Baseerat Online News Portal

کیا ملک میں سیکولرازم کا سارا ٹھیکہ صرف مسلمانوں نے ہی لے رکھا ہے؟؟؟

محمود احمد خاں دریابادی

پچھلے الیکشن میں اپنے بڑبولے پن، جھوٹے وعدوں، سبز باغ اور گجرات میں اپنی مسلم مخالف شبیہ کی بدولت ملک میں ایک ایسا شخص برسر اقتدار آیا جس نے حسب توقع ملک کے تمام دستوری عہدوں کو تہہ وبالا کردیا، بیشتر کو اپنا غلام بنالیا تو کچھ کو غلام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، چنانچہ الیکش کمیش، سی بی آئی، مسلح افواج، کسی حد تک نچلی اور درمیانی عدالتیں……… ـ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی اپنے زرخرید تعینات کردئیےـ ـ ـ ـ وہ تو خیر ہوئی کہ چار ججوں نے باقاعدہ عوام کے سامنے آکر عدالت عالیہ کے وقار کو بچالیا ـ

اس متکبر، مغرور اور احساس برتری کےشکار آدمی نے سب سے پہلے تو اپنے محسنین کو ڈسا، اڈوانی، جوشی جیسے لوگ کنارے لگائے گئے، پھر پڑوسیوں سے ایڈونچر کا کھیل شروع ہوا، حلف برداری میں نواز شرہف بلائے گئے، اچانک پڑوس کی بریانی کی مہک پہونچی تو منہ میں پانی آگیا اور بن بلائے بریانی کھانے پہونچ گئے، چین کے وزیر اعظم کے ساتھ جھولے کا لطف اُٹھایا، امریکہ نے کسی زمانے میں داخلے کا ویزہ نہیں دیا تھا وہ بدلہ اس طرح لیا کہ کرسی ملنے کے بعد پانچ مرتبہ امریکہ کو اپنے قدموں سے نہ صرف پامال کر آئے بلکہ ہندوستان سے بڑی تعداد میں ہمراہ بھگتوں کو لے گئے اور میڈیا مینجمنٹ کے ذریعےاپنی جے جے کار بھی کرا آئے، گوکہ یہ سارے اخراجات غریب ہندوستانیوں کے جیب سےہی کئے گئے، دنیا کا شاید ہی کوئی ملک بچا ہو جس کو ہمارے سربراہ نے اپنے سبز قدمی سے سیراب نہ کیا ہو، بعض دلکش اور خوبصورت ممالک تو ایسے ہیں جن کو دو اور تین مرتبہ بھگتوں سمیت عوام کے پیسے سے فیضیاب کیا گیا،کہیں اپنے گورے گورے میک اپ ذدہ ہاتھوں سے ڈھول بجایا گیا، کہیں کشتی کی سیر ہوئی ـ

ایک دن صبح اُٹھتے ہی شاید کچھ ایساکرنے کا خیال آیا جواس سے قبل کسی نے نہ کیا ہو اور آئندہ بھی ایسی ہمت کوئی نہ کرسکے …… پھر کیا تھا بلا کسی مشورے اور اجازت کے ملک میں چلنے والی اسی فیصد کرنسی کو بند کرکے ستر سال سے ترقی پر چل رہی ملک کی معیشت کو اس طرح پٹری سے اتار دیا کہ اب دوبارہ اس کو سابقہ رفتار حاصل کرنے میں ستر سال مزید لگ جائیں گے ـ جو کچھ کمی رہ گئی تھی وہ جلد بازی میں جی ایس ٹی کے نفاذ نے پوری کردی ـ

ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیٹرول ڈیزل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں پچاس سے ساٹھ فیصد تک بڑھ گئیں، ملک کی ساری دولت اقتدار کے چند دلالوں کے پاس مرکوز ہوگئی، عام لوگ بھک مری کی کگار پر پہونچنے لگے، نہ جانے کتنے معصوم بچے بھات بھات چلاتے ہوئے دم توڑ گئے ـ

ان سارے احمقانہ اقدامات نےتمام غریبوں کی گویا کمر توڑدی، ہندو مسلمان سب بے حال نہیں بلکہ بد حال ہوگئے……..، مگر کمال ہوشیاری سے میڈیا کے ذریعے کچھ اس طرح کی تصویر پیش کرائی گئی جیسے مسلمانوں کے علاوملک میں سارے باشندے اس حماقت ماٰبی سےنہ صرف خوش بلکہ مطمئن ہیں، چنانچہ نوٹ بندی کے بعدبنکوں کی لائن میں صرف مسلمانوں پر کیمرہ فوکس کیا گیا، برقعہ پوش عورتیں ہراساں و پریشان حالت میں دکھائی گئیں اور ملک کی اکثریت کے اندر یہ احساس مسرت پیدا کرنے کی کوشش ہوئی کہ چونکہ ملک میں کالا دھن صرف مسلمانوں کے پاس تھا اس لئے وہی سب سے ذیادہ تکلیف میں ہیں، اس طرح اکثریت کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکایا گیا ـ

کہتے ہیں کہ ایک بنئیے کے سامنے ایک رات اس کے بھگوان پرکٹ ہوگئے اور کہنے لگے مانگ کیا مانگتا ہے؟ مگر شرط یہ ہے کہ تو جتنا مانگے گا اُس کادوگنا پڑوسی بنئیے کو بھی دونگا ! …… بنیا شش وپنج میں پڑگیا، پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ بھگوان جی آپ ایسا کریں میری ایک آنکھ پھوڑ دیں اور پڑوسی کی دونوں آنکھیں ! …….. بالکل اسی طرح ہندو برادران وطن میں یہ احساس جگایا گیا کہ دیکھو تم سے ذیادہ دیش کا مسلمان پریشان ہے اس کو دیکھو اور خوش ہوجاؤ ـ…….. حلانکہ اس ملک میں مسلمان سب سی نچلی پائیدان پر ہے، وہ روز کنواں کھودتا ہے تب جاکر پانی پی پاتا ہے، اس کے پاس نہ پیسا ہے نہ ہی بڑا کاروبار………، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے وہی لوگ سب سے ذیادہ متاثر ہوئے جن کے پاس اناپ شناپ دولت تھی یاکڑوڑوں کا کاروبار تھا ـ

اسی کے ساتھ گو رکھشا اور موب لنچنگ کا پروپیگنڈہ کرکے اکثریتی آبادی کویہ بتانے کی بھی کوشش کی گئی کہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کو کیسا سبق سکھایا ہے ـ حالانکہ آوارہ جانوروں کی بہتات سے ملک کے کسانوں کی فصلیں برباد ہوگئیں، یہ تو سب جانتے ہیں کہ کسانوں میں بھی اکثریت ہندو کاشتکاروں کی ہے جو اپنے کھیتوں کی حفاظت کے لئے رات دن جاگنے پر مجبور ہیں، قصبات اور شہروں میں مست سانڈوں کی وجہ سے راستہ چلنا مشکل ہے، ظاہر ہے راستوں سےصرف مسلمان ہی نہیں گذرتے غیر مسلم بھی گذرتے ہیں اور اب تک سانڈوں کے حملے میں جان گنوانے والے اکثر لوگ غیر مسلم ہی ہیں ـ

درج بالا سارے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب ۲۰۱۹ میں ہونے والے الیکشن کا جائزہ لیجئے، ایک طرف بی جے پی ہے جوحسب سابق لوگوں کو اصل موضوعات سے بہکانے کی کوشش کررہی ہے یہاں تک کہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لئے اسے پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے سے بھی گریز نہیں ہے، بی جے پی کے ساتھ رام ولاس پاسوان جیسے ماہر موسمیات ہیں جن کو سیکولرازم کمیونزم سے کوئی مطلب نہیں انھیں صرف اور صرف کرسی چاہیئے، دوسری طرف کچھ اور علاقائی پارٹیاں ہیں جو بظاہر تو سیکولر ازم کی علمبردار ہیں مگر ضرورت پڑنے پر بی جے پی کی حمایت بھی کردیتی ہیں جیسے مایاوتی گجرات میں مودی کی حمایت کرنے پہونچ گئی تھیں، ایس پی بھی ایک زمانے میں شاکشی مہاراج، راجہ بھیا جیسے فرقہ پرستوں کو ساتھ رکھ چکی ہے، ممتادیدی، نائیڈو بھی ایک زمانے میں این ڈی اے کا حصہ رہ چکے ہیں، ڈی ایم کے اور اناڈی ایم کے کب کس طرف ہوجائیں کچھ کہا نہیں جاسکتا، نتیش کمار کی دَل بدلنے میں مہارت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے آج کل بھاچپا کے ساتھ ہیں ـ

اب کانگریس رہ جاتی ہے وہ بھی نرم ہندوتوا کی راہ چل پڑی ہے، اُسے یہ گھمنڈ ہے کہ مسلم ووٹ تو اس کی جیب میں ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ بدرالدین اجمل کو آسام میں اور کیجریوال کو دہلی میں گھاس نہیں ڈال رہی ہے جو ہرطرح سے سمجھوتے کے لئے تیار ہیں ـ دوسری طرف کچھ چھوٹی اور علاقائی پارٹیاں بھی موقع کا فائدہ اُٹھا کر گانگریس کو بلیک میل کرنا چاہتی ہیں، مثلا مہاراشٹر میں پرکاش امبیڈکر ہیں جن کا صرف مہاراشٹر کی ایک سیٹ اکولہ میں کچھ اثر ہے باقی دوسرے علاقوں میں اُن کا اثر کیا اُن کا سنگٹھن بھی نہیں ہے پتہ کیوں اویسی صاحب کی حمایت پاکر غلط فہمی کاشکار ہوگئے، دراصل اورنگ آباد میں اویسی کے ساتھ اُن کا جوجلسہ ہوا اُس میں ہزاروں مسلمان اویسی کی تقریر سننے کے لئے جمع ہوگئے تھے، اول تو تقریر سننے کے لئے آنے والے سارے افراد کا ووٹ دینا بھی یقینی نہیں ہوتا اب اویسی نے مہاراشٹر میں الیکشن لڑنے سے ہی منع کردیا ہے اس صورت میں مسلمانوں کے ووٹ امبیڈکر کو ملنا کیسے یقینی ہوجائے گا ـ یہی وجہ ہے کہ اورنگ آباد سے ایم آئی ایم کے ایم ایل اے امتیاز خلیل پارٹی سے استعفا دے کر آزاد الکشن لڑرہے ہیں ـ یہی امبیڈکر صاحب مہاراشٹرا کی چالیس سےمیں سترہ سیٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ کانگریس این سی پی اُنھیں چار سے پانچ سیٹیں دے رہی تھیں، حالانکہ یہ بھی اُن کی حیثیت سے ذیادہ ہے ـ

یوپی میں مایاوتی کی رسی کا بل ابھی تک نہیں گیا ہے جبکہ پچھلے الیکشن میں پارلیمنٹ میں ان کا ایک بھی نمائندہ نہیں پہونچا تھا، اسمبلی میں بھی بڑی مشکل سے ۱۹ سیٹیں جیت پائی تھیں، دوسری طرف اکھلیش کانگریس کو بھی اتحاد کا حصہ بنانا چاہتے تھے مگر مایاوتی کی اکڑ کے آگے مجبور ہوگئے، بالاخر دونوں نے یوپی میں گانگریس کو صرف دو سیٹیں بخش کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ـ

گانگریس یوپی میں کتنی ہی کمزور سہی مگر بہر حال وہ ایک نیشنل پارٹی ہے، آج کل جو ماحول ہے اس میں ممکن ہے اپنے دم پر یوپی میں ایک بھی سیٹ نہ نکال سکے مگر آج بھی وہ اتنا دم خم رکھتی ہے کہ یوپی کے مہاگٹھ بندھن کی جیتنے والی دودرجن سیٹیوں میں ووٹ کاٹ کر سپا بسپا کو ہارنے کے لئے مجبور کردے ـ آرایل ڈیی کے ساتھ دونوں پارٹیوں کا اتحاد آٹھتر سیٹوں پر یو پی میں الیکش لڑرہا ہے، سو فیصد کامیابی تو کبھی نہیں ملتی، آٹھتر میں ذیادہ سے ذیادہ یہ اتحاد چالیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکتا تھا، ان جیتنے والی چالیس میں اگر دودرجن سیٹوں میں کانگریس نے اچھے خاصے ووٹ کاٹ لئے جس کے یوپی میں پرینکا کے دورے کے بعد آثار بڑھ گئے ہیں تو ان تینوں پارٹیوں کے پاس صرف پندرہ سولہ سیٹیں ہی آئیں گی ـ کانگریس بہر حال ملک گیر پارٹی ہے، چار پانچ ریاستوں میں اس کی سرکاریں ہیں، اس بار راہل و پرینکا جیسی محنت کررہے ہیں ان کو عوام کی جیسی حمایت مل رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بار یوپی میں بالفرض ایک بھی نہ ملے تب بھی کانگریس کی سیٹیں بہر حال پہلے کے مقابلے میں تین گنی ہوجائیں گی ـ اس طرح کانگریس تو فائدے میں ہی رہے گی، مگر سپا بسپا جو صرف یوپی تک محدود ہیں ان کا تو وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے ـ اس لئے یوپی اتحاد میں کانگریس کاشامل ہونا صرف کانگریس ہی کی ضرورت نہیں بلکہ سپابسپا کی بھی ضرورت ہے…….. ـ مگر یہ بات مہارانی مایاوتی جو دلتوں کو اپنی ملکیت سمجھتی ہیں حالانکہ پچھلے دو الیکشنوں میں دلتوں نے ان کو انکی اوقات بتادی ہے کو کون سمجھائے جن کا ذائقہ صرف اس وجہ سے خراب ہوگیا کہ پرینکا نے سہارنپور کے ہسپتال میں راون سے کیوں ملاقات کرلی ـ

۲۰۱۹ کے اس الیکش کےپورے منظرنامے کو اگر سامنے رکھا جائے تو تصویر بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ ۲۳ مئی کو جب نتائیج سامنے آئیں گے تو مودی کی موجودہ حکومت ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوگی ـ

اس لئے ہم ملت کے تمام ارباب حل وعقد اور تمام ملی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ نقش دیوار کو پڑھیں، ملک میں جس طرح کی ہوائیں چل رہی ہیں اس کوسمجھیں ـ اس دیش میں سیکولرازم کا سارا ٹھیکہ ہم نے نہیں لے رکھا، وہ پارٹیاں جو پچھلے پانچ سالوں سے سیکولر ازم، دستور اور ملک کی مشترکہ تہذیب کی دہائی دے رہی ہیں جب اُن کو فسطائی طاقتوں کو ہرانے میں دلچسپی نہیں ہے، توہم کیوں کسی سے دشمنی مول لیں ـ وہ لوگ جو جیتنے کی صورت میں وزیر بنتے،عالی شان بنگلوں میں رہتے، لگزری گاڑیوں میں چلتے، سرکاری خرچہ پر بیرون ملک کی سیاحت فرماتے جب وہ پھسڈی ثابت ہورہے ہیں، ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو ہم کیوں ان کے لئے مرے جارہے ہیں ـ

ساری نام نہاد سیکولرپارٹیاں مسلم ووٹوں کو اپنی بپوتی سمجھ رہی ہیں، مگر ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ ہم بتاشوں کی طرح اپنے ووٹ ہارنے والی پارٹیوں میں کیوں تقسیم کریں ……… ہم باضابطہ نتائج سے قبل ہی اجتماعی طور پر جیتنے والے محاذ کے ساتھ اعلانیہ عہد وپیمان کرکے اپنے ملی و قومی مفادات کیوں نہیں محفوظ کرلیتے، ہم سپابسپا، کانگریس، ترنمول وغیرہ کا بھلا چاہتے ہیں اپنا بھلا کب چاہیں گے.ـ

ہمیں معلوم ہے ہماری یہ معروضات آجکل ملت میں رائج نفسیات سے ہٹ کر ہیں ،جذباتی نعرے لگانے والے ہمارے بزرگ اس کو بالکل پسند نہیں فرمائیں گے، ہم پر شدید تنقیدیں بھی ہوں گی…….. مگر کچھ دنوں کے بعد جب الیکشن کے نتائج سامنے آئیں گے تو محسوس ہوجائے گا کہ دیوانہ سچ کہہ رہا تھا مگر تب تک دیر ہوچکی ہوگی ـ

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.