ظلم کی صلیب پر فلسطین

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)

فلسطین کی کہانی، محض سیاسی کشمکش یا جغرافیائی تنازع نہیں، یہ تاریخ کا وہ دھارا ہے جو حق و باطل کی پہچان بن چکا ہے۔ یہاں نہ صرف مزاحمت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، بلکہ وہ اخلاقی و روحانی عظمت بھی نمایاں ہے جو کسی قوم کو امر کر دیتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے دکھ سہہ کر، آنسو پی کر، جنازے اٹھا کر بھی سر نہ جھکایا۔ ان کے بچّوں کے لبوں پر "حریۃ” کا ترانہ ہے، ان کی ماؤں کے آنچل میں صبر کی خوشبو ہے، اور ان کے بزرگوں کی آنکھوں میں تاریخ کا گہرا شعور۔

 

یہ غزہ ہو یا نابلس، رملہ ہو یا جنین—ہر شہر، ہر گاؤں ایک زندہ استعارہ ہے اس بات کا کہ ظلم جتنا بھی شدید ہو، وہ حق کی روشنی کو بجھا نہیں سکتا۔ ہر فلسطینی وہ گواہی ہے جو چیخ چیخ کر دنیا سے پوچھتی ہے: "کیا تمہاری آنکھیں صرف اپنے مفاد پر کھلتی ہیں؟ کیا انسانیت کے پیمانے قوموں کی طاقت سے تولے جاتے ہیں؟”۔ مگر افسوس! آج کی دنیا جسے مہذب کہا جاتا ہے، وہاں ضمیر بکتے ہیں، حقوق کی بولیاں لگتی ہیں، اور بےحسی، پالیسی بن چکی ہے۔

 

لیکن ایک بات طے ہے: فلسطین ایک دن آزاد ہوگا۔ نہ صرف زمینی قبضے سے، بلکہ ان نظریاتی زنجیروں سے بھی جو اسے محکوم رکھنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ یہ آزادی صرف فلسطینیوں کی نہیں، انسانیت کی جیت ہوگی۔ وہ دن جب غزہ کے بچّے کتابوں کے ساتھ اسکول جائیں گے، ماں کی گود میں امن کی نیند سوئیں گے، اذانیں بلا خوف بلند ہوں گی، اور دنیا کی تاریخ ایک نئے باب سے روشناس ہوگی—جہاں لکھا ہوگا: "یہ وہ قوم ہے جس نے ظلم کے صحرا میں صبر کا چشمہ نکالا، اور حق کی شمع بجھنے نہ دی”۔

 

فلسطین… ایک ایسا نام جو صرف ایک خطہ نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط جدوجہد، قربانی، عزم اور عزّتِ نفس کی روشن علامت ہے۔ یہ وہ سر زمین ہے جہاں ہر ذرّہ، ہر پتھر، ہر کونے میں تاریخ کی صدائیں گونجتی ہیں اور ہر سانس میں آزادی کی آرزو مچلتی ہے۔ فلسطین کی کہانی محض کسی قوم کی جغرافیائی بقاء کی جنگ نہیں، بلکہ انسانیت، حریت اور وقار کی بقاء کی داستان ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں آسمانوں نے معصوم بچّوں کے لہو سے بھیگی مائیں دیکھی ہیں، اور زمین نے ایسے بے شمار جنازے اٹھائے ہیں جن کی آنکھوں میں موت سے پہلے بھی امید کے دیے روشن تھے۔ فلسطین صرف قربانی کا استعارہ نہیں، بلکہ وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں نہتے ہاتھوں نے طاقت کے بتوں کو چیلنج کیا، جہاں بھوک، ظلم، قید و بند اور جلاوطنی کے سائے میں بھی وفا، جرأت اور استقلال کے چراغ جلتے رہے۔

 

سیاسی بدامنی، معاشی ناکامی، عالمی بے حسی، اور طاقتوروں کی نرگسیت کے باوجود فلسطینی عوام نے نہ صرف اپنے تشخص کو باقی رکھا بلکہ اپنی شناخت کو شعور، ادب، فن، اور مزاحمت کے رنگوں سے آراستہ کیا۔ ان کے قلم نے بھی مزاحمت لکھی اور ان کے قدموں نے بھی انقلاب کے راستے متعین کیے۔ مشرقِ وسطیٰ میں واقع یہ مبارک سرزمین، گزشتہ ایک صدی سے ظلم و ستم، استعماری چالوں، اور قبضہ گیری کے خونی کھیل کی شکار رہی ہے۔ 1948ء کی نکبہ ہو یا 1967ء کی جنگ، غزہ کی ناکہ بندی ہو یا مغربی کنارے کی دیواریں—ہر سانحہ فلسطینیوں کے دل پر ایک زخم چھوڑ گیا، لیکن ہر زخم کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی بلند تر ہوئی۔

 

فلسطین کی موجودہ صورتحال بلا شبہ تکلیف دہ ہے۔ اقوامِ عالم کی خاموشی، عالمی اداروں کی مجرمانہ بے نیازی اور طاقتور ممالک کی دوہری پالیسیوں نے مظلوم کو انصاف سے دور اور ظالم کو مزید بے لگام کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، فلسطین کے نہتے باسیوں کی آنکھوں میں آزادی کا خواب آج بھی روشن ہے۔ ان کے سینے میں ایک تپتا ہوا دل دھڑکتا ہے جو ظالم کی گولیوں سے نہیں ڈرتا، بلکہ حق کے لیے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ فلسطین ایک نظریہ ہے، ایک جذبہ ہے، ایک ایسی چنگاری ہے جو ظلم کی تاریکی میں بھی روشنی کی امید رکھتی ہے۔ یہ زمین اپنے شہیدوں کی گواہی دیتی ہے اور اپنے زندہ لوگوں کی مزاحمت کو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھ رہی ہے۔

 

غزہ… وہ سر زمین جو کبھی بچّوں کی ہنسی، ماں کی لوری، اور اذانوں کی گونج سے آباد تھی، آج راکھ کا ڈھیر ہے۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت نے اس خطے کے دل میں وہ زخم دئیے ہیں جن کا درد الفاظ میں سمویا نہیں جا سکتا۔ گلیاں جو کبھی زندگی کی گواہ تھیں، اب ملبے تلے سسک رہے خوابوں کی قبرستان بن چکی ہیں۔ اسکول، جہاں علم کی روشنی بانٹی جاتی تھی، اب راکھ کے ڈھیر ہیں؛ ہسپتال، جو زندگی بچانے کے لیے بنائے گئے تھے، آج خود موت کے مہیب سائے تلے کراہتے دکھائی دیتے ہیں؛ اور گھروں کی چھتیں، جو کبھی ماں کے سائے اور بچّوں کی پناہ کا استعارہ تھیں، اب بےگھر فلسطینیوں کی یاد بن چکی ہیں۔

 

یہ صرف عمارتوں کا انہدام نہیں، یہ ایک تہذیب، ایک قوم، ایک مستقبل کو مٹی میں ملانے کی سفاک کوشش ہے۔ غزہ کا انفراسٹرکچر اب کھنڈرات کی ایسی بےزبان زبان ہے جو چیخ چیخ کر انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے ہی شہر میں اجنبی ہو گئے ہیں، جہاں نہ پناہ ہے، نہ پانی، نہ دوا، نہ غذا۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے کاروبار یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا بند ہونے پر مجبور ہیں۔ روزی کے چراغ بجھا دیے گئے ہیں اور خوابوں کے آئینے پاش پاش ہو چکے ہیں۔

 

انسانی قیمت اتنی ہولناک ہے کہ قلم کانپتا ہے۔ ہزاروں معصوم جانیں—جن میں اکثریت بچّوں اور عورتوں کی ہے—بےدریغ بمباری کی نذر ہو گئیں۔ آغوشِ مادر میں سوتے ہوئے شیر خوار بچے، اسکول جاتے ہوئے کمسن فرشتے، اور اپنے گھروں میں پناہ لینے والی معصوم مائیں، سب کچھ لمحوں میں ملبے تلے دفن ہو گئے۔ اور جو زندہ بچ گئے، ان کے چہرے جھلسے ہوئے ہیں، ان کی روحیں گھائل ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے ممنوعہ ہتھیاروں، خصوصاً سفید فاسفورس کے استعمال نے جلتے جسموں اور سسکتی سانسوں کا وہ منظرنامہ پیدا کیا ہے جسے دیکھ کر آسمان بھی شرما جائے۔ ایسے ہتھیار صرف جسم نہیں، پوری نسلوں کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

 

اور شاید سب سے گہرا زخم وہ ہے جو نظر نہیں آتا—وہ نفسیاتی بربادی جو خاموشی سے نسلوں کی روح میں سرایت کر چکی ہے۔ ہر دھماکہ ایک بچّے کی نیند چھین لیتا ہے، ہر جنازہ ایک نوجوان کی امید دفن کر دیتا ہے۔ خوف، بے چینی، اضطراب، اور ڈپریشن اب غزہ کے ہر گھر کے مکین بن چکے ہیں۔ یہ صرف ایک جنگ نہیں، یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ چیخ ہے اُن ماؤں کی جو لوری کی جگہ بین کرتی ہیں، اُن بچّوں کی جو کھلونوں کے بجائے لاشیں گنتے ہیں، اور اُن انسانوں کی جو زندہ تو ہیں، مگر جینے کی سب امنگیں کھو چکے ہیں۔

 

وہ خطہ جہاں کبھی خوشیوں کی محفلیں، میلوں کی چہل پہل اور صدیوں پرانی تہذیب کی رمق موجود تھی، آج وہاں صرف خاموشی ہے—ایسی خاموشی جس کے پس منظر میں بموں کی گونج، بچّوں کی چیخیں، اور ماؤں کی آہیں دفن ہیں۔ فلسطینی خاندانوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو کھو دیا—بیٹے جو علم کے چراغ روشن کرنے نکلے تھے، اور لوٹ کر کفن میں لپٹے آئے؛ بیٹیاں جو گڑیاں کھیلتی تھیں، اب ملبے کے نیچے ابدی نیند سو گئی ہیں۔ یہ صرف جانی نقصان نہیں، بلکہ نسلی صدمہ ہے۔ ایسے بچّے پروان چڑھ رہے ہیں جن کے خوابوں میں رنگ نہیں، صرف راکھ ہے؛ جن کے کھیل کا میدان کھنڈر ہے، اور جن کی لوریاں اب بمباری کی آوازوں میں گم ہو چکی ہیں۔ خوف، ان کی نیند میں گھل گیا ہے، اور جنگ، ان کے بچپن کا مستقل منظرنامہ بن چکی ہے۔

 

کمیونٹیز جو کبھی اخوت، ثقافت، اور روایات کا گہوارہ تھیں، اب بکھر چکی ہیں۔ کوئی اپنے شہر سے ہجرت پر مجبور ہے، کوئی اپنے خاندان کے آخری فرد کو دفن کر کے تنہا رہ گیا ہے۔ وہ فلسطینی معاشرہ جو اپنی مضبوطی، صبر، اور روایتی اقدار کے لیے جانا جاتا تھا، آج زخموں سے چور ہے، مگر جھکا نہیں۔ ان سب کے بیچ اسرائیل کی حکومت بےرحم تسلسل کے ساتھ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ نہ جنیوا کنونشن کی پرواہ، نہ انسانی حقوق کی فکر—صرف طاقت، قبضہ، اور تباہی کا ایجنڈا۔ اور بدقسمتی سے، اس ظلم کے پردہ نشینوں میں امریکہ جیسا ملک بھی شامل ہے، جو نہ صرف سیاسی و عسکری حمایت فراہم کرتا ہے بلکہ اقوامِ متحدہ میں انصاف کی ہر آواز کو ویٹو کی دیوار سے ٹکرا کر خاموش کر دیتا ہے۔ عالمی برادری، جو انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کی دعویدار ہے، فلسطین کے معاملے میں یا تو بےبس نظر آتی ہے یا مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔

 

مگر ستم کی اس طویل رات میں بھی فلسطینی قوم کی روح زندہ ہے۔ ہزاروں قربانیوں، جبر و تشدّد، اور جلاوطنی کے باوجود فلسطینیوں نے اپنی تاریخ کو مٹنے نہیں دیا۔ ان کے ہاتھوں میں زیتون کی شاخ ہو نہ ہو، مگر دلوں میں اپنے آبا کی سر زمین کی خوشبو باقی ہے۔ ان کے گھروں کی چھتیں چھن گئیں، مگر ثقافت کی چھتری قائم ہے؛ ان کے درخت جڑ سے اکھاڑ دیے گئے، مگر ورثہ ان کے لہجے، ان کی زبان، ان کے فن، اور ان کی شاعری میں زندہ ہے۔ فلسطین ایک نام نہیں، ایک مزاحمت ہے؛ ایک وطن سے عشق کا استعارہ، جو دنیا کی بے حسی کے باوجود اپنی مٹی سے جڑے رہنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ سر زمین آج بھی کہہ رہی ہے: "تم میرے جسم کو مٹا سکتے ہو، میری روح کو نہیں۔ تم میری چھت گرا سکتے ہو، میرے خواب نہیں۔ تم میرے بچّوں کو مار سکتے ہو، میرے عزم کو نہیں”۔

 

جیسے ہی میں یہ الفاظ قلم بند کر رہا ہوں، میرے دل پر درد کی ایک لہر ٹوٹتی ہے، اور آنکھوں میں ایک بے بسی کی نمی جم جاتی ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں، یہ وہ تڑپ ہے جو ہر ذی شعور دل کو اندر سے زخمی کر دیتی ہے۔ ایک پوری قوم، فلسطین، جس کے آنگن میں ہر صبح ملبے کے ڈھیر پر طلوع ہوتی ہے، اور ہر رات ماتم اور آہوں کے سائے میں ڈھلتی ہے—اس پر ظلم و جبر کی انتہاء ہو چکی ہے۔ دنیا کی یہ مجرمانہ خاموشی اور لاتعلقی دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان فلسطینی بچّوں کی چیخیں نہ سنیں، جو اپنے ماں باپ کی لاشوں سے لپٹ کر سسک رہے ہیں؟ ان یتیم آنکھوں میں جھانکنے کی ہم میں ہمت کیوں نہیں؟ جن کے ننھے خواب، اسکول بستے اور کھلونوں کے ساتھ دفن ہو چکے ہیں۔ وہ بچّے جنہیں کتابیں تھامنی تھیں، آج وہ لاشیں اٹھا رہے ہیں یا اپنے زخم سہلا رہے ہیں۔

 

اور ان ماؤں کا کیا جنہوں نے اپنے جگر گوشے دفناتے دفناتے اپنا صبر بھی دفن کر دیا؟ جن کے گھروں کے آنگن اب قبرستان میں بدل چکے ہیں؟ جن کی کوکھیں اجڑ گئیں، اور آنکھوں کی چمک ہمیشہ کے لیے ماند پڑ گئی؟ وہ ماں جو اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر بھی کرتی ہے اور خاموشی سے رات بھر آنسو بھی بہاتی ہے—یہ دکھ صرف لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا، یہ روح کا نوحہ ہے۔ ایسے ہی ایک لمحے میں علی ہادی کی وہ غزل یاد آئی جو فلسطین کے المیے کو شعری پیکر میں یوں ڈھالتی ہے گویا لفظ بھی رو رہے ہوں:

 

جنازے اتنے اتنے اُٹھ رہے ہیں

ملک الموت چشمِ نم کھڑے ہیں

 

یہ شعر کتنا سچ بیان کرتا ہے—موت کا فرشتہ بھی اب اشکبار ہے، کیونکہ وہ بھی اب تھک چکا ہے اتنے معصوم جنازے اٹھاتے اٹھاتے۔

 

اے مولا جس طرح کٹتی ہیں فصلیں

فلسطیں والوں کے سر کٹ رہے ہیں

 

کتنا دل دہلا دینے والا منظر ہے! جیسے ہل چلاتا کسان فصلیں کاٹتا ہے، ویسے ہی وحشیانہ حملے فلسطینیوں کے سر کاٹ رہے ہیں—یہ انسانی نہیں، حیوانی درندگی کا منظر ہے۔

 

نگاہِ عدل کر سمتِ فلسطیں

مکاں سے بڑھ کے قبرستاں بنے ہیں

 

یہ سطریں عدلِ الٰہی کو پکارتی ہیں، کہ اے ربّ العٰلمین! وہ سر زمین جہاں کبھی گھر تھے، اب قبریں ہیں—جہاں کبھی قہقہے تھے، اب خاموشی ہے؛ جہاں بچّوں کے کھیل ہوا کرتے تھے، اب موت کا رقص ہے۔

 

ایسے حالات میں خاموشی اختیار کرنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں فلسطین کے حق میں بولنا ہو گا، لکھنا ہوگا، اور ان کے درد کو دنیا کے ضمیر تک پہنچانا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم آج خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، اور انسانیت ہمیں بھول جائے گی۔

 

اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور عالمی برادری محض بیانات تک محدود نہ رہیں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ فلسطین کی فضا میں جو بارود کی بو رچی بسی ہے، وہ صرف وہاں کے مکینوں کی نہیں، انسانیت کی روح کو بھی جھلسا رہی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی پامالی، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، اور بنیادی انسانی اقدار کی بے حرمتی—یہ سب اسرائیلی ریاست کے وہ اعمال ہیں جن پر اب دنیا کی خاموشی جرم کے مترادف بن چکی ہے۔

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرایا جائے۔ ان تمام واضح جنگی جرائم پر سخت عالمی پابندیاں عائد کی جائیں، جن میں نہتے عوام، معصوم بچّے اور بے گناہ خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ صرف مذمت کافی نہیں؛ عدل کا تقاضا ہے کہ ان جرائم کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ہوں، اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ فلسطینی عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دیا جائے—وہ حق جس کی ضمانت اقوامِ متحدہ بھی دیتی ہے اور جس کی صدائے بازگشت دنیا بھر کے مظلوم دلوں میں گونج رہی ہے۔ انہیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سر زمین پر عزّت، وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، بغیر کسی جارحیت یا خوف کے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ ان متاثرہ خاندانوں، بے گھر بچّوں، زخمی بزرگوں اور بکھری ہوئی ماں کی گودوں کو فوری اور مکمل انسانی امداد فراہم کی جائے۔ وہ قیدی جو برسوں سے بغیر کسی الزام کے اذیت سہہ رہے ہیں، خاص طور پر کم عمر بچّے اور خواتین، ان کے حقوق کی بین الاقوامی سطح پر وکالت کی جائے۔ یہ وقت ہے ایک عالمی ضمیر کے جاگنے کا۔ وقت ہے کہ انسانیت اپنے زخم خوردہ چہرے کو آئینہ دکھائے اور فلسطینیوں کو وہ انصاف، تحفّظ اور وقار عطا کرے جس کے وہ برسوں سے منتظر ہیں—اور جس کے وہ نہ صرف مستحق، بلکہ فطری حق دار ہیں۔ کیونکہ انصاف صرف قانون کا تقاضا نہیں، یہ انسانیت کی بقاء کا سوال ہے۔

 

یہ وہ پیغام ہے جو ہر فلسطینی بچّے کی آنکھوں میں چمکتا ہے، ہر ماں کے آنچل میں بندھا ہے، اور ہر شہید کے کفن سے گونجتا ہے۔ فلسطین صرف ایک زمینی تنازع نہیں، یہ ایک نظریاتی اور اخلاقی امتحان ہے—انسانیت کا، انصاف کا، اور عالمی ضمیر کا۔ یہ داستان ختم نہیں ہوئی۔ یہ ابھی جاری ہے۔ ہر گرا ہوا مکان، ہر اجڑا ہوا چہرہ، ہر روکی گئی سانس ایک نئی صبح کی تمہید ہے۔ فلسطین میں طلوعِ سحر کو شاید دیر ہو، مگر وہاں کی فضا آج بھی سورج کا انتظار کرتی ہے۔ یہ امید ہی ہے جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے—ایسی امید جو ٹینکوں کی گھن گرج اور بموں کی دھماکوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

 

یہ تحریر محض ہمدردی یا جذبات کی بھڑاس نہیں، یہ ایک گواہی ہے—اس صداقت کی کہ ظلم ہمیشہ نہیں رہتا، اور ظالم کبھی فاتح نہیں ہوتا۔ تاریخ نے فرعونوں، نمرودوں، ہٹلروں اور دوسرے جابرین کو وقت کے قبرستان میں دفن ہوتے دیکھا ہے، اور ایک دن اسرائیلی استبداد کی بھی یہی منزل ہو گی۔ فلسطین کا نام، اس کی مزاحمت، اور اس کا حق باقی رہے گا، کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔ "فلسطین زندہ ہے، اور زندہ رہے گا—کیونکہ اس کی زمین گواہی دیتی ہے، اور اس کی روح کبھی مر نہیں سکتی”.

 

Comments are closed.