد بھارتی شہریوں نے چین کو سب سے بڑا فوجی خطرہ قرار دیا، جبکہ صرف 13 فیصد نے پاکستان کا نام لیا۔ مزید برآں، بھارت نے 2021 میں پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تاکہ وہ اپنی توجہ چین کی طرف مرکوز کر سکے۔ یہ تبدیلی بھارت کے 2025-26 کے دفاعی بجٹ میں بھی جھلکتی ہے، جو 9.53 فیصد اضافے کے ساتھ تقریباً 79 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جس کا مقصد خاص طور پر چین سے متعدد سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا ہے۔

 

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھارت کو ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، اسے اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے، تاکہ چین کی پیشرفت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ دوم، بھارت کو کواڈ (آسٹریلیا، جاپان، امریکہ اور بھارت) اور انڈو-پیسفک اکنامک فریم ورک جیسے اتحادوں کے ذریعے اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنی ہوگی، جو چین کے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے میں مدد دیں گے۔ سوم، پاکستان کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اسے ہمیشہ چین کی بڑی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں بھارت کو اپنی وسائل کو چین کے خلاف استعمال کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

مزید برآں، بھارت کو اپنی اقتصادی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ چین کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔ چین کی معیشت بھارت سے کہیں زیادہ بڑی ہے، اور اس کی مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی میں ترقی بھارت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بھارت کو اپنی تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری بڑھانی ہوگی اور اپنی ہنرمند افرادی قوت کو استعمال کرنا ہوگا تاکہ وہ اس میدان میں پیچھے نہ رہے۔

 

یہ بھی قابل غور ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہموار نہیں رہتے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے کچھ منصوبوں پر پاکستان میں تنقید ہوئی ہے، اور چینی قرضوں نے پاکستان کی معیشت پر دباؤ ڈالا ہے۔ بھارت اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر سفارتی طور پر پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر سکتا ہے، جس سے چین کا اثر کم ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں لچک دکھانی ہوگی۔

 

آخر میں، شواہد اور اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کو اصل خطرہ چین سے ہے، جو اپنی فوجی، اقتصادی اور سفارتی طاقت کے ذریعے خطے میں اپنا تسلط بڑھا رہا ہے۔ پاکستان، اگرچہ بھارت کے لیے ایک چیلنج ہے، لیکن اس کا کردار زیادہ تر چین کی پراکسی تک محدود ہے۔ بھارت کو اپنی دفاعی اور سفارتی حکمت عملی کو چین کے خلاف مرکوز کرنا ہوگا، جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک بڑی جیو پولیٹیکل تصویر کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اپنی فوجی تیاریوں، سفارتی اتحادوں اور اقتصادی و تکنیکی ترقی پر توجہ دے کر بھارت اس پیچیدہ منظر نامے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے۔ صرف اسی طرح بھارت خطے میں استحکام اور اپنی خودمختاری کو یقینی بنا سکتا ہے۔

Comments are closed.