تعلیم تو ضروری ہے لیکن تعلیم کا حصول اتنا دشوار کیوں ہے؟

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
ماہ جون شروع ہونے والاہے اس ماہ میں عام طور پر ملک کے مختلف علاقوں میں عصری اداروں کے کھلنے کی سرگرمیاں اورتعلیمی سال شروع ہوجاتاہے، داخلے وغیرہ کی کاروائی بھی اسی ماہ میں ہوتی ہے، یوں اسطرح ماہ جون سے تعلیمی سال کا آغاز ہوجاتاہے،تعلیم کسی بھی قوم کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے یا انکے سامنے تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے،ایک طبقہ تعلیم سے دلچسپی رکھتا تو ہے تو مگر انکے سامنے کئی چیلنجس ہیں جسکا وہ مقابلہ نہیں کرسکتے، کہیں تعلیم ہے تو تربیت کا فقدان ہے، کہیں تعلیم پر اسکولوں اور اداروں میں اتنی مہنگی فیس ہے کہ اسکا حصول غریبوں کےلئے دشوارہے، کہیں تعلیم کے حصول کا مزاج تو ہے لیکن ترجیحات متعین نہیں ہیں،کون سی تعلیم ہمیں اس ملک اورپورے عالم میں سربلندی اورحکمرانی عطاکرسکتی ہے ہم یہ سوچنے،سمجھنے،غورکرنے اورپھر لائحہ عمل طے کرنے سے قاصر ہیں،پھر ایسے میں ہمارے درد کا مداوا کیونکر اور کیسے ہو؟تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی بیداری اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے،سوچنے اور سمجھنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے،صحیح اور غلط میں تمیز سکھاتی ہے،تعلیم، بہتر انسان، بہتر شہری اور بہتر رہنما بننے کے قابل بناتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تعلیم کو بنیادی اہمیت عطا کی ہے اور اس کے حصول کےلئے بڑا زور دیا ہے۔
آج الحمدللہ حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں تعلیمی سہولیات ہر سطح پر دستیاب ہیں،کالجوں،اسکولوں اور یونیورسٹی کی بھرمار ہے،مذہبی اور دینی اداروں کی بھی بڑی تعداد ہے،ہر مضمون میں کورسز موجود ہیں اور جدید ٹیکنالوجی سے مزین تعلیمی ماحول نے طلبہ کے لئے سیکھنے کے تمام دروازے کھول دئے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا اس کے ساتھ تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں؟ گزشتہ چند دہائیوں قبل ہم لوگ دیکھا کرتے تھے کہ طالب علم محض تعلیمی قابلیت کے میدان میں ہی نہیں،بلکہ اخلاق،آداب نظم و ضبط،اپنے بزرگوں اور اساتذہ کے احترام میں بھی نمایاں تھے،ان کی گفتگو میں شائستگی طرز عمل میں سنجیدگی اور باہمی تعلقات میں محبت و لحاظ نمایاں ہوتے تھے،لیکن افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل میں یہ خوبیاں تیزی سے مان پڑتی جا رہی ہیں اورختم ہوتی جارہی ہیں،تعلیم تو بڑھ رہی ہے لیکن تربیت کا فقدان بھی بھی بڑھ رہاہے اورتربیت عنقاء ہوتی جارہی ہے،طلباء میں بڑوں کا ادب،ساتھیوں کا احترام اور اپنے کردار کی حفاظت کا احساس بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے،سوشل میڈیا کی اندھی تقلید،وقت کی بے قدری،والدین سے فاصلہ اور اساتذہ کرام کے احترام میں کمی جیسے رویے سماج کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے،بچے اور بچیوں میں ایک دوسرے کا لحاظ بات چیت کا سلیقہ اور عمومی طرز عمل اکثر حیرت اور تشویش کا باعث بنتے ہیں،معاشرتی سطح پر مروت،تہذیب،اخلاق اور انسانیت کی وہ مثالیں جو کبھی ہمارے تعلیمی اداروں کی پہچان ہوا کرتی تھی، آج نایاب ہوتی جا رہی ہے،بدزبانی، ضد،ضدی رویے،بے پرواہی اور بے راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے یہ سب تعلیم کے ساتھ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم و تربیت ایک دوسرے کی تکمیل ہے،صرف تعلیم ہرگز کافی نہیں ہے،تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بہرحال ضروری ہے،والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تعلیمی ترقی ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں، اساتذہ کو چاہیے کہ وہ محض مضمون پڑھانے پر اکتفا نہ کریں بلکہ طالب علموں میں کردار سازی،اخلاقیات اور انسانی قدروں کی مثالیں بھی قائم کریں،تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ کردار سازی کو اپنے نصاب اور کلچر کا حصہ بنائیں، چھوٹے چھوٹے اقدامات جیسے صبح کی اسمبلی میں تربیتی گفتگو ہفتہ وار اخلاقی موضوعات پر مباحثے اور سینئرطلبہ کی طرف سے جونیئرز کے لئے رول ماڈل بننے کی تربیت، ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں،یہ بات ہمیں ذہن نشیں کرنی ہوگی کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل نہ صرف تعلیم یافتہ ہو بلکہ مہذب با اخلاق،ذمہ دار اورسماج کے لئے ایک اچھا شہری بھی ہو تو ہمیں فوری طور پر تربیت کی بنیادوں کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا تاکہ ہماری نسل ایک تعلیم یافتہ نسل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شہری بھی ہو۔تعلیم کو ہمیشہ ایک ایسی نعمت مانا گیا ہے جو انمول ہوتی ہے، یعنی ایسی نعمت جس کی کوئی قیمت نہ لگائی جاسکے۔ مگر آج کے ہندوستان میں، خاص طور پر حیدرآباد،دہلی اور مغربی بنگال جیسے صوبوں میں،یہ انمول تعلیم ایک مہنگا سودا بن چکی ہے۔جسکا حصول آسان نہیں بلکہ مزید دشوار ہوتا جارہاہے،جو والدین کبھی اس بات پر نازاں تھے کہ ان کے بچے ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہیں،اب اسی تعلیم کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں۔ایک طرف سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت ہے تودوسری طرف پرائیویٹ اداروں کا بے لگام تجارتی رویہ سامنے ہے۔
مغربی بنگال میں گزشتہ کئی برسوں سے والدین کی چیخ و پکار جاری ہے۔2021 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت نجی اسکولوں کی خودمختاری میں مکمل مداخلت نہیں کر سکتی،لیکن فیسوں کو قابو میں رکھنے کیلئے مناسب ضابطے ضرور بنا سکتی ہے۔ 2017 میں ریاست کی وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا کہ ایک سیلف ریگولیٹری کمیٹی قائم کی جائے گی اور 2022 میں بل لانے کا اعلان ہوا۔2023 میں ’پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری کمیشن‘ کے قیام کی اصولی منظوری دی گئی۔ مگر نتیجہ اب تک صفرہے۔ والدین آج بھی چیخ چلارہے ہیں مگر ان کی کوئی بات سنی نہیں جارہی ہے۔اسکول من مانے انداز میں اپنی فیس بڑھا رہے ہیں اور حکومت کاغذی بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔
ایک حالیہ سروے،جس میں ملک کے 309 اضلاع سے 31,000 والدین شامل تھے،نے اس نظام کی قلعی کھول دی۔ 44 فیصد والدین نے بتایا کہ نجی اسکولوں نے گزشتہ تین برسوں میں فیس میں 50 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا ہے،جب کہ 8 فیصد نے کہا کہ یہ اضافہ 80 فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار کوئی عام شکایت نہیں،بلکہ تعلیم کے نام پر کھلی لوٹ مار کی ایک جیتی جاگتی شہادت ہیں۔ لیکن اس صورتحال کو حکومتیں جان بوجھ کر نظرانداز کر رہی ہیں اور پرائیویٹ اسکول پوری ڈھٹائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دہلی میں تو معاملہ اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ ڈی پی ایس جیسے معروف اسکولوں کے خلاف والدین سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ والدین کا الزام ہے کہ جنہوں نے فیس میں حالیہ اضافے کی مخالفت کی،ان کے بچوں کو ہراساں کیا گیا،یہاں تک کہ انہیں کلاسز میں بیٹھنے سے روک کر لائبریری میں بٹھایا گیا۔ کیا یہ تعلیم ہے یا انتقام؟ کیا یہ اسکول ہے یا کسی فسطائی کاروباری گروہ کا دفتر؟دہلی کے موجودہ وزیر تعلیم آشیش سود نے سابقہ حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے اسکولوں کو من مانی فیس بڑھانے کی کھلی چھوٹ دی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمام 1,677 نجی اسکولوں کا آڈٹ کیا جائے گا اور 10 دنوں میں نتائج عام کیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوںمیں ہر سال صرف 75 اسکولوں کا آڈٹ کیوں ہوا؟ محکمہ تعلیم کو ہر مالی سال میں کم از کم ایک بار ہر تسلیم شدہ اسکول کا معائنہ کرنا چاہیے، لیکن اس قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ یہی نہیں،زمین کی الاٹمنٹ کی بنیاد پر فیسوں میں اضافے کیلئے محکمہ تعلیم کی پیشگی منظوری ضروری ہے،مگر اس قاعدے کو بھی مسلسل نظرانداز کیا گیا۔یہ محض نااہلی نہیں،بلکہ مجرمانہ غفلت ہے۔ حکومتیں جان بوجھ کر نجی اسکولوں کو لوٹ مار کا لائسنس دے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ والدین کو دلاسے دیتی ہیں،دوسری طرف نجی اداروں کو مکمل آزادی دیتی ہیں کہ وہ جو چاہیں،کریں۔ اس دوغلے پن کا خمیازہ والدین اور طلبا بھگت رہے ہیں۔
حیدرآباد میں بھی کم وبیش یہی صورتحال ہے،نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ اسکول کی انتظامیہ فیس کی ادائیگی نہ ہونے پر امتحانات سے محروم کرنے کی دھمکیاں دیتی ہیں،اورکئی جگہ تو امتحان میں بیٹھنے ہی نہیں دیاگیا،والدین کی کسی مجبوری کو اسکول انتظامیہ سننے کےلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں کی دلیل یہ ہے کہ تعلیمی مواد، انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی تنخواہیں بڑھ گئی ہیں،اس لئے فیسیں بھی بڑھانا ناگزیر ہے۔لیکن اگر یہ سچ ہے تو پھر فیس کے اضافے کی تفصیلات شفاف انداز میں والدین کو کیوں نہیں دی جاتیں؟ کیوں ہر سال صرف ایک نوٹس کے ذریعے ان پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے؟ تعلیم اگر تجارت بن جائے تو انصاف، مساوات اور مواقع کی امید عبث ہے۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ والدین اپنی محدود آمدنی کے باوجود ان اسکولوں کی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سرکاری اسکولوں کی حالت خستہ ہے۔بدانتظامی،بدعنوانی اور تعلیمی معیار کی کمی نے انہیں غیر مؤثر بنا دیا ہے۔تعلیم کے نام پر دو انتہائیں سامنے آتی ہیں ،ایک طرف پرائیویٹ اسکولوں کی سرمایہ دارانہ ہوس ہے تو دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی۔ ان دونوں کے بیچ ہندوستان کا متوسط اور نچلا طبقہ پس رہا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ’’انمول تعلیم‘‘ کے تصور کو بچانے کیلئے سخت اقدامات کریں۔ حکومتوں کو زبانی وعدوں سے نکل کر ٹھوس قانونی اور مالیاتی بندوبست کرنا ہوگا۔نجی اسکولوں کیلئے فیسوں کی ایک حد طے کی جائے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔ اسکولوں کا سالانہ آڈٹ لازمی اور شفاف ہو، والدین کو باقاعدہ رپورٹ پیش کی جائے اور کسی بھی ناجائز فیس وصولی پر اسکول کی منظوری منسوخ کر دی جائے۔
اگر حکومتیں اس لوٹ کھسوٹ پر خاموش رہیں تو انہیں والدین کی بددعائیں اور طلبا کے ٹوٹے خوابوں کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ تعلیم اگر کاروبار بن گئی تو کل کا ہندوستان علم سے نہیں،صرف دولت سے آراستہ ہوگا اور یہ کسی بھی قوم کے زوال کی سب سے بڑی نشانی ہے۔اب فیصلہ حکومتوں اور عوام دونوں کو کرنا ہے کہ تعلیم کو ’’قیمتی‘‘ بنانا ہے یا ’’انمول‘‘ رکھنا ہے۔
گزشتہ سال مشہور معاشی اخبار ’’دی اکنامک ٹائمس‘‘ نے اپنی ایک تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان میں تین سے سترہ سال کی عمر تک ہر بچے پر ہونے والا مجموعی تعلیمی خرچ ۳۰؍ لاکھ روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ ہرچند کہ یہ خرچ چودہ سال کے طویل عرصہ میں آتا ہے مگر عام والدین کےلئے جن کی معاشی حالت خستہ ہوتی ہے، یہ بہت بڑا خرچ ہے۔ نجی اداروں کی تعلیم کے اِس خرچ کے خلاف نہ تو حکومت متحرک ہوتی ہے نہ ہی والدین حرف ِ شکایت زبان پر لانے کیلئے تیار ہوتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ ایک تحریک بنے اور نجی اداروں کی کفالت بھی حکومت کی جانب سے ہو تاکہ اُنہیں والدین سے کچھ لینے کی ضرورت نہ پیش آئے اور اگر وہ کچھ لیں تو ایسا لین دین غیر قانونی قرارپائے۔مہنگائی کے اِس دور میں جب سبزی ترکاری خریدنا بھی کارے دارد ہو اور لوگ باگ حوصلہ کرکے بازار جاتے بھی ہوں تو اشیاء کے دام سن کر اُن کی آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہو، تعلیم کو اتنا مہنگا نہیں ہونا چاہئے۔اس کا خمیازہ نچلے متوسط طبقے اور غریب طبقات کو سہنا پڑتا ہے جو مذکورہ رقم خرچ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔اگر سرکاری اسکول قریب ہے تو انہیں فائدہ مل جاتا ہے مگر ایسا نہ ہو تو ان کیلئے بچوں کی تعلیم ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔یہی وہ شے ہے جو بچوں کی تعلیم میں والدین کی دلچسپی کو محدود کردیتی ہے۔ کیا حکومت سرکاری و غیر سرکاری ہر ادارہ میں تعلیم کو ’’صفر خرچ‘‘ نہیں بناسکتی؟ اگر ہم ۵؍ کھرب ڈالر کی اکنامی میں تبدیل ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور بہت سے مسائل کو فراموش کرکے اس بات پر خوش ہیں کہ ہم اس ہدف کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے مگر اسے پائیدار نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ہم ہر بچے کیلئے اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا ویسا بندوبست نہیں کررہے ہیں جیسا کہ اُس کا حق ہے۔
ایک تو یہ مسئلہ ہے، دوسرا یہ ہے کہ آج کل کچھ والدین کا مزاج بھی عجب ہوگیا ہے۔وہ استطاعت نہ ہونے کے باوجود مہنگے تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کروا کر نہ جانے کس کو کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔ ایک اُردو اسکول جہاں مفت تعلیم ممکن ہے، اور اگر خرچ کرنا بھی پڑا تو وہ قابل برداشت ہوگا، اسکو کمتر جانتے ہوئے انگریزی اسکول کی راہ لینا کہاں کی دانشمندی ہے،جہاں نہ صرف یہ کہ فیس زیادہ ہوتی ہے بلکہ آئے دن کے متنوع اخراجات کیلئے بھی زیر بار ہونا پڑتا ہے۔ یہی نہیں، انگریزی اسکول کیلئے وقت سے کافی پہلے فارم پُر کرنا ہوتا ہے، والدین کا اِنٹرویو لیا جاتا ہے اورننھے طالب علم کو بھی پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی والوں کے یہ سارے چونچلے وہ والدین بھی برداشت کرتے ہیں جن کی استطاعت مہنگی تعلیم کی نہیں ہوتی۔اگر کسی خاندان کا ایک بچہ انگریزی میڈیم میں اور دوسرا (عموماً بیٹی کو اُردو اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے) اُردو میڈیم میں ہے تو انگریزی کے ناجائز مطالبات پورا کرنے کیلئے والدین تیار ہوجاتے ہیں، اُردو میڈیم کے چند ایک جائز مطالبات کیلئے تیار نہیں ہوتے۔اہل اقتدار سے کچھ منوالینا نہایت مشکل کام ہے مگر اب تو عوام سے منوانا بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ مزاج غیر معمولی طور پر بدل گیا ہے۔ کوئی سمجھائے کہ اُردو اسکول میں کیا بُرائی ہے تو رٹی رٹائی چند باتیں اُن کی نوک زبان سے نکلتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ پر انگریزی بہتر ہے، انگریزی کے ذریعہ ترقی ممکن ہے کا پروپیگنڈہ اس حد تک اثر انداز ہوچکا ہے کہ اب ذہن کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہ گیا ہے۔ یہ معاشرہ کا قصور ہے جس کے افراد جان بوجھ کر مہنگی تعلیم کا کڑوا گھونٹ خوشی خوشی حلق سے اُتار رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں تعلیم مہنگی ہے اور وقت کے ساتھ زیادہ مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ وہ کورسیز جو پُرکشش محسوس کئے جاتے ہیں، اُن کی فیس اور ماہانہ و سالانہ اخراجات بھی زیادہ ہیں جبکہ کم کشش رکھنے والے کورسیز کی فیس اور اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ اگر کوئی طالب علم قانون کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اُسے اتنی رقم خرچ نہیں کرنی پڑتی جتنی انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کیلئے۔ یہ صورتحال اپنے آپ میں افسوسناک ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے سسٹم نے تعلیم کو بھی اہم اور کم اہم بنادیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم خواہ کسی شعبے کی ہو، تعلیم ہے جس کی قدر کی جانی چاہئے اور اس پر کوئی لیبل چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔
جہاں تک تعلیمی اخراجات کا تعلق ہے، جیسا کہ کہا گیا، ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پرائمری کی سطح پر ایک طالب علم کو اوسطاً سالانہ ۶؍ ہزار روپے، سیکنڈری میں ۹؍ ہزار روپے، ڈپلوما کیلئے ۱۲؍ ہزار، ہائر سیکنڈری کیلئے ۱۳؍ ہزار، گریجویشن کیلئے ۱۴؍ ہزار، گریجویشن کے بعد ڈپلوما پر ۱۵؍ ہزار اور پوسٹ گریجویشن کیلئے ۱۸؍ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس رقم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ۵۱؍ فیصد رقم ٹیوشن اور اکزام فیس پر، ۲۰؍ فیصد کتابوں بیاضوں وغیرہ پر، ۱۲؍ فیصد آمدورفت پر اور ۵؍ فیصد متفرقات پر خرچ ہوتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ٹیوشن اور اکزام فیس سے راحت مل جائے تو ایک طالب علم پر جو اوسطاً خرچ آتا ہے وہ نصف ہوجائے۔اس سے حصول تعلیم میں آسانی اور سہولت ہوگی۔حکومت کروڑہا کروڑ روپے دیگر مدوں پر خرچ کرتی ہے، کیا ٹیوشن اور اکزام فیس معاف نہیں کرسکتی؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک میں کسی بھی سطح کے طلبہ کا ایک روپیہ بھی حصول تعلیم پر خرچ نہ ہو۔ چونکہ ایسا نہیں ہے اور ہر طالب علم کو خرچ کرنا ہی پڑتا ہے اور جیسے جیسے وہ اعلیٰ درجات کی طرف بڑھتا ہے،اس خرچ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اس لئے تعلیم بھی ایک طرح کا سودا ہوگیا ہے کہ طالب علم کو جتنا خرچ کرنا پڑتا ہے،وہ چاہتا ہے کہ ڈگری حاصل ہونے کے بعد، خرچ شدہ رقم کو جلد سے جلد وصول کرلے۔ یہ بالکل غلط طرز عمل ہے مگر پچھلی دہائیوں میں اتنا مستحکم ہوا کہ کوئی اسے بُرا نہیں سمجھتا۔ آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ پورے سسٹم کا نقص ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعض شعبوں کو غیر معمولی شہرت اور کشش عطا کردی گئی جیسے اُن شعبہ جات کے علاوہ انسانی زندگی کو کسی دوسرے شعبے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا اس لئے کیا گیا کہ بااثر لوگوں نے ’’عظیم الشان‘‘ تعلیمی ادارے قائم کرکے تعلیم کو صنعت کا درجہ دے دیا تھا۔ اُنہوں نے سرمایہ کاری کی تھی اس لئے اُنہیں منافع چاہئے تھا۔ ایسے منافع کا ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایک بار مل جانا کافی نہیں ہوتا۔ یہ سال بہ سال ملنا چاہئے۔ اس لئے فیس میں سال بہ سال اضافہ بھی ناگزیر ہوا۔ ڈونیشن کی وبا عام ہوگئی جو کبھی بلڈنگ فنڈ اور کبھی کسی دوسرے نام سے لی گئی۔ داخلے کے خواہشمندوں پر لازم تھا کہ وہ اس چکرویو کو سمجھتے مگر اُن کے سروں میں تو کچھ اور سمایا ہوا تھا۔ اُن کے والدین نے قرض لیا، دلالوں کو لاکھوں دیئے، کبھی داخلہ ہوگیا کبھی اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا، اس کے باوجود سماج نے اس گورکھ دھندے کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ تعلیم مہنگی ہوئی تو حکومت کا تجاہل عارفانہ اور با اثر افراد کی ہوس ہی ذمہ دار نہیں تھی، تعلیم کو تعلیم نہ سمجھنے بلکہ روپیہ کمانے کا ذریعہ سمجھ لینے کی غلط سوچ بھی اس کیلئے ذمہ دار تھی جس کیلئے سماج قصوروار تھا اور اب بھی ہے۔
سماج بیدار ہوتا تو فیس اور ڈونیشن کے نام پر مچنے والی لوٹ مار سے خود کو علاحدہ کرلیتا اور حکومت سے پُرزور مطالبہ کرتا کہ اُسے اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیم کے ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو مفت تعلیم دیں۔ یہ کام اب بھی ہوسکتا ہے،حیدرآباد سمیت ساؤتھ کے مختلف علاقوں اورشہروں میں مسلمانوں کی تعلیمی ترجیحات ڈاکٹروں کی تعلیم ہے،جسے پیسہ کمانے کا اہم ذریعہ سمجھاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئے؟کیا ہم جوڈیشری،مقننہ اورانتظامیہ کی تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرسکتےجس سے ملک کا نقشہ تبدیل ہوگا اورملک میں انقلاب آئے گا،آنے والے کچھ برسوں میں ہم اسکے بہتر نتائج دیکھ سکیں گے،ڈاکٹروں کی تعلیم کے علاوہ ان شعبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے کیاہم اسکےلئے تیار ہیں؟
ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنی اولاد کےلئے ہمیں ایسے ادارے کا انتخاب کرنا ہوگا،جہاں دین دارنہ ماحول کے ساتھ تربیت کا مناسب انتظام ہو،تاکہ ہم نئی نسل کو لادینیت اور مذہب بے بیزاری کے جراثیم سے بچاسکیں،لیکن یہ تھوڑا مشکل ہے کیونکہ ایسے ادارے کم ہیں،اسکے لئے ہمیں اپنے گھروں میں دینی ماحول پیدا کرناہوگا۔
(مضون نگار معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
Comments are closed.